مزدور سے متعلق تصورات کی تصحیح


سوشل میڈیا ہر شخص کا اخبار، ہر شخص کا ڈائجسٹ اور ہر شخص کا اپنا ذریعۂ اظہار یعنی میڈیم بن چکا ہے۔ یکم مئی کے روز لوگوں نے یہ جانے بغیر کہ ”یوم مئی“ کی تاریخ کیا ہے، یوم مئی کو سب سے پہلے کہاں سرکاری طور پر منایا جانے لگا اور مزدور جن کے لیے یہ دن اب دنیا بھر میں ماسوائے روس کے ( کیونکہ یہاں اب یکم مئی کو ”یوم بہار و محنت“ کا نام دیا جا چکا ہے ) ”یوم مزدور“ کے نام سے منایا جانے لگا ہے، وہ مزدور کس نوعیت کا مزدور ہو سکتا ہے، ہر طرح کے طغرے اور تاثرات سوشل میڈیا پر آویزاں کیے۔ دانشوروں نے اخبارات میں مضمون لکھے جیسے ایک بڑے افسر یاسر پیرزادہ نے مزدوروں کے بارے میں مضمون لکھا۔

1843 میں جرمنی کی ایک خاتون فلورا ٹرسٹان نے صنعتی مزدوروں کی یگانگت سے متعلق ایک کتاب لکھی تھی جس میں کچھ مختلف انداز میں دنیا بھر کے مزدوروں کو متحد ہونے کے بارے میں کہا گیا تھا۔ پانچ برس بعد جب کارل مارکس اور فریڈرک اینگلز نے ”کمیونسٹ مینی فسٹو“ نام کا معروف کتابچہ رقم کیا ، اس میں ”دنیا بھر کے مزدورو، ایک ہو جاؤ“ کا نعرہ دیا گیا تھا۔

صنعتی عہد کے آغاز میں صنعتی مزدوروں کے حالات کار بہت ناقص تھے اور اوقات کار تو 12 سے 16 گھنٹے سے کسی طور بھی کم نہ تھے۔ صنعتی مزدوروں کے اوقات کار کو آٹھ گھنٹے کرانے کی خاطر صنعتی مزدور جدوجہد کرتے رہے تھے تاکہ آٹھ گھنٹے کام کریں، آٹھ گھنٹے گھر اور گھر کے کاموں کو دیں اور آٹھ گھنٹے آرام کریں، لیٹ لیں، سو جائیں۔

1886 میں امریکہ کے شہر شکاگو میں یکم مئی سے اسی سلسلے کے مظاہرے جاری تھے کہ 4 مئی کو کسی ”نامعلوم شخص“ نے بم پھینک دیا، پولیس نے گولی چلا دی۔ کئی پولیس والے اور عام لوگ مارے گئے۔ بعد میں حکمرانوں نے کئی مزدور رہنماؤں اور مزدروں کو حراست میں لے لیا تھا اور کئی کو سرعام پھانسی دے دی گئی تھی۔

1904 میں کمیونسٹوں اور سوشلسٹوں کی ”فرسٹ انٹرنیشنل“ میں یکم مئی کو مزدوروں کے دن کے طور پر منانے کی قرارداد منظور کی گئی تھی۔ 1917 کے انقلاب کے بعد جب سوویت یونین قائم ہو گئی تو یکم مئی کو ایک تہوار کے طور پر منایا جانے لگا تھا۔ ریت کے طور پر اسے مشرقی یورپ کے دیگر سوشلسٹ حکومتوں والے ملکوں، عوامی جمہوریہ چین، شمالی کوریا اور کیوبا میں بھی منایا جانے لگا اور سوویت یونین کے انہدام کے بعد اسے روس کے علاوہ دنیا کے بیشتر ملکوں میں سرکاری طور پر منایا جانے لگا ہے۔

اصل حقیقت یہی ہے کہ تکنیکی طور پر مزدور صنعتی مزدور کو سمجھا جاتا ہے جس کے ہاتھ میں آلات کار نہیں ہوتے بلکہ جن آلات کار کے ذریعے وہ محنت کرتا ہے وہ سرکار، نجی افراد یا داروں کے ہاتھ میں ہوتے ہیں۔ صنعتی مزدوروں کو لگی بندھی تنخواہیں دی جاتی ہیں اور بعض اوقات بونس بھی۔

مگر صنعتی مزدور کی محنت سے سرمایہ دار، حکومت یا ادارے کو کارخانوں اور فیکٹریوں میں کام کرنے والے مزدوروں کو ادا کی جانے والی تنخواہوں کی نسبت کئی گنا زیادہ منافع حاصل ہوتا ہے۔ یوں سمجھا جاتا ہے کہ آلات کار یعنی کارخانے اور فیکٹری کا مالک یا مالکان مزدور کا استحصال کرتے ہیں۔

مزدوروں کے مفادات کا خیال رکھنے کی خاطر مزدوروں کی سوداکاری انجمنیں جنہیں ٹریڈ یونین کہا جاتا ہے بنائی جاتی ہیں جو کارخانے کے مالکان سے مزدوروں کے مالی مفادات اور دیگر سہولتوں کو بڑھائے جانے سے متعلق سودے کرتی ہیں۔ ایسی انجمنوں کے اکٹھ کو فیڈریشنیں کہا جاتا ہے۔ فیڈریشنوں کے بین الاقوامی سطح پر رابطے ہوتے ہیں تاکہ اس ضمن میں دوسرے ملکوں کے تجربات سے فائدہ اٹھایا جا سکے یا جہاں حالات بہتر ہیں وہاں کی فیڈریشنیں جن ملکوں کے مزدوروں کے حالات اچھے نہیں، انہیں مشورے دے سکیں۔ وفود کا تبادلہ کر سکیں، سیمینار اور کانفرنسوں کا اہتمام کر سکیں۔

اس کے برعکس ایسے مزدور جو اپنے طور پر کام کرتے ہیں اور جن کو آلات کار درکار نہیں ہوتے یا جو ایک دو آلات کار ہوتے بھی ہیں وہ ان کی ذاتی ملکیت ہوتے ہیں جیسے گھریلو ملازمین یا راج مستری تعمیراتی مزدور وغیرہ، کو صنعتی مزدوروں میں شامل نہیں کیا جاتا، نہ ہی ایسے مزدوروں کی عموماً انجمنیں ہوتی ہیں۔ ایسے محنت کرنے والے افراد چونکہ یا تو دیہاڑی پر کام کرتے ہیں یا معاوضے میں منفی مسابقت کے تحت جیسے کوئی گھریلو ملازم یا ملازمہ کام کرنے کی خاطر دوسرے ایسے شخص سے نسبتاً کم معاوضے پر کام کرنے کو تیار ہو جاتے ہیں چنانچہ ایک تو ان میں اتحاد نہیں ہو سکتا دوسرے ان کے مفادات کا کوئی تحفظ ہونا ممکن نہیں ہوتا۔

مزدوروں کی نوعیت ایک ہی ہوتی ہے۔ آلات کار کسی کے اور محنت اپنی یا آلات کار بھی اپنے اور معاوضہ بھی اپنی جیب میں یا بغیر آلات کار کے ہاتھوں سے محنت کرنا جیسے برتن دھونا، جھاڑو لگانا وغیرہ مگر اہلکاروں کی محنت دو طرح کی ہو سکتی ہے ۔ ایک خالصتاً ذہنی مشقت اور دوسری بہت حد تک ہاتھوں سے کی جانے والی مشقت۔ لکھنے والا دماغ سے سوچتا ہے اور ہاتھ سے لکھتا یا ٹائپ کرتا ہے مگر اس کی مشقت کو ذہنی مشقت شمار کیا جاتا ہے۔ ڈرائیور ہاتھ سے گاڑی چلاتا ہے لیکن دماغ سے فیصلے کرتا ہے مگر اس کی مشقت کو دستی مشقت شمار کیا جاتا ہے۔

ایسے محنت کش افراد یا اہلکاروں کی تعداد کچھ کم نہیں ہے۔ یہ لوگ اگر کسی ادارے سے وابستہ ہوں اور ان کی ادارے کے ساتھ سودے بازی کی خاطر انجمن بھی ہو تو انہیں بھی صنعتی مزدور کا درجہ دیا جائے گا جیسے ذرائع ابلاغ عامہ اخبارات، ریڈیو، ٹی وی وغیرہ سے وابستہ کمتر عہدوں پر کام کرنے والے مگر انتظامی عہدوں پر کام کرنے والے چاہے وہ اسسٹنٹ ایڈیٹر، اسسٹنٹ پروڈیوسر یا معاون کیمرہ آپریٹر ہی کیوں نہ ہوں ، صنعتی مزدوروں کے زمرے میں نہیں آئیں گے۔

کلاسیکی معانی میں مزدور، آلات کار، محنت، قدر زائد، استحصال کی ایک مخمس ہوا کرتی تھی مگر اب جبکہ انڈسٹری ہائی ٹیک ہو گئی ہے۔ کمپیوٹر کے ذریعے بڑے بڑے کارخانوں کو آپریٹ کرنا رواج بنتا جا رہا ہے۔ آپریٹ کرنے والوں کے معاوضے اور سہولیات بہت بہتر ہو گئی ہیں تو یہ مخمس بہت حد تک ڈگمگا کر رہ گئی ہے اگرچہ اس کے خطوط ابھی نہیں بدلے۔

ترقی یافتہ ملکوں کے کلاسیکی مزدوروں اور ترقی پذیر یا غیر ترقی یافتہ ملکوں کے مزدروں کے حالات کار اور معاوضوں میں بھی بہت تفریق ہے۔ یورپ کے ملکوں، امریکہ، اسرائیل جیسے ملکوں میں مزدور کے معاملات اور ہیں جیسے کہ ایک کار ہے دو کیوں نہیں، چھوٹا گھر ہے بڑا کیوں نہیں جبکہ دوسری جانب نہ کار ہے نہ گھر۔ ایسے میں دنیا بھر کے مزدوروں کو متحد ہونے کی تلقین کرنا کچھ عجیب سا لگتا ہے مگر پھر بھی محنت کی یگانگت کی تلقین کرنے میں کوئی حرج نہیں۔

البتہ عام مزدوروں کو صنعتی مزدور کا سا سیاسی یعنی معاشی طور پر باشعور سمجھا جانا کچھ درست نہیں ہے۔ بھٹہ مزدروں، کسانوں اور گھریلو ملازمین کو صنعتی مزدوروں کا ہم پلہ کسی طور قرار نہیں دیا جا سکتا۔ اگرچہ صنعتی مزدوروں کی اکثریت کا تعلق دیہات سے ہوتا ہے لیکن مزدوری کے سلسلے میں شہر میں ہونا اور ایک بڑے اکٹھ میں مل کر کام کرنا ان کے مسائل اور ان کے حل کی کوششوں میں ہم آہنگی پیدا کر دیتا ہے، یہی وجہ ہے کہ یکم مئی کے تہوار، تعطیل اور مقاصد کا تعلق بہت حد تک محض صنعتی مزدوروں کے ساتھ ہے۔

آخری مشاہدہ: ایک زمانے میں مزدوروں کی جنت سوویت یونین کے سب سے بڑے حصے روس کے دارالحکومت ماسکو میں نے یکم مئی 2018 کے روز، جن مزدوروں کو سب سے زیادہ کام کرتے دیکھا وہ سڑک کی تعمیر کے مزدور تھے، جن کے لیے ایکسکیویٹر زمین کھودتا جاتا تھا، وہ سڑک کو فٹ پاتھ سے جدا کرنے والی سلیں اٹھا اٹھا کر دھرتے جاتے تھے اور کچھ دوسرے ان دھری گئی سلوں کے دونوں جانب مٹی بھرتے جاتے تھے۔ ان کی کوئی چھٹی نہیں تھی کیونکہ ایک تو وہ صنعتی مزدور نہیں تھے دوسرے شہر کی انتظامیہ نے یہ کام کرنے کا ٹھیکہ جس کمپنی کو دیا ہوا ہے ، یہ اس کمپنی کے لیے کام کر رہے تھے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments