بنچ، بار اور جسٹس قاسم خان


پاک فوج تو مدتوں سے دشمنوں کے نشانے پر ہے لیکن بار بار کے ناکام تجربات کے بعد شاطر حکمت کاروں نے صف بندیاں تبدیل کی ہیں ۔ پاکستان پر حملہ آور لشکروں کے مقام بدلے ہیں۔ اب پہلی بار عدلیہ کو آرمڈ کور کی طرح حملہ آور دستوں کا کردار دیا گیا ہے جبکہ سول سوسائٹی اور آئین کی سربلندی کی آڑ لے کر حملہ کرنے والوں کو ہانکا کرنے پر لگادیا گیا ہے۔

جسٹس افتخار چودھری کی عدلیہ بحالی تحریک کی کامیابی کے بعد بینچ اور بار کے تعلقات کی ساخت میں جوہری تبدیلی آئی تھی ۔ بحالی عدلیہ کی تحریک کے دوران جناب افتخار چودھری نے بار کو اپنا بازوئے شمشیر زن اور برادر جج صاحبان کو اپنے کور کمانڈرز قرار دیا تھا، اس جذباتی ماحول میں جمہوری آزادیوں کے متوالے نوجوان دانشور اور ٹی وی چینلنز کے اینکرز جسٹس افتخار چودھری پر واری قربان ہوئے جا رہے تھے۔

ایسے جذباتی ماحول میں بھی اپنے قبلہ شاہ جی، عباس اطہر نے مستقبل میں اس نعرہ بازی کے تباہ کن اثرات پر توجہ دلانے کی کوشش ناکام کی تھی۔ یہ وہ زمانے تھا جب تحصیل کی سطح تک وکیلوں کے جتھے نچلی عدالتوں پر حملہ آور ہونا شروع ہو گئے تھے اور اپنی طاقت کا رخ بینچ اور انتظامیہ کی طرف موڑ رہے تھے ۔ شاہ جی نے بتکرار لکھا اور کہا کہ یہ رجحان جاری رہا تو عدلیہ تماشا بن جائے گی اور دوسرا نشانہ پولیس ہو گی۔

شاہ جی کے تمام خدشات ان کی زندگی میں ہی حقیقت بن کر سامنے آنے شروع ہو گئے تھے ۔ اب صورتحال کچھ یوں ہے کہ اضلاع کی سطح پر عدالتی نظام وکلاء کے ہاتھوں یرغمال ہے ، آئے روز ججوں کی پٹائی اور انہیں اپنی عدالتوں میں یرغمال بنانے کے واقعات ہوتے رہتے ہیں۔ اس کی انتہا تو اسلام آباد ہائی کورٹ میں ہوئی جہاں منہ زور وکلا نے بحالی عدلیہ تحریک کے دوران اس کے ترجمان اور اب چیف جسٹس اطہر من اللہ سے ناراض ہو کر ان کا گھیراؤ کر لیا اور بدتمیزی کی۔ وہ اسلام آباد کچہری سے ملحق فٹ بال گراؤنڈ پر تعمیر کیے گئے وکلا چیمبرز کو گرانا چاہتے تھے ، اسی طرح کا ہتیاچار ہمارے ملک میں ہو رہا ہے ۔ وکلا کے اس قسم کے طاقت کے مظاہروں کے خلاف بزرگ وکلا جناب اعتزاز احسن اور حامد خان توجہ دلاتے رہتے ہیں لیکن وکلا تنظیموں اور عہدوں پر قابض نوجوان قیادت کو اس کی کوئی پروا نہیں ہے۔

اسی پس منظر میں چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ جسٹس قاسم خان نمودار ہوتے ہیں وہ متروکہ وقف املاک کی زمین پر ڈی ایچ اے لاہور کے مبینہ قبضے پر کچھ ایسے برسے کہ سماں باندھ دیا ، فرماتے ہیں:

‎آپ پولیس کی بات کر رہے ہیں یہاں آرمی نے ہائیکورٹ کی 50 کنال اراضی پر قبضہ کیا ہوا ہے
‎میں آج رجسٹرار کو کہہ رہا ہوں آرمی چیف کو لیٹر لکھیں ۔ یہ آرمی کیا کر رہی ہے
‎رجسٹرار ہائیکورٹ میری طرف سے یہ لیٹر لکھے گا
‎لگتا ہے فوج سب سے بڑی قبضہ گروپ بن گئی ہے
‎کل کور کمانڈر اور ڈی ایچ اے کو بلا لیتا ہوں
‎یہ معاملہ رسہ گیری کی قسم ہے
‎فوج کا کام قبضہ گیری ہے؟
‎میں کور کمانڈر لاہور کو طلب کر لیتا ہوں
‎فوج نے جگا گیری بنائی ہوئی ہے
‎فوج کا کام قبضہ کرنا نہیں
‎میرے منہ سے فوج سے متعلقہ جملہ غلط نہیں نکلا
‎اللہ تعالیٰ نے میرے منہ سچ بلوایا
‎آرمی کی جانب سے اراضی پر قبضہ کرنا رسہ گیری کی ایک قسم ہے
‎اراضی سے متعلق فریق مخالف کا تعلق آرمی سے ہے اور وہاں سے جواب نہیں آتا
درخواست نے استدعا کی ہے اس پر جج صاحب فرماتے ہیں
‎مجھے بطور جج 11 سال ہو گئے ہیں کسی کی جرأت نہیں کہ آج تک مجھے جواب نہ جمع کروائے
‎مجھے جواب منگوانا آتا ہے اور یہ صرف دو دن کا کام ہے
‎چیف جسٹس قاسم خان رکے نہیں انہوں نے ڈی ایچ اے کے بریگیڈیئر ستی کو فوری طلب کرتے
ہوئے
‎سٹار اتار کر حاضر ہونے کا حکم جاری کیا
‎بریگیڈیئر ستی کو عدالت سے براہ راست جیل بھجوانے کا واشگاف اعلان کیا
‎وردی قوم کی سروس کے لیے ہے بادشاہت کے لیے نہیں ہے
‎آپ لوگ قبضہ گروپ بنے ہوئے ہیں۔ چیف جسٹس کا ڈی ایچ اے کے وکیل سے مکالمہ
‎برگیڈئیر ستی کو کہیں اپنے سٹار اور اپنی کیپ اتار کر آئے
‎ ادھر سے ہی انہیں جیل بھیج دوں گا
‎سی سی پی او کو کہو اگر پانی ہے تو خود ا جائے ورنہ آئی جی آئے

اگلے دن کچھ بھی نہیں ہوا نہ بریگیڈئیر ستی ننگے سر حاضر ہوئے نہ ہی آئی جی تشریف لائے اور جج صاحب نے دھیمے سروں میں معاملہ نمٹانے ہوئے وضاحت کی جس کی تفصیل یہ ہے:

اگلے روز سماعت کے دوران ڈیفنس ہاؤسنگ سوسائٹی کے وکیل نے چیف جسٹس سے فوج کے بارے میں ریمارکس واپس لینے کی استدعا کرتے ہوئے کہا کہ اس سے افسران میں تشویش پائی جا رہی ہے۔

اس پر چیف جسٹس قاسم خان نے وضاحت کی کہ ان کے گزشتہ روز کے ریمارکس کچھ لوگوں کے رویے (کنڈکٹ) کی وجہ سے تھے۔

انھوں نے کہا کہ میرے خاندان کے بے شمار لوگ آرمی میں بیٹھے ہوئے ہیں اور مجھے یہ سکھایا گیا تھا کہ جج کو جج لگنا نظر آنا چاہیے۔

انھوں نے کہا کہ ہمارا آئین کہتا ہے کہ اقلیتوں کی اراضی اور عبادت گاہوں کا ہم نے تحفظ کرنا ہے۔

چیف جسٹس نے کہا کہ ’جب کبھی یہ مسئلہ منظر عام پر آیا تو حکومت پاکستان کے لیے یہ ایف اے ٹی ایف سے بڑا مسئلہ ہو گا۔

جسٹس قاسم خان خاص خاندانی پس منظر کے حامل ہیں۔ یہ تحصیل شکرگڑھ کے معروف اور معزز گجر خاندان سے تعلق رکھتے ہیں ۔ ان کے دادا ہیڈماسٹر چودھری عبدالحمید بی اے بی ٹی معروف ماہر تعلیم تھے ۔ انہوں نے تین شادیاں کیں ۔ وہ کثیر العیال بزرگ تھے ۔ جج صاحب کے والد ان کے سب سے بڑے صاحبزادے تھے ۔ بھائی ضیا رسول کالج سے سول انجیئرنگ میں ڈپلومہ یافتہ اور محکمۂ انہار کے نمایاں افسر تھے ۔ اس لئے زیادہ وقت کھلے علاقوں اور جنگلوں اور ویرانوں میں گزارا ۔ وہ فن کیمیا گری کے ماہر تھے اور سونا بنانے کے شوق میں زندگی گزار دی۔

چیف جسٹس قاسم خان ملتان میں بریلوی مکتب فکر کے طلبہ کی تنظیم اے ٹی آئی کے مقامی رہنما رہے تھے اور اس ناتے حامد سعید کاظمی کے قریب ہو گئے ۔ غزالیٔ دوراں کہلانے والے کاظمی نے جسٹس قاسم خان پر دست شفقت رکھا۔ اسی طرح جسٹس قاسم خان کے داماد وقاص ملک ٹیکسلا کے معروف سیاسی گجر خاندان سے تعلق رکھتے ہیں۔

اگرچہ جسٹس قاسم خاں نے پہلے دن سماعت کے دوران تابڑ توڑ حملوں کے بعد اگلے روز بریگیڈئیر ستی کی ذاتی حاضری پر زور نہیں دیا اوریہ کہہ کر بات ختم کر دی کہ ان کا ہدف فوج کا ادارہ نہیں بعض افراد کے غیر قانونی افعال تھے۔ لیکن جو ناقابل تلافی نقصان ہونا تھا وہ تو ہو چکا ۔

متروکہ وقف املاک کی اربوں روپے کی املاک میں سب سے زیادہ ناجائز یا جائز قابض تو حکمرانوں سے قربت رکھنے والا لاہوری میڈیا مافیا ہے جنہوں نے مختلف جواز تراش کر اربوں روپے مالیت کے رہائشی فلیٹس، بیش قیمت گھروں اور عالی شان دفاتر پر قبضہ کیا ہوا ہے ۔ اس سلسلے میں سب سے زیادہ داد و دہش آصف ہاشمی نے کی تھی ۔ ایک اکل کھرے دیانت دار مدیر مقام بتا رہے تھے کہ لبرٹی چوک سے ”تیل و گیس کے ذخائر“ برآمد کرنے کا کارنامہ دکھایا گیا۔ اس کی لیز برس ہا برس کوڑیوں کے بھاؤ ایک صداکار چرب زبانی میں اپنی مہارت تامہ کا مظاہرہ کرتے رہے ہوئے موجیں اڑاتا رہا یہ تو پنجاب کے ”بادشاہ“ شہباز شریف نے اکتا کر لیز کی توسیع پر پابندی لگا دی لیکن وہ سلسلہ پھر بند نہ کر سکے۔

ہمارے ایک دانا راز دوست نے انکشاف کیا ہے کہ پاک فوج کو عدلیہ کے ذریعے قابو میں لانے کے منصوبے پر عمل درآمد شروع ہو چکا ہے جس کا بنیادی مقصد پاکستان کو ایک بار پھر مارشل لاء کی طرف دھکیلنا ہے تاکہ پچھلے سارے ریکارڈ کو مٹا کر کلین سلیٹ کی جا سکے اور پھر سے نئے جمہوری دور کا آغاز کیا جا سکے۔ اس نیک مقصد کے لئے امریکہ کی قیادت میں سارا مہذب اور جمہوری اقدار کا حامل یورپ اور مشرق وسطیٰ کے مطلق العنان شہزادے باہم متحد ہو چکے ہیں۔

اسلم خان

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

اسلم خان

محمد اسلم خاں گذشتہ تین دہائیوں سے عملی صحافت کے مختلف شعبوں سے منسلک رہے ہیں اب مدتوں سے کالم نگار ی کر رہے ہیں تحقیقاتی ربورٹنگ اور نیوز روم میں جناب عباس اطہر (شاہ جی) سے تلمیذ کیا

aslam-khan has 57 posts and counting.See all posts by aslam-khan

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments