انڈیا میں کورونا وائرس کی خطرناک دوسری لہر: کیا 85 برس کے نارائن دبھادکر نے واقعی ہسپتال میں اپنا آکسیجن بیڈ نوجوان مریض کو دیا؟

پراوین مادھولکر - بی بی سی مراٹھی


’نارائن دبھادکر کووڈ 19 کے مریض تھے لیکن انھوں نے ہسپتال میں زیر علاج ایک نوجوان مریض کو اپنا آکسیجن بیڈ دیا۔‘ انڈیا کے شہر ناگپور کا یہ واقعہ سوشل میڈیا پر وائرل ہوا اور اب اس پر شدید بحث و مباحثہ ہو رہا ہے۔

ناگپور کے محکمہ شماریات سے ریٹائر ہونے والے 85 برس کے دبھادکر پچھلے کچھ دنوں سے کووڈ 19 سے متاثر تھے۔

ان کی حالت تشویشناک تھی اور انھیں آکسیجن بیڈ کی اشد ضرورت تھی لیکن کہا جا رہا ہے کہ انھوں نے اپنا آکسیجن بیڈ کسی دوسرے مریض کو دے دیا اور اس کے تین دن بعد ان کی موت ہو گئی۔

واضح رہے کہ انڈیا میں کووڈ کی دوسری لہر میں بہت سے مریضوں کو ہسپتالوں میں بستر نہیں مل رہے ہیں۔

نارائن دبھادکر کے لواحقین کا کہنا ہے کہ انھوں نے اپنا بستر کسی دوسرے مریض کو دیا تھا لیکن ناگپور میونسپل کارپوریشن کا کہنا ہے کہ ’اپنا بستر چھوڑنے کے بعد مریض کو یہ فیصلہ کرنے کا حق نہیں کہ وہ اسے کس کو دے کیونکہ بستر مریضوں کی حالت دیکھ کر فراہم کیے جاتے ہیں۔‘

بی بی سی نے دبھادکر کی موت اور اس سے وابستہ تمام واقعات کی خفیہ تحقیقات کرنے کی کوشش کی۔

یہ بھی پڑھیے

ٹوئٹر پر اپنے دم توڑتے دادا کے لیے آکسیجن کی اپیل کرنے والے نوجوان کے خلاف مقدمہ

’ہمیں ہسپتال کے بستر کی تلاش میں 200 افراد کو فون کرنا پڑے‘

انڈیا میں وائرل وہ تصویر جو ملک میں کووڈ سے ہونے والی تباہی کی علامت بن گئی

اندرا گاندھی ہسپتال کے کووڈ ڈیپارٹمنٹ کے سربراہ اجے ہرداس نے اس دن کی یاد تازہ کرتے ہوئے بتایا ’نارائن دبھادکر کو 22 اپریل 2021 کو ہمارے ہسپتال میں لایا گیا تھا اور ہم نے فوراً ہی ان کا علاج شروع کیا لیکن علاج کے دوران انھوں نے یہ کہنا شروع کر دیا کہ وہ گھر جانا چاہتے ہیں۔ وہ بار بار کہہ رہے تھے کہ میں ہسپتال میں نہیں رہنا چاہتا۔‘

ہرداس نے واقعے کے بارے میں کہا کہ ’ہمیں نہیں معلوم کہ وہ (دبھادکر کا خاندان) دبھادکر کو گھر لے جانے کی اجازت کیوں مانگ رہے تھے۔ 22 اپریل کو مریضوں کی ایک بڑی تعداد ہمارے ہسپتال میں آئی۔ چونکہ یہ میٹروپولیٹن میونسپلٹی کا ہسپتال ہے لہٰذا ہم کسی کو واپس نہیں بھیجتے۔ علاج کے وقت نارائن دبھادکر کے جسم میں آکسیجن کی سطح میں بہتری آرہی تھی۔ ہم انھیں کووڈ وارڈ میں شفٹ کرنے جا رہے تھے لیکن ان کے خاندان نے کہا کہ وہ انھیں گھر لے جانا چاہتے ہیں۔ ہم نے انھیں اجازت دے دی۔‘

ہرداس کہتے ہیں کہ ’لیکن گھر لے جانے کے بعد نارائن دبھادکر کی حالت خراب ہو گئی۔ انھیں اس وقت وینٹی لیٹر کی ضرورت تھی لیکن ہمارے ہسپتال میں وینٹیلیٹر کی سہولت نہیں۔‘

’دبھادکر کے خاندان کو انھیں کسی ایسے ہسپتال لے جانا چاہیے تھا جہاں پر وینٹیلیٹر کی سہولت موجود ہوتی لیکن اب ہمیں بڑے غم کے ساتھ کہنا پڑ رہا ہے کہ نارائن دبھادکر ہمارے درمیان نہیں رہے۔‘

نارائن دبھادکر کی بیٹی اساوری کوتھیوان نے بتایا کہ ’ہمارا پورا خاندان 16 اپریل سے کووڈ سے متاثر تھا چونکہ والد ہمارے ساتھ رابطے میں تھے، اس لیے وہ بھی انفکشن سے متاثر ہو گئے۔ ان کے کووڈ انفیکشن میں متاثر ہونے کی رپورٹ 19 اپریل کو آئی تھی۔ جب اچانک ان کے آکسیجن کی سطح میں تیزی سے کمی واقع ہوئی تو ہم خوفزدہ ہو گئے۔ انھیں فوراً آکسیجن بیڈ کی ضرورت تھی۔ بہت کوشش کے بعد ہمیں گاندھی نگر کے اندرا گاندھی ہسپتال میں آکسیجن بیڈ مل گیا۔‘

اساوری نے بتایا کہ ’خراب حالت کے باوجود انھیں چند گھنٹوں میں گھر لایا گیا۔ والد نے بتایا کہ انھوں نے ہسپتال میں ایک عورت کو روتے ہوئے دیکھا۔ اس خاتون کے شوہر کی عمر 40 سال ہو گی۔ ان کے پاس آکسیجن بیڈ نہیں تھا۔ میرے والد نے ڈاکٹر سے کہا کہ میں نے اپنی زندگی بسر کر لی ہے لیکن یہ نوجوان زندہ رہنا چاہیے۔ اسے میرا آکسیجن بیڈ دے دیں۔ بابا کی حالت بہت نازک تھی، وہ اس حالت میں کچھ گھنٹوں کے لیے گھر میں رہے۔ ان کے ناخن کالے ہو گئے اور ہاتھ پاؤں بے حس ہو چکے تھے۔ انھوں نے گھر میں آخری سانس لی۔‘

نارائن دبھادکر کی موت کے بعد ان کی تصویر اور یہ واقعہ سوشل میڈیا پر وائرل ہوا۔ بہت سارے لوگوں نے ان کے لیے احترام کا اظہار کیا جبکہ کچھ کا کہنا تھا کہ ان کی تعریف نہیں کی جانی چاہیے۔

مدھیہ پردیش کے وزیر اعلیٰ شیوراج سنگھ چوہان نے دبھادکر کی موت کے بارے میں ٹویٹ کیا۔ ہندو انتہا پسند تنظیم آر ایس ایس کی ایک اشاعت نے بھی دبھادکر کی کہانی شائع کی۔

اندرا گاندھی ہسپتال ناگپور میونسپل کارپوریشن کے زیر انتظام ہے۔ بی بی سی مراٹھی نے اس واقعے کے سلسلے میں میونسپل کارپوریشن کے تعلقات عامہ کے افسر سے بات کی۔

انھوں نے کہا کہ ’22 اپریل 2021 کو نارائن دبھادکر کو گاندھی نگر کے اندرا گاندھی ہسپتال میں داخل کرایا گیا تھا، جو میٹرو پولیس کے دائرہ کار میں آتا ہے لیکن وہاں کچھ گھنٹوں کے علاج کے بعد ان کے اہلخانہ نے انھیں گھر لے جانے کا مطالبہ کرنا شروع کر دیا۔‘

انھوں نے مزید بتایا کہ ’دبھادکر کو ڈاکٹروں کی تجویز کے خلاف ہسپتال سے فارغ کیا گیا۔ اس بات کا انکشاف نارائن دبھادکر سے وابستہ ہسپتال کے ریکارڈ کو دیکھنے کے بعد ہوا۔‘

کیا نوجوان مریض کو ہسپتال میں بستر ملا تھا؟

دبھادکر کی بیٹی کا دعویٰ ہے کہ ان کے والد نے کہا تھا کہ وہ گھر جانا چاہتے ہیں اور اپنا بستر 40 برس کے نوجوان مریض کو دینا چاہتے ہیں لیکن بہت کوشش کے باوجود بھی اس نوجوان مریض کے بارے میں پتہ نہیں چل سکا۔

تاہم ناگپور میونسپل کارپوریشن کے اندرا گاندھی ہسپتال کے ڈاکٹروں کا کہنا ہے کہ جب دبھادکر کی حالت تشویشناک ہو گئی تو انھیں وینٹیلیٹر لگانے کی ضرورت تھی لیکن اس ہسپتال میں وینٹیلیٹر دستیاب نہیں تھا۔

دبھادکر کو ہسپتال کے ایمرجنسی ڈیپارٹمنٹ میں داخل کیا گیا تھا جبکہ پانچ دیگر مریض بھی کووڈ وارڈ میں ایمرجنسی میں علاج کے منتظر تھے۔

نارائن دبھادکر راشٹریہ سویم سیوک سنگھ (آر ایس ایس) کے ایک سرگرم رکن تھے۔ انڈیا کے شمال مشرقی وداربہا صوبے میں ہندو انتہا پسند تنظیم آر ایس ایس کے تعلقات عامہ کے سربراہ انیل سامبرے نے بھی دبھادکر کو خراج تحسین پیش کیا۔

انھوں نے کہا کہ ’آر ایس ایس کے سینئر رضاکار سے متعلق واقعہ سچ ہے۔ انھوں نے ہسپتال سے کہا تھا کہ ان کا بستر ایک اور مریض کو دیا جانا چاہیے لیکن کچھ لوگ اس بارے میں سوشل میڈیا پر غلط معلومات پھیلا رہے ہیں۔‘

تاہم آر ایس ایس نے ابھی تک اس پورے واقعے کے بارے میں کوئی سرکاری بیان جاری نہیں کیا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32297 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp