اصل خطۂ کشمیر کیا تھا اور کیا ہے؟


کشمیر دور قدیم میں بھی، اور آج بھی ایک مخصوص لسانی اور ثقافتی وحدت رہی ہے، اور آج بھی ہے۔ جہاں تک اس لسانی اور ثقافتی وحدت یعنی کشیر یا کشمیر کی جغرافیائی حدود کا تعلق ہے، دور قدیم سے لے کر آج تک یہ علاقے جو دریائے چندر بھاگا یعنی چناب سے لے کر کشن گنگا یعنی نیلم تک تھیں، یہ منفرد لسانی اور ثقافتی وحدت آج بھی ملحقہ علاقوں سے بالکل الگ باآسانی شناخت کی جا سکتی ہے۔

بعد ازاں کشمیر کے بیرونی حملہ آوروں کے ہاتھوں مغلوب ہو جانے کی وجہ سے ان ہی حملہ آوروں نے ملحقہ خودمختار اور آزاد ریاستوں جن میں جموں، لداخ، تبت خورد یعنی بلتستان، اور گلگت کے علاقوں میں قائم چھوٹی چھوٹی پہاڑی آزاد و خودمختار ریاستوں پر بھی قبضہ کر کے ان کو اپنے قبضہ کردہ کشمیر میں شامل کر کے ان سب علاقوں پر اپنا یعنی حملہ آوروں کا اقتدار قائم کیا۔

آج جو حضرات کسی خوش فہمی کی بنیاد پر ڈوگرہ کی ریاست کی بحالی کی بات کرتے ہیں وہ گویا ان حملہ آور طاقتور غاصبوں اور قابضین کے ”وارث“ بنائے جانے کا مطالبہ کر رہے ہیں ( نہ جانے کس سے؟ ) ان حضرات کو چاہیے کہ ڈوگروں کے جرنیل زور آور سنگھ کی طرف سے کشتواڑ، لداخ، بلتستان اور گلگت اور ملحقہ ریاستوں پر کس طرح قبضہ کیا گیا، اس کی تفصیل کا ہی مطالعہ فرما لیں۔ یہ وحدت سب سے پہلے اکبر بادشاہ کے دور میں اس کے مغل جرنیل جو بابر کا کزن بھی تھا، میرزا حیدر، کی طرف سے کشمیر کے بعد فتح کیے گئے بلکہ اس نے تو درد سلطنت کا دارالحکومت چیلاس بھی قبضہ کر لیا تھا۔

جوں ہی مغلوں کے زوال کے بعد اقتدار افغانوں کو منتقل ہوا تو ان میں سے کچھ علاقوں نے آزادی کا اعلان کر دیا، پھر افغانوں کو رنجیت سنگھ نے شکست دے کر کشمیر پر قبضہ کر لیا، اور اس نے جرنیل بھوپ سنگھ کو بھیج کر یہ تمام ریاستیں دوبارہ فوجی طور پر فتح کر کے مفتوحہ کشمیر میں شامل کر دیں لیکن گلگت میں بھوپ سنگھ کو شکست ہوئی، اور یہاں کے راجہ گوہر امان نے بھوپ سنگھ کو شکست دے کر گلگت پر قبضہ نہ ہونے دیا، لیکن بعد میں گوہر امان کے فوت ہو جانے کے بعد یہ علاقہ بھی سکھوں نے قبضہ کر لیا۔

جب سکھ حکومت کو پنجاب میں زوال آیا تو ان تمام علاقوں نے اپنی آزادی کا اعلان کر دیا، اور یہاں کے قدیم حکمران خاندانوں نے دوبارہ اپنی سابقہ ریاستوں کا اقتدار سنبھال لیا، صرف وادی کشمیر، اور پونچھ میں سکھوں کے گورنر شیخ امام دین کا قبضہ برقرار رہا۔ جب سکھوں کی انگریزوں کے ہاتھوں شکست کے بعد کشمیر کو، انگریزوں نے ڈوگرہ گلاب سنگھ کے ہاتھ اس کی سکھوں کے ساتھ غداری کے صلے کے طور پر، بیع نامہ امرتسر کے نام سے فروخت کر دیا، اور گلاب سنگھ نے انگریزی فوج اور توپخانہ کی مدد سے کشمیر میں تعینات سکھوں کے گورنر شیخ امام دین سے وادی کشمیر کا قبضہ حاصل کیا۔

اب ڈوگرہ جرنیل زور آور سنگھ نے دوبارہ سے ان سب علاقوں کو انتہائی ظلم و ستم اور فوجی برتری سے فتح کر کے ریاست میں شامل کر دیا۔ یہ سب تفصیل موہن لال کی تاریخ پنجاب اور حشمت اللہ خان کی تاریخ جموں میں مطالعہ کی جا سکتی ہیں، ان کے علاوہ فارسی زبان میں تحریر کروائی گئی کتاب ”گلاب نامہ“ کے مطالعے سے بھی اس موضوع پر کچھ مفید معلومات حاصل ہوتی ہیں۔

تھوڑی نسلی اور لسانی و ثقافتی تخصیص اس قدیم ریاست کشمیر میں بھی تھی، کہ قدیم کتب اور تواریخ میں ایک قبیلہ ”کھش“ کا ذکر ملتا ہے جس کی جنم بھومی آج کا کھاوڑہ بتائی جاتی ہے، آج کے کھکھے راجپوت وہی قدیم کھش ہیں، یہ اپنی اصل میں قدیم سفید ہن ہیں جو تاریخ بعید میں ان علاقوں میں جو اوڑی کے اوپر سے شروع ہو کر چیکار و ڈنہ کوٹ ترہالہ تک کے علاقوں میں آباد ہو گئے، قدیم فارسی زبان میں سفید ہنوں کو ”ہفتھالی“ یا ”ہفتھالیہ“ کہا جاتا ہے، اور آج بھی اس قبیلہ کو ”ہفتھالی کھکھے“ کے نام سے پکارا جاتا ہے۔

اس قبیلے کی زبان، تہذیب و ثقافت اور عادات وادی کشمیر کی زبان و ثقافت سے الگ اپنی مخصوص شناخت رکھتی تھیں، اور یہ اپنے علاقے کو کشمیر کی ایک باجگزار چھوٹی ریاست کے طور پر چلاتے رہے، اس ریاست کا دارالحکومت یا حکمران کی رہائش گاہ آج بھی کچیلی کے پاس ”راجدھانی“ کے نام سے موجود ہے۔ یہ قدیم کھش اور آج کے کھکھ قبائل، آج بھی اسی علاقہ میں اکثریت سے آباد اور موجود ہیں۔ اسی طرح پونچھ کے علاقوں میں یہاں آباد ہو جانے والے چند گوجر اور راجپوت قبائل بھی موجود اور آباد تھے جو وادی کشمیر کا حصہ تصور ہوتے تھے، ان کی بھی زبان اور ثقافت کشمیری علاقوں کی تہذیب ثقافت سے کچھ حد تک متاثر ہونے کے باوجود، اپنا الگ تشخص اور پہچان بھی رکھتی تھی۔

ان ہی علاقوں میں کچھ قدیم مقامی قبائل اور کچھ بوجوہ بیرونی علاقوں سے ہجرت کر کے کشمیر میں آباد ہو جانے والے کچھ قبائل بھی شامل تھے جو آج تک اپنے تشخص اور عادات کی وجہ سے اپنا اپنا مخصوص لسانی و ثقافتی تشخص رکھتے ہیں۔

تقسیم ہند کے بعد کشمیر کی حاکمیت اور قبضے کے لیے بھارت اور پاکستان کے درمیان ہوئی جنگ کشمیر 1947۔ 49 کے دوران بدقسمتی سے بیرونی شامل کردہ ریاستوں کے ساتھ وہ قدیم جغرافیائی، ثقافتی اور لسانی وحدت کشمیر بھی متحارب فریقین کے درمیان تقسیم ہو گئی، یعنی اس جنت ارضی کے بدقسمت باشندے کبھی تو بھیڑ بکریوں کی طرح فروخت کیے گئے، اور کبھی ان کو جبری طور پر ظالمانہ اور غیر انسانی و غیر قانونی تقسیم کا نشانہ بنا دیا گیا، اسی غیر انسانی اور ظالمانہ تقسیم کے خلاف مسلسل ردعمل کے طور پر کشمیر کے عوام کی انتھک تحریک آزادی تمام تر مظالم اور ترغیبات کے باوجود مسلسل جاری ہے۔

اس مسئلے کو، دو ایٹمی طاقتوں کے اس ریاست پر کسی حق اور دعوے کے برعکس جب تک ایک جائز انسانی اور قومی مسئلے کے طور پر نہیں دیکھا، اور انصاف اور انسانی حق کے طور پر حل نہیں کیا جاتا، تب تک کشمیر کے عوام کے ساتھ ساتھ برصغیر کی ڈیڑھ ارب سے زیادہ کی آبادی، ترقی خوشحالی، سکون اور امن سے محروم رہے گی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments