گولڈن گرلز: مردانگی چند انچوں کا نام نہیں


پیاری رابعہ،

آپ کو مردوں کی طرف سے سوال موصول ہو رہے ہیں، مجھے اعتراض موصول ہو رہے ہیں۔ ایک محترم ساتھی دو بار میرے گولڈن گرلز کا حصہ بننے پر اعتراض کر چکے ہیں۔ انہوں نے اپنے پہلے اعتراض میں مجھے کہا کہ اپنے لیے بر ڈھونڈو، گولڈن گرل نہ بنو۔ دوسری بار میرے ایک بلاگ پر تبصرہ کیا کہ پہلی بار اچھی لکھاری لگی ہو ورنہ گولڈن گرلز جیسی تحاریر سے تو پراپیگنڈسٹ رائٹر لگتی ہو۔

میں ان کا احترام کرتی ہوں پر وہ میرا احترام نہیں کرتے۔ اگر وہ میرا احترام کرتے تو اتنے سخت جملے نہ کہتے۔ اچھا خاصا لکھتے ہیں۔ یقیناً اپنی بات کو بہتر طریقے سے کہنا اور لکھنا جانتے ہیں۔ آزادی اظہار رائے سب کا حق ہے۔ میں جو چاہے لکھوں۔ میں نے کبھی کسی کے اظہار کے حق پر اعتراض نہیں کیا تو کوئی میرے اظہار کے حق پر اعتراض کیوں کرے؟ دوم، میرا اچھا لکھاری ہونا گولڈن گرلز میں بھی نظر آنا چاہیے، صرف ان بلاگز میں کیوں نظر آ رہا ہے جن کا تعلق عورت، اس کے مسائل اور اس کے حقوق سے نہیں ہے۔ اس کا مطلب ان کا مسئلہ میری لکھائی نہیں بلکہ میرا نظریہ ہے۔ وہ میرے نظریے سے اختلاف رکھ سکتے ہیں لیکن اس اختلاف میں مجھے پراپیگنڈسٹ رائٹر کہنے کا انہیں کوئی حق نہیں۔

وہ کہتے ہیں نا
well behaved women rarely makes history

تو جانی نہ ہم اچھی عورتیں ہیں نہ ہمارے لچھن ان جیسے ہیں۔ ہمارے بارے میں باتیں ہوں گی، انجان بھی کریں گے، جاننے والے بھی کریں گے۔ کرتے رہیں۔ جس کا کام اس کو ساجھے۔ ہمارا کام یہ ہے، ہم یہ کرتے ہیں۔ ان کا کام ہمارا کام دیکھ کر باتیں کرنا ہے تو وہ، وہ کر لیں۔

اب آپ کی تحریر پر آتے ہیں۔ آپ نے پوچھے جانے والے سوالوں میں سے ایک سوال کا جواب دے کر پوری سیریز کو پلٹ کر رکھ دیا ہے۔ عورت کی نظر میں مردانگی کیا ہے، اچھا سوال ہے۔ یہ تو دنیا کا دستور ہے کہ کسی بھی شے کو مارکیٹ میں لانے سے پہلے اس کے ممکنہ خریداروں سے اس کے حوالے سے ان کی توقعات پوچھی جاتی ہیں تاکہ ان کے مطابق ہی اس شے کو بنایا جا سکے اور مارکیٹ میں لایا جا سکے۔ مردوں نے اپنی مردانگی عورت کو ہی دکھانی ہوتی ہے تو اس سے پوچھنا تو بنتا ہے کہ وہ مردانگی کو کیا سمجھتی ہے اور اسے کس صورت میں اپنے اردگرد دیکھنا چاہتی ہے۔

آپ نے لکھا کہ عورت کے نزدیک محبت، عزت ہے اور اس معاشرے کا مرد اس کی عزت نہیں کرتا۔ میں سمجھتی ہوں کہ مرد اپنی ہی عزت نہیں کرتے۔ تب ہی تو جو چاہے کہہ دیتے ہیں، جو چاہے کر دیتے ہیں۔ نہ اپنے جسم کا خیال، نہ ذہن کا، نہ روح کا۔ مرد اپنی عزت کریں تو کچھ بھی کہنے یا کرنے سے پہلے دس بار سوچیں۔ اپنی عورتوں پر چیختے چنگھاڑتے یا انہیں مارتے پیٹتے نہ رہیں۔ یہ بداخلاقی ہے اور جرم ہے۔ انہیں اپنی عورتوں اور اس معاشرے کا احسان مند ہونا چاہیے ورنہ قوانین تو یہاں بھی موجود ہیں اور ان پر عمل بھی کروایا جا سکتا ہے۔

آپ نے لکھا کہ ”عورت چاہتی ہے کہ اسے نرمی سے بات کی جائے، سلیقے سے گھر میں رہا جائے، ہر بات پہ روکا ٹوکی نہ کی جائے۔ جابریت کے بادل ہر وقت نہ چھائے رہیں۔ کہ جس میں وہ مرجھا جائے۔ اصل مرد وہ ہے جس کے ساتھ میں عورت پھول کی طرح کھل اٹھے اور خوشبو کی طرح مہکنے لگے۔“

میں کہتی ہوں عورت اور مرد کی بحث میں کیا پڑنا، آئیں انسان کی بات کرتے ہیں۔ ہم پہلے انسان ہیں پھر عورت، مرد یا ٹرانس جینڈر۔ ایک دوسرے سے جنس کی بنیاد پر مختلف برتاؤ کیوں کرنا۔ نہ مرد عورت کے بغیر چل سکتا ہے نہ ہی عورت مرد کے بغیر چل سکتی ہے۔ دونوں ایک دوسرا کا ہاتھ تھامے، ایک دوسرے کو سہارا دیے آگے کیوں نہیں بڑھتے؟

پدر شاہی معاشرے میں مرد سے توقع کی جاتی ہے کہ وہ غصہ کرے، چیخے چلائے، اور عورت سے توقع کی جاتی ہے کہ وہ صبر کا مظاہرہ کرتے ہوئے مرد کی ہر نا انصافی برداشت کرے، مرد کو دیکھ کر ہی اس کا موڈ سمجھ جائے اور اس کے مطابق ہی اپنا قدم اٹھائے۔ ارے دو انسانوں سے اتنی توقعات کیوں؟ کیا دو انسان ایک دوسرے کے ساتھ برابری کی بنیاد پر نہیں رہ سکتے؟ کیا ایک باپ اپنی بیٹی سے دوست بن کر اس کے مستقبل کے بارے میں بات نہیں کر سکتا؟

اگر بھائی کو پیسوں کی ضرورت ہے تو وہ بہن سے طریقے سے بات نہیں کر سکتا؟ کیوں وہ مختلف طریقے آزما کر اس کے حصے پر قبضہ کرتا ہے؟ ارے صاف کہہ دو۔ انسان تو محبت کا بھوکا ہوتا ہے اور عورت تو سراپا محبت ہے۔ مرد کو زندگی بنانے کے لیے خاندان کے سہارے کی ضرورت ہوتی ہے۔ ہم عورتیں اپنی زندگی خود بناتی ہیں۔ ہمیں گھر والوں کی طرف سے کاروبار میں شریک نہیں بنایا جاتا نہ کوئی ہماری نوکری کے لیے رشتے داروں اور ملنے والوں سے درخواست کرتا ہے۔ ہمیں تو روکا جاتا ہے۔ ہم پھر بھی آگے بڑھتی ہیں اور اپنی زندگی بناتی ہیں۔ اپنے علاوہ اپنے گھر والوں کی بھی زندگیاں بناتی ہیں۔ تم ایک بار پیار سے بات کر کے تو دیکھو۔ تم ایک بار ہمیں اپنے برابر کا سمجھ کر تو دیکھو۔ ہمیں تمہارے ان چند روپے سے کیا لینا دینا۔

ڈاکٹر لبنیٰ مرزا نے بھی اس موضوع کو آگے بڑھاتے ہوئے مشرق اور مغرب کے مردوں کے مابین فرق کا ذکر کیا۔ میں نے یہ فرق چین کے مردوں میں بھی دیکھا ہے۔ دیسی مرد چینی مردوں کو خود سے کم تر سمجھتے ہیں اور اس کی وجہ وہی ہے جو آپ نے اپنے بلاگ میں لکھی ہے۔ ان کے ذہنوں میں مردانگی بس وہی ہے جس کی کمزوری کے اشتہار دیواروں پر لکھے نظر آتے ہیں۔ یہاں دیسی آدمی اکڑتے پھرتے ہیں کہ ان کے پاس چینی مردوں کے مقابلے میں ایک ڈیڑھ انچ زیادہ مردانگی ہے۔ ان کے دماغ ان کی شلواروں سے باہر نکلیں تو انہیں سمجھ آئے کہ عورت کو ان اضافی انچوں سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ اسے تو چاہے جانے کا احساس چاہیے جس کے لیے کسی خلوت کی ضرورت نہیں۔ وہ احساس تو ایک فاصلے سے بھی محسوس ہو جاتا ہے۔ اگر وہ احساس ہی نہ ہو تو ان انچوں کا بھی کوئی فائدہ نہیں۔

چین میں بھی روایتی مرد موجود ہیں لیکن اکثریت ان روایات کو پیچھے چھوڑ کر جدید روایات کو اپنا چکی ہے جو انہیں عورت کا وجود قبول کرنا سکھاتی ہیں، اس کے ساتھ ہنسنا، بولنا، رونا، سونا اور جاگنا سکھاتی ہیں۔ یہاں عورت کا سکہ مضبوط ہے۔ مرد اپنے آپ کو خدا نہیں سمجھتا۔ اسے پتا ہے کہ اسے اس کی زندگی میں موجود عورتیں مکمل کرتی ہیں۔ وہ بھی ان کے ساتھ مخلص زندگی گزارتا ہے۔ ہمارے دیسی مردوں میں اسی اخلاص کی کمی ہے۔ ان کی باتیں بڑی بڑی ہوتی ہیں پر جب ان باتوں پر عمل کرنے کی باری آتی ہے تو ان۔ کا قد بونے سے بھی چھوٹا ہو جاتا ہے۔

آپ نے لکھا کہ اکثر عورتیں گلہ کرتی ہیں کہ انہیں سچا پیار نہیں ملا۔ ہمارے ہاں یہ بات بچوں کی تعداد دیکھ کر ہنسی میں اڑا دی جاتی ہے۔ آج ہی ایک بھارتی فلم پگلیٹ دیکھی۔ فلم کی ہیروئن شادی کے پانچ ماہ بعد ہی بیوہ ہو جاتی ہے۔ ان پانچ ماہ میں اس نے جو خالی پن محسوس کیا اوہ اسے شوہر کی وفات کا غم بھی محسوس نہیں کرنے دیتا۔ ایک دن اسے اپنے شوہر کی الماری سے اس کی محبوبہ کی تصویر ملتی ہے پھر اسے سمجھ آتا ہے کہ اس کے خالی پن کی وجہ شوہر کا ساتھ پانے کے باوجود اس کی محبت نہ پا سکنا تھا۔

میں اس کے شوہر کی محبوبہ کو دیکھتے ہوئے سوچ رہی تھی کہ اسے اس آدمی کی محبت ملی لیکن اس کا ساتھ نہ مل سکا۔ وہ بھی خود کو ادھورا محسوس کرتی ہوگی۔ سچا پیار تو انسان کو ایک نئے جہان میں لے جاتا ہے۔ مجھے ان لوگوں پر ترس آتا ہے جنہیں سچا پیار ملتا ہے لیکن وہ اسے خود دھکے دے کر اپنی زندگی سے باہر نکال دیتے ہیں۔

اس سے ایک دن قبل میں نے بیجنگ کے ایک سب وے سٹیشن پر محبت کو مکمل ہوتے ہوئے دیکھا۔

چین میں یوم مزدور کے موقع پر پانچ چھٹیاں ہوئی ہیں۔ جمعہ کو آخری دن تھا۔ کام سے واپسی پر سب وے سٹیشن پر ایک درمیانی عمر کا جوڑا دکھا۔ دونوں نے ایک ہی رنگ کا لباس پہنا ہوا تھا۔ ایسے لگ رہا تھا جیسے وہ اپنی بھاگتی ہوئی زندگی سے کچھ پل چرا کر گھر سے نکلے ہیں اور ان پلوں کو جینے کہیں دور جا رہے ہیں۔ عورت مرد کا سہارا لیا اس کے آگے کھڑی تھی اور مرد نے اس کے گرد اپنی بانہیں باندھی ہوئی تھیں۔ دونوں اسی حالت میں چپ چاپ کھڑے سب وے کا انتظار کر رہے تھے۔ ان کے اس سادہ سے انداز میں جو قربت نظر آ رہی تھی، اسے سچا پیار کہتے ہیں۔ محبت کی یہ سچائی ہر ایک پر آشکار نہیں ہوتی۔ مجھ پر بھی نہیں ہوئی۔ آپ پر ہوئی ہو تو بتائیے گا۔

گولڈن گرلز - رابعہ الربا اور تحریم عظیم
اس سیریز کے دیگر حصےمیری نظر میں مردانگی کیا ہے؟میری نظر میں مردانگی کیا ہے؟ سوالات کے جواب

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

گولڈن گرلز - رابعہ الربا اور تحریم عظیم

گولڈن گرلز کے عنوان کے تحت رابعہ الربا اور تحریم عظیم بتا رہی ہیں کہ ایک عورت اصل میں کیا چاہتی ہے، مرد اسے کیا سمجھتا ہے، معاشرہ اس کی راہ میں کیسے رکاوٹیں کھڑا کرتا ہے اور وہ عورت کیسے ان مصائب کا سامنا کر کے سونا بنتی ہے۔ ایسا سونا جس کی پہچان صرف سنار کو ہوتی ہے۔

golden-girls has 28 posts and counting.See all posts by golden-girls

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments