افغانستان کے 55 سالہ غلام حضرت جنھیں یونیورسٹی میں داخلے کی امید

عزیز اللہ خان - نامہ نگار، بی بی سی اردو


ایک باریش شخص سر پر سفید پگڑی باندھے سفید جامہ تن کیے میز کے سامنے کھڑے داخلہ فارم پیش کر رہے تھے۔ پہلی نظر میں تو لگتا ہے کہ شاید کسی طالب علم کے والد یونیورسٹی میں اس کے داخلے کے لیے آن پہنچے ہیں۔

لیکن پھر اچانک غلام حضرت بتاتے ہیں کہ ان کی عمر 55 برس ہے اور وہ یونیورسٹی میں خود اپنے داخلے کے لیے آئے ہیں۔

افغانستان کے صوبہ پکتیا میں اس لمحے کی تصویر سوشل میڈیا پر شیئر ہوئی تو معلوم ہوا کہ علم کی پیاس بجھانے کے لیے عمر کی قید سے بالاتر ہو کر ایک بزرگ نے کئی دہائیوں بعد یونیورسٹی میں داخلہ لینے کی ٹھانی ہے۔

غلام حضرت کا تعلق زرمت شہر کے مدھیاوال گاؤں سے ہے اور وہ پکتیا یونیورسٹی میں داخلہ لینے کے خواہش مند ہیں۔ جمعے کو وہ داخلہ امتحان دینے گئے تو اس موقع پر ان کا کہنا تھا کہ انھیں مکمل امید ہے کہ ان کا داخلہ ہو جائے گا۔

یہ بھی پڑھیے

طالبان دورِ حکومت کے مقابلے کیا اب افغانستان میں حالات بہتر ہیں؟

ناخواندہ غریب کسانوں کی بیٹی کو ہارورڈ میں سکالرشپ مل گئی

انصر علی: یونیورسٹی کے ویٹر سے تعلیم یافتہ نوجوان تک کا سفر

’ہم جنگ جیت گئے ہیں، امریکہ ہار گیا ہے‘

فخر کی بات ہے کہ وہ داخلہ لینے پہنچے

عموماً یونیورسٹی میں طالب علمی کا دور انسان کی زندگی کے سنہرے حصوں میں سے ایک سمجھا جاتا ہے کیونکہ اس کے بعد انسان کی پیشہ ورانہ زندگی اور روزگار کی بھاگ دوڑ شروع ہو جاتی ہے۔

غلام حضرت نے بی اے تو پشتو، دری لٹریچر اور انگریزی کے مضامین میں کیا تھا لیکن اس کے بعد ان کی تعلیم کا سلسلہ منقطع ہو گیا تھا۔

انھوں نے پکتیا سے بی بی سی اردو کو ٹیلیفون پر بتایا کہ وہ خوش ہیں کہ ان کا داخلہ یونیورسٹی میں ہو جائے گا۔

اس داخلہ امتحان کے لیے وہ سفر کر کے اپنے گاؤں سے شہر آئے اور یہاں کسی قریبی عزیز کے گھر میں رُکے۔ تھکاوٹ کی وجہ سے وہ اپنی نیند بھی مکمل نہ کر پائے۔ انھیں ڈر تھا کہ کہیں داخلہ امتحان کے لیے تاخیر نہ ہو جائے۔

انھوں نے کہا کہ امتحان کے دوران ادارے کے سربراہ اور دیگر متحمن ان سے ملنے آئے۔ وہ بہت خوش تھے اور ان کے ساتھ تصاویر بنوائیں کہ یہ ان کے لیے فخر کی بات ہے کہ وہ داخلہ لینے پہنچے ہیں۔

غلام حضرت کے مطابق ان کے دو بیٹے ہیں۔ ایک بیٹا اس سال قبل پکتیا یونیورسٹی سے فارغ التحصیل ہوا ہے جبکہ دوسرا بیٹا کالج میں تعلیم حاصل کر رہا ہے۔

ان کی تین بیٹیاں ہیں اور وہ صرف پرائمری تک تعلیم حاصل کر سکیں۔ اس کی وجہ ان کے علاقے میں لڑکیوں کے لیے تعلیمی سہولیات نہ ہونا ہے، حالانکہ ان کی خواہش تھی کہ ان کی بیٹیاں بھی اعلیٰ تعلیم حاصل کرتیں۔

انھوں نے بتایا کہ ان کی اہلیہ نے ان کے داخلہ لینے کی خواہش پر خوشی کا اظہار کیا ہے اور وہ ’سب کو بتا رہی تھیں کہ وہ یونیورسٹی میں پڑھنے جائیں گے۔‘

غلام حضرت ایک سکول میں بطور استاد بھی کام کرتے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ انھیں اس سے فائدہ ہو گا اور ان کی تنخواہ میں بھی اضافہ ہو سکتا ہے۔

افغانستان میں تناؤ علم کی خواہش نہ دبا سکا

افغانستان میں سوویت یونین کے حملے کے بعد جو جنگ شروع ہوئی اس کے اثرات آج بھی اس ملک میں پائے جاتے ہیں، کہیں شدت پسند گروہوں کی جھڑپوں کی شکل میں تو کہیں القاعدہ اور نام نہاد دولت اسلامیہ کی پُرتشدد کارروائیوں میں۔

غلام حضرت نے بتایا کہ اس جنگ زدہ ماحول کی وجہ سے انھوں نے ایک عرصہ پناہ گزین کی حیثیت سے پاکستان میں گزارا، کبھی پشاور اور کبھی لاہور میں۔ لیکن جب حالات کچھ تبدیل ہوئے تو واپس افغانستان آگئے تھے۔

انھوں نے بتایا کہ غربت اور روپے پیسے کی تنگی کی وجہ سے بھی وہ اپنی تعلیم جاری نہیں رکھ سکے تھے۔

افغانستان پر سوویت یونین سے 1979 میں حملہ کیا تھا اور تب سے اس ملک میں حالات کشیدہ ہیں۔ 11 ستمبر 2001 کے حملوں کے بعد امریکہ نے افغانستان میں فوجی مداخلت کی اور اب اس نے رواں سال ستمبر تک اپنے فوجی واپس بلانے کا اعلان کر رکھا ہے۔

غلام حضرت نے بتایا کہ جس سال سوویت یونین نے حملہ کیا اسی سال انھوں نے انٹرمیڈیٹ کا امتحان پاس کیا تھا۔

’پھر اس ملک میں جنگ چھڑ گئی تھی۔ ہر طرف گولہ بارود اور دھماکے شروع ہو گئے تھے۔ ایسے میں کہاں کی تعلیم اور کہاں کا علم حاصل کرنا۔ سب کچھ تباہ ہو گیا تھا۔‘

غلام حضرت پشتو اور دری لٹریچر میں اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کے خواہاں ہیں اور یہی تعلیم وہ آگے بھی منتقل کرنا چاہتے ہیں۔

افغانستان میں صرف غلام حضرت ہی نہیں بلکہ اس طرح کے لاکھوں افراد ہیں جو تعلیم کی پیاس بجھانے کے لیے کوششیں کر رہے ہیں اور اگر وہ خود تعلیم حاصل نہیں کر سکے تو اپنے بچوں کو یہ تعلیم دینے کے لیے جدوجہد جاری رکھے ہوئے ہیں۔

افغانستان میں کے صوبے پکتیکا میں ہی ایک شخص میاں خان بھی ہیں جنھوں نے اپنی بیٹیوں کی تعلیم کے لیے خود کو وقف کر رکھا ہے۔ میاں خان کی خبر گذشتہ سال سوشل میڈیا پر آئی تھی۔

میاں خان

میاں خان ایک ایسے پشتون والد ہیں جو اپنی تین بیٹیوں کو روزانہ 12 کلومیٹر دور موٹر سائکل پر سکول لے جاتے ہیں

میاں خان افغانستان کے صوبے پکتیکا کے ایک گاؤں کے رہائشی ہیں۔ میاں خان ایک ایسے پشتون والد ہیں جو اپنی تین بیٹیوں کو روزانہ 12 کلومیٹر دور موٹر سائکل پر سکول لے جاتے ہیں۔ اور بچیوں کی سکول سے چھٹی تک چار گھنٹے سکول کے باہر انتظار کر کے دوپہر کو انھیں گھر واپس لاتے ہیں۔

افغان حکومت نے اس خبر کے بعد ان کے گاؤں میں ان کے گھر کے سامنے سکول تعمیر کرنے کا اعلان کیا اور اس سکول کی تعمیر پر کام جاری ہے۔ چند روز پہلے بھی حکومتی اہلکار ان کے علاقے میں پہنچے تھے جہاں سکول کی تعمیر کا جائزہ لیا گیا تھا۔

جنگ زدہ ملک افغانستان میں حالات اب بھی کشیدہ ہیں اور تعلیم کے حصول کے لیے ماحول اب بھی مکمل سازگار نہیں ہے۔ لیکن اس کے باوجود بڑی تعداد میں نوجوان اور وہ لوگ جنھوں نے اپنی تعلیم ادھوری چھوڑ دی تھی، وہ اب تعلیم جاری رکھے ہوئے ہیں۔

کئی تعلیمی اداروں پر شدت پسندوں کے حملے بھی ہو چکے ہیں۔ مگر اس سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ تعلیم کا سلسلہ وقتی طور پر رُک تو سکتا ہے لیکن کبھی ختم نہیں ہو سکتا۔ یقیناً علم کے حصول کے لیے عمر کی کوئی قید نہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32505 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp