ناڑے (ازاربند) اور پراندے


آئیے بچپن کی یادوں کو دہراتے ہیں۔ پرانے تحائف بھی باکمال ہوتے تھے۔ پنجاب کے گاؤں دیہاتوں میں نالے (ازار بند) اور پراندے، رومال، کڑھائی کیے گئے سرہانے، ڈھانپنے کے کور اور سلائیوں سے بنے سوئیٹر اور کروشیے سے بنی ٹوپیاں دینے کا رواج تھا۔

رومال پر کڑھائی کر کے بطور تحفہ دیا جاتا۔ دل بنا کر اس میں سے تیر گزارا جاتا۔ جس کی کڑھائی کرنے کی مہارت اچھی ہوتی وہ دل سے نکلتا ہوا لہو بھی بنا دیتا تھا۔ ان تحائف میں زیادہ تر محبت اور خوب وارفتگی نظر آتی ہے۔ جی بالکل ایسا ہی ہے۔ یہ تحائف دینے کے لئے اس کو محبت اور ہاتھ سے تیار کیا جاتا تھا۔ کزنز، دوستوں، منگیتروں سب کو بھجوائے جاتے تھے۔ پردیس میں جا بسے پردیسی بندِ شلوار کو دیکھ دیکھ کر دینے والوں کو یاد کرتے تھے۔

لڑکیاں لمبے لمبے پراندے پہنتی تھیں۔ پراندہ بالوں کو باندھنے کے لئے دھاگوں اور موتیوں سے بنا، تین لڑیوں پر مشتمل ہیئر بینڈ تھا۔ یہ لمبائی میں بالوں کو لپیٹ کر سمیٹنے کے کام آتا تھا۔ لمبے پراندوں کے لئے لمبے بالوں کا ہونا اور چٹیا بنانا بھی ضروری تھا۔ مائیں خیال رکھتی تھیں کہ ان کی بیٹیاں پراندہ ضرور پہنیں۔ کہا جاتا تھا کہ پراندا پہننے سے بال صحت مند بھی ہوتے ہیں۔ یہ پراندا رنگ برنگے دھاگے سے بنایا جاتا تھا۔

بہت سی بہنوں، خالاؤں، پھوپھیوں کو ہم سب آج کے بڑوں نے یہ پراندے اور ازاربند بنتے دیکھا ہو گا۔ یہ رنگ برنگے پراندے نسوانی حسن اور میک اپ کا حصہ ہوتے تھے۔ بہت سی خواتین کے لمبے پراندے کمر کے عین نیچے تک لہراتے نظر آتے تھے۔ یہ لمبائی میں عین اس جگہ تک تو بالکل بھی ضروری ہوتے تھے جہاں مجھے کمر کے L۔ 4 اور L۔ 5 میں درد رہتا ہے۔

اسی طرح ازار بند بھی مرد و زن کے لئے رنگ برنگے دھاگوں سے تیار کیے جاتے تھے۔ اگر ہم نسل نو کو بتائیں کہ کچھ نوجوان ایسے بھی تھے جو ازار بند کے دونوں طرف موتیوں سے مزئین خوبصورت ڈیزائن بنواتے تھے۔ قمیض کے دونوں چاک یعنی قمیض کی کمر والی جیب کے نیچے موجود کٹ سے ازار بند کو باہر کی طرف نکال کر نمائش کرتے تھے۔ یہ کیسا فیشن تھا جس میں اپنا ازاربند کمر پر اڑس کر دکھایا جائے، اب تو اسے سوچ کر ہی ہنسی آتی ہے۔

ازار بند کا آج کل خوب چرچا ہے۔ بہت سے بچے جنہوں نے الاسٹک یا بیلٹ ہی ڈالا ہے ، انہیں کیا معلوم کہ اس کو بننے کے لیے چارپائی کو کھڑا کیا جاتا تھا۔ سرکنڈوں کی تیلیوں سے اسے بننے کے لیے مدد لی جاتی تھی۔ بہت سے رنگوں کا سوتی اور ریشمی دھاگہ استعمال کیا جاتا تھا اور پھر دونوں طرف موتیوں کے ہاتھوں سے بنے گئے ڈیزائن جوڑے جاتے تھے۔ لڑکیاں، بالیاں گھر کے صحن صاف کر کے چارپائی دیوار کے ساتھ کھڑکی کر کے اپنی مرمریں انگلیوں سے بنت کا کام لیتی تھیں۔

وقت گزرا، پراندے نظر نہیں آتے۔ نہ ہی جہیز میں بچیوں کو دیے جاتے ہیں اور نہ ہی دکانوں پر آویزاں ہوتے ہیں۔ الہڑ مٹیاروں کی چال کے ساتھ یہ ہلتے ہوئے نظر آتے ہیں اور نہ ہی بانکے نوجوان کی کمر پر موتیوں سے مزین ازار بند جھلکتا نظر آتا ہے۔ اب تو کبھی وہ تیر زدہ دل بھی نظر نہیں آیا جو پان کے پتے سے مشابہت رکھتا تھا۔

آج پراندے نہیں ہیئر بینڈ، پن اور کلپ وغیرہ موجود ہیں۔ چارپائیوں کو الٹا کر کے نہ ازار بند بنے جاتے ہیں اور نہ ہی موتی سے مزین ان کے کنارے کمر سے باہر جھلکتے ہیں۔ دل کا نشان ہم پہلے سے زیادہ ہی اپنی کمیونیکیشن میں استعمال کرتے ہیں۔ موبائل فون یا کمپیوٹر پر پسندیدگی، محبت، کیئر، بوسہ، دکھ یا کسی بھی طرح کے جذبات کا اظہار کرتے ہیں تو یہ دل کا نشان ضرور شامل ہوتا ہے۔ افسوس کہ دل کا محض نشان ہی باقی بچا ہے وگرنہ ہمارے دلوں میں وہ، اس وقت والی محبت، لگن، وارفتگی اور احساس آج بالکل ناپید ہے۔

یہ ازار بند اور رومال بہنیں اپنے بھائیوں کے لئے بھی خوب بناتی تھیں۔ آج دونوں بہن بھائی ایک ہی کمرے میں آمنے سامنے بیٹھے سوائے ایک دوسرے کے، باقی پوری دنیا کو یہ نشانات سینڈ کر رہے ہوتے ہیں۔ ہوتے پاس ہیں مگر دل و دماغ پر دور بسنے والوں کا قبضہ ہے۔ بے ناڑے اور پراندے ہمارے ماضی کی خوب صورت یادیں ہیں۔ ہماری زندگی کے مختلف رنگوں میں ان دونوں اشیاء کے رنگ واقعی بہت اہم تھے۔ ہم سب نے اپنی ماؤں، بڑی بہنوں اور دوسری خواتین کو پشت پر لٹکتے، لہراتے رنگ برنگے پراندے پہنے دیکھا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments