اسلامو فوبیااور غیر اسلامی اسلامو فاشزم


فوبیا ایک اضطرابی ذہنی کیفیت ہے جو کسی شے یا صورتحال سے مستقل اور ضرورت سے زیادہ خوف سے پیدا ہوتا ہے۔ متاثرہ افراد صورتحال سے بچنے کے لئے سب کچھ کر جانے پر آمادہ ہو جاتے ہیں۔ یہ انفرادی ہو تو فرد کے لئے زندگی اجیرن کر دیتا ہے اور اگر یہ سماج یا معاشرے کے ایک گروہ کو اپنی لپیٹ میں لے لے اور اس کا وقت پر تدارک نہ کیا جائے تو اس کے نتائج نہایت سنگین ہوتے ہیں۔ چند صدیاں قبل روئے زمین پر ایک ضابطۂ سیاست غالب تھا کہ جو طاقتور ہیں، انہیں اختیار حکومت حاصل تھا اور باقی رعایا اس کی اطاعت پر صابر شاکر ہو جاتی تھی۔

ہندوؤں میں ذات پات کی تقسیم نے اس معاملے کا حل تناسخ کے اعتقاد میں رکھ دیا تھا جس کے نتیجے میں معاشرے کی بنت کا شکنجہ خوف کے بجائے کافی حد تک سکینت کا باعث رہا۔ سامی مذاہب کی تعلیمات میں چونکہ تناسخ کی گنجائش نہیں تھی اور دائمی زندگی کی تمنا بھی انسان میں موجود رہتی ہے اس لئے موت کے بعد اسی دنیا سے ملتی جلتی حیات جاوداں جس کا انحصار اس دنیا میں کیے گئے اعمال پر ہو، اس کا تصور کر کے اس دنیا میں بھی عدل و انصاف کے نفاذ کو انسان کے اجتماعی مقاصد کی معراج قرار دے لیا گیا۔

جوں جوں روشن خیالی میں ترقی ہوئی اور انسان کی مادی فلاح کی حفاظت کا شعور ترقی پذیر ہوا تو گروہی اور نسلی حفاظت کے لئے بالادست گروہوں نے ایسی تدابیر اختیار کرنا شروع کر دیں جو دوسرے گروہوں کے مفادات سے تصادم کی صورت میں انہیں کسی نہ کسی رنگ میں قانونی جواز فراہم کرتی تھیں۔ پھر جو حق بالا دستی بہت حد تک مذہبی ایمان کی بنیاد پر تھا، رفتہ رفتہ نسلی اور قومی بنیاد پر منتقل ہونے لگا۔ یہودی، عیسائی اور مسلمان حیات بعد از ممات کا عقیدہ کم و بیش ایک جیسا تو رکھتے تھے لیکن یہودی عقیدہ کے ساتھ اپنی نسل کو بھی شامل رکھتے جو ان کے کمزوری کے دور میں دوسروں کی نگاہ میں تو محض واہمہ ہی سمجھا جاتا تھا۔

وقت کے ساتھ ساتھ ان پر سختیوں کے نتیجے میں ان کے دفاعی میکانزم  نے ان کی ذہنی صلاحیتوں میں اضافہ کر دیا۔ جس سے رفتہ رفتہ انہوں نے روشن خیالی کی طرف گامزن مغربی معاشرے پر اپنی گرفت قائم کر لی تاکہ گزشتہ زمانوں میں ان پر کیے گئے مظالم دہرانے کی نوبت آنے ہی نہ پائے۔ گزشتہ چند صدیوں سے یہود و نصاریٰ میں جہاں مفادات کی ایک ہم آہنگی پائی جاتی ہے، وہیں ایک تاریخی عداوت کا عنصر بھی اپنا جوہر دکھاتا رہتا ہے۔

تحریک احیائے علوم کے بعد انیسویں صدی تک یہود و نصاریٰ کے باہمی تعاون کے نتیجہ میں خطۂ زمین کے بڑے حصہ پر تسلط کے سمجھوتے تقریباً طے پا گئے تھے اور مغرب میں یہودی تسلط کے تصور سے سفید عیسائی تعصب نے جنم لیا جو وقت کے ساتھ ساتھ بڑھتا گیا۔ امریکہ میں اسی قسم کے تعصب کا نشانہ ایفرو امریکن بنے۔ دوسری جانب جن ممالک میں قبل ازیں اسلامی تسلط تھا، ان میں دیگر مذاہب کے لوگ بطور ذمی اپنے ماتحتانہ کردار پر مجبوراً مطمئن تھے۔

اور جب یورپین قومیں پیش قدمی کرنے لگیں تو اسلامی ممالک میں مقیم ذمیوں میں بھی برابری کا احساس جنم لینے لگا۔ رفتہ رفتہ سازشیں اور ریشہ دوانیاں بھی ایک فنی مرتبہ اختیار کر گئیں۔ مسلمان جن سے عیسائی صلیبی جنگوں کے دوران ہزیمت اٹھا چکے تھے معلومہ کمزوریوں کی بدولت زوال پذیر ہوتے گئے اور ان کے اندر گروہی زندگی کی بقاء کے جذبہ کے تحت سیاسی جدوجہد کا آغاز ہوا۔ پین اسلامزم، پین عربزم کے ساتھ ساتھ ترکی، ہندوستان میں آزادی کی تحریکات وغیرہ کی صورت میں اسی بات کا اظہار ہے۔

یہود و نصاریٰ کی باہمی عداوت جو جنگ عظیم دوم پر منتج ہوئی، اس میں بڑی حد تک یہی گروہی خوف اور تعصب کار فرما تھا۔ ”سیاسی قوتیں اپنے مقصد کی بار آوری کے لئے مذہب کے استعمال کو معیوب نہیں سمجھتیں“۔ اس معاملے میں مشرق و مغرب ایک ہی نہج پر ہیں۔ جب جرمنی میں ایک ملحد نازی پارٹی نے یہودیوں کی نسلی برتری کے بالمقابل جرمنوں کو اپنی نسلی برتری کا احساس دلایا تو نازیوں نے بھی مادی ترقی کے لئے عیسائی مذہبی جذبہ کی قوت کا استحصال کیا۔جس کے نتیجہ میں یہودیوں میں عدم تحفظ کا احساس مزید بڑھا۔

ایک یہودی نے جرمن سفیر کو پیرس میں گولی مار کر ہلاک کر دیا جس سے پورے جرمنی میں یہودیوں کے خلاف حکومتی نگرانی میں ہولوکاسٹ کا ایک گولا پھٹا اور مظاہرین کے ہاتھوں سینکڑوں یہودی مارے گئے، بے شمار معابد اور املاک نذر آتش کر دی گئیں، جواباً پولینڈ میں یہودیوں کے علاقہ میں مقیم جرمن زیر عتاب آ گئے اور اس پر جرمنی کی اپنی ریاستی رٹ کو قائم کرنے کے لئے نازی حکومت نے پولینڈ پر حملہ کر دیا۔ دما دم مست قلندر والی یہ بات تاریخی لحاظ سے ابھی کل کی بات ہے۔

اس ذکر سے واقعات پر ”گروہی خوف اور عداوتوں کے اثرات کی شدت“ کا خاکہ پیش کرنا مقصود تھا۔ اس چھوٹے سے کرۂ ارضی پر مختلف پس منظر کے گروہوں پر مشتمل اربوں انسانوں کا آپس میں امن و امان سے رہنا یا رکھنا مشترکہ قابل قبول، قابل عمل قواعد و ضوابط کا متقاضی ہے اور آج ”سچی جھوٹی سازشوں کے خوف کی بناء پر گروہی تعصبات کی پرورش“ کی وجہ سے مدبرین کے لئے یہی سب سے بڑا مسئلہ ہے۔

مسلمانوں کے دینی رہنما معمولی استثناء کے ساتھ اسلام کو کامل ضابطۂ حیات سمجھتے ہوئے تمام بنی نوع انسان کو مبینہ طور پر بھلائی کے جذبہ کے تحت، پیار محبت یا تلوار کے ذریعہ اسلام کے جھنڈے تلے لانا اپنا فرض اولین سمجھتے ہیں، یہ الگ بات ہے کہ ان کے الفاظ اور اعمال ایک دوسرے کا ساتھ نہیں دیتے اور دنیا ان کے اس نیک جذبہ سے بوجوہ خوفزدہ ہے۔ اسی خوفزدگی کا دوسرا نام اسلامو فوبیا ہے۔

توہین آمیز کارٹونز کی اشاعت تو درحقیقت اسی بیماری کی ظاہری علامتوں میں سے ہے۔ بیماری کی ظاہری علامتوں کے جواب میں مسلمانوں میں ایک طبقہ ”اہل تلوار“ دینی رہنماؤں کا ہے، جن کا پرتشدد ردعمل بار بار ان علامتوں کی پیچھے بیماری اسلاموفوبیا کو تصدیق مہیا کرتا ہے اور یوں عداوت کی یہ خلیج وسیع تر ہوتی جا رہی ہے۔ مسلمانوں کا ایک طبقہ اس کا ”علمی اور اخلاقی حل“ چاہتا اور پیش کرتا ہے، اس طبقہ کا طرز ردعمل ”تلوار طبقہ“ اور ان سے منسلک زخمی مسلمانوں کی اکثریت کو ”بزدلی، بے غیرتی اور معذرت خواہانہ“ دکھائی دیتا ہے۔ یہ صورتحال ہے جس سے آج مسلم معاشرہ یا ممالک اور خاص طور پر پاکستان کی ریاست کو سامنا ہے۔

” اہل تلوار“ دینی رہنماؤں کے طریقہ کار اور اس کے نتائج پچھلے کم از کم سو سال کے ہماری آنکھوں کے سامنے ہیں جن کا جائزہ لینے سے معلوم ہوتا ہے کہ:

1۔ ان کا دنیوی علم تو صفر ہے اور یہ طبقہ اپنے زیر تربیت بچوں کو سائنسی علوم سے نفرت اور جنوں پریوں کے قصوں اور ماضی کے اصلی اور فرضی معرکوں کے تذکرہ سنا کر نرگسی مسرت کے نشے سے چور رہتا ہے۔ ان کا دینی علم بھی توہمات اور خودساختہ نظریات پر مبنی ہے جس کی کسی طور قرآنی تعلیم سے ہم آہنگی نہیں ہے، اس کے ثبوت کے طور پر روشن خیال مکالمہ پسند علماء اسلام کا بیانیہ ہے جو انٹرنیٹ پر بہ کثرت موجود ہے۔ ایسے علماء اکثر صورتوں میں ”اہل تلوار“ کی دہشت گردی کے نشانے پر رہتے ہیں۔

2۔ ان ”اہل تلوار“ کا دعویٰ امت کی رہنمائی کا بالکل بے بنیاد ہونے کی وجہ سے باطل ہے۔ ان کے گزشتہ صدی سے لے کر اب تک تمام سیاسی خیالات کو وقت نے غلط ثابت کر دیا ہے۔ انہوں نے تصویر کی حرمت۔ عورت کی حکومت کی حرمت۔ پینٹ کوٹ پہننے کی حرمت۔ جمہوری نظام کی حرمت وغیرہ جیسے فتاویٰ سے نواز کر امت کی گاڑی کا ایک ٹائر ہمیشہ کچے پر رکھا ہے اور ان کی پیروی کرنے والے مسلمانوں کو ہر بار ہزیمت ہی اٹھانی پڑی ہے۔ لیکن بدقسمتی سے وہ اس ”ہزیمت بر بنائے حماقت“ کو بھی قابل فخر سمجھتے ہیں۔

3۔ ان کا پوری امت کو ایک ہاتھ پر ”تلوار کے زور پر یکجا کرنے کا ادعا“ خود مسلمانوں کے لئے بھی بڑے خوف و اضطراب کا باعث ہے۔ یہ کوئی فرضی بات نہیں۔ مثلاً مولانا مودودی صاحب نے جو پاکستان مخالف تھے، اپنی رائے بدلنے کے بعد پاکستان آ گئے لیکن اپنے ”اشاعت اسلام بذریعہ تلوار“ کے نظریے پر آخری دم تک قائم رہے۔ جن کے نزدیک انسانی اخلاق کی اصلاح صرف تلوار کے ذریعہ ہی کی جا سکتی ہے۔ (ان کے ان خیالات کا جواب ”مذہب کے نام پر خون“ کتاب میں تفصیل کے ساتھ دیا گیا ہے۔ یہ کتاب دلچسپی رکھنے والوں کی خدمت میں آن لائن موجود ہے )

4۔ مسلمان سیاست دان انگریزوں کے عہد کی غلامی میں ”تلوار طبقہ“ مذہبی رہنماؤں سے مرعوب نہیں ہوتے تھے لیکن آزادی کے بعد جیسا کہ اوپر عرض کیا ہے ”سیاسی قوتیں اپنے مقصد کی بار آوری کے لئے مذہب کے استعمال کو معیوب نہیں سمجھتیں“ اس ابن الوقتی کی بدولت، اس نیم تعلیم یافتہ دینی طبقہ (جو اپنی گفتگو کو ثقاہت فراہم کرنے کے لئے اکثر اپنے وعظوں میں انگریزی الفاظ کو استعمال کر کے انگریزی زبان کی عزت افزائی فرماتے رہتے ہیں ) کا غیر تعلیم یافتہ طبقہ پر جو اثر ہوتا ہے، اس سے استفادہ میں کھوٹا سیاست دان کراہت محسوس نہ کرنے کی وجہ سے منافقت کے شکنجے میں جکڑا چلا جاتا ہے۔ وقتی طور پر یہ ڈنگ ٹپاؤ حکمت عملی سے چند دن سانس تو لے سکتا ہے لیکن نتیجتاً ملک و قوم کو جہلاء کا یرغمال بنا جاتا ہے۔

5۔ ان یرغمالیوں پر ”تلواری طبقہ“ کی گرفت سخت تر ہوتی جاتی ہے اور اس کے نتیجہ میں مادی/مالی فوائد کا حصول، (ان کے گمان میں ) ان کی نظریاتی صداقت کا ثبوت بنتا جاتا ہے۔ اگلے مرحلہ پر ان کے خیالی دین کے استحکام اور ان کی ہی تشریح کو ساری دنیا سے تسلیم کروانا اور ملحدین ہی سے تلوار لے کر ان کا گلہ کاٹنا۔ ان کا مطمح نظر ٹھہرتا ہے۔

6۔ ان کا ”طریقہ واردات“ درحقیقت جدید صیہونی، کمیونسٹ اور اٹلی جرمنی کی فاشسٹ تحریکات اور آج کل کے نیو نازیوں سے ملتا جلتا ہوتا ہے اور اپنے زعم میں نیک مقاصد کے حصول کے لئے بدترین ہتھکنڈوں کے استعمال سے دریغ نہیں کیا جاتا جس کے لئے ”رہبر کی قائدیت کا تقدس“ قائم کر کے عوام کی گردن پر معتقدانہ اطاعت کا جوا پہنا دیا جاتا ہے۔ انتہائی گھناؤنا اور قبیح ظلم یہ ہے کہ اس منحوس طریقہ واردات کو اسوۂ نبوی ﷺ کی پیروی کا نام دے کر سادہ لوح مسلمانوں کو بے وقوف بنا یا جاتا ہے۔

7۔ عام مسلمان بھی اس مخمصے کا شکار ہیں کہ ظاہر میں اتنے دین دار نظر آنے والے بزرگ جو ”بعد از مرگ حالات“ سے بھی آگاہی رکھتے ہیں، وہ اتنے غلط بھی تو نہیں ہو سکتے کہ ان کو نظر انداز کیا جا سکے۔ اس پر مستزاد یہ کہ نکاح جنازہ پر بھی ان کی مکمل اجارہ داری قائم ہے۔ غرض؎

کیا رہوں غربت میں خوش جب ہو حوادث کا یہ حال
نامہ لاتا ہے وطن سے نامہ بر اکثر کھلا۔

پاکستان کے حوالے سے ان حالات میں ایک طرف تو دنیا میں اسلاموفوبیا کا پایا جانا سب پر واضح ہے، دوسری طرف بدقسمتی سے اس کو ختم کرنے کے لئے عمرانی حکمت عملی ایک واہمہ سے بڑھ کر اپنے اندر کوئی حقیقت نہیں رکھتی۔

جب آپ بطور ریاست خود اس ”غیر اسلامی اسلامو فاشزم“ کے مقابلہ کی طاقت نہیں رکھتے اور آپ دوسری دنیا کو ”تلواری طبقہ“ کے شر سے بچنے کے لئے کوئی ڈھال فراہم نہیں کر سکتے تو باقی دنیا کو اس ”غیر اسلامی اسلامو فاشزم“ سے اپنے آپ کو محفوظ کرنے کے لئے خود ہی کچھ نہ کچھ کرنا ہو گا۔

29 اپریل 2021 کو یورپین پارلیمنٹ میں پاس ہونے والی قرارداد میں بحث کے دوران جو واقعات بیان کیے گئے وہ از خود گھڑے نہیں گئے تھے بلکہ میڈیا میں اور عدالتوں میں ریکارڈ پر موجود ہیں جن کی تصدیق دو ہفتہ پہلے کے ہونے والے سانحات بھی کرتے ہیں۔

انتہائی دکھ کی بات یہ ہے کہ اس دوران قتل ہونے والے ملازمین کو حکومت بھی ”اپنے شہید“ ماننے کے لئے تیار نہیں ہے حالانکہ حضرت نبی کریم ﷺ کے ارشادت کی رو سے وہ شہید ہیں جو اپنے فرائض کی ادائیگی کے دوران قتل کیے گئے۔ یہ ”تلواری طبقہ“ کسی ڈیڈ لائن کو تسلیم نہیں کرتا اور دیگر بظاہر ”نرم خو“ کہلانے والے مذہبی رہنما بھی اپنے مفادات کی خاطر ان سے ہم آہنگی کا مظاہرہ کر کے ثابت کر چکے ہیں کہ گاڑی کے اب دو پہیے کچے پر اتر چکے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments