رینسم ویئر کے واقعات میں تیزی سے اضافہ حکومتوں کے لیے قومی سلامتی کا معاملہ بن گیا

جو ٹڈی - سائبر رپورٹر


Man upset looking at servers

ٹیکنالوجی کمپنیوں اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کے ایک عالمی اشتراک نے ‘رینسم ویئر’ کے خلاف جارحانہ اور فوری ایکشن کا مطالبہ کیا ہے۔

رینسم ویئر اس سافٹ ویئر کو کہا جاتا ہے جس کا استعمال کرتے ہوئے ہیکرز مخلتف اداروں سے اہم معلومات اور کمپنیوں سے ان کا ریکارڈ چوری کر لیتے ہیں اور اس کے عوض ان سے تاوان مانگتے ہیں۔

مائیکرو سافٹ، ایمازون، امریکی تفتیشی ادارے ایف بی آئی اور برطانیہ کی نیشنل کرائم ایجنسی نے مل کر ایک رینسم ویئر ٹاسک فورس (آر ایف ٹی) قائم کی ہے جس نے مختلف حکومتوں کو رینسم ویئر روکنے یا ختم کرنے کے لیے 50 کے قریب تجاویز پیش کی ہیں۔

رینسم ویئر سے منسلک جرائم پیشہ افراد اب اکثر سکولوں اور ہسپتالوں کو نشانہ بناتے ہیں۔ ہیکرز نقصان دہ سافٹ وئیر استعمال کرتے ہوئے کسی تنظیم کا ڈیٹا چوری کر لیتے ہیں۔

آر ایف ٹی نے اپنی تجاویز اور رپورٹ بائیڈن انتظامیہ کو پیش کی ہے۔

یہ بھی پڑھیے

ہیکنگ کے ذریعے تاوان کے بڑھتے واقعات، ماہرین کا انتباہ

پاکستان: دوران ڈکیتی مغویوں سے بٹ کوائن میں تاوان کیسے وصول کیا گیا؟

بٹ کوائن میں تاوان وصولی، لاہور پولیس کا ملزمان کو گرفتار کرنے کا دعویٰ

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ اس سے محض مالی وسائل خطرے میں نہیں ہے۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے ’چند ہی سالوں میں رینسم ویئر ایک اہم قومی سلامتی کا مسئلہ بن گیا ہے۔‘

آر ٹی ایف کی شریک سربراہ جن ایلس کا کہنا ہے کہ ‘یہ سب شہریوں کی زندگیوں پر ہر روز اثر انداز ہوتا ہے۔ اس کا معیشت پر اثر پڑ رہا ہے اور لوگوں میں اہم ترین سروسز تک رسائی حاصل کرنے کی صلاحیت پر اثر انداز ہو رہا ہے۔‘

ان کا مزید کہنا تھا کہ رینسم فنڈز سے جو پیسے حاصل کیے جاتے ہیں انھیں دیگر جرائم جیسے کہ انسانی سمگلنگ یا بچوں کے ناجائز استعمال میں لگائے جاتے ہیں۔


Hackney Town Hall, London

View Pictures
لندن شہر کے علاقے ہیکنی میں کیے گئے سائبر حملے سے ہونے والے نقصان کا ازالہ کرنے کے لیے تقریباً 10 ملین پاؤنڈ کا خرچہ ہوگا

لندن شہر کے علاقے ہیکنی میں ڈائریکٹر آف انفارمیشن اینڈ کمیونیکیشن راب ملر کہتے ہیں کہ ‘گذشتہ سال اکتوبر میں مجھے ہمارے آئی ٹی نظام میں مسائل کے حوالے سے فون آیا۔ بہت جلد یہ واضح ہو گیا کہ یہ ایک سائبر حملہ تھا۔‘

وہ کہتے ہیں کہ ’ہمیں سب کچھ لاک کرنا پڑا، اور اپنے تمام کمپیوٹروں پر سے انٹرنیٹ منقطع کیا۔ ہم 24 گھنٹے تقریباً تین لاکھ لوگوں کو مختلف سہولیات فراہم کرتے ہیں اور یہ پریشان کن بات تھی۔ ہمیں معلوم تھا کہ ہمارے سامنے اب ایک بڑا چیلنج ہے۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ’اس دوران ہمیں کافی نقصان پہنچا۔ جس میں گھروں کی مرمت کی معلومات، لوگوں کے وظیفوں اور لینڈ رجسٹری سب کچھ بری طرح متاثر ہوا۔ ہمیں مکمل طور پر بحال ہونے میں کئی ماہ لگ جائیں گے۔ مجھے اس بات کی سمجھ نہیں آتی کسی کے لیے ایسا کرنے کا مقصد کیا ہو سکتا ہے۔‘


رینسم ویئر کے حوالے سے خفیہ انداز اور معاشرے میں اس کا نشانہ بننے کو برا سمجھے جانے کی وجہ سے اس بات کا اندازہ لگایا مشکل ہے کہ دنیا بھر میں کتنے سائبر حملے ہوتے ہیں اور ان پر کتنے اخراجات ہوتے ہیں۔

ایف بی آئی کا کہنا ہے کہ گذشتہ ایک سال میں 2400 امریکی کمنپیوں، مقامی حکومتوں، اور صحت عامہ کے سینکٹروں مراکز پر حملہ کیا گیا۔

برطانیہ کے نیشنل سائبر سکیورٹی سینٹر کے مطابق انھوں 2019 کے مقابلے میں گذشتہ سال رینسم ویئر سے متعلق 2019 تین گنا زیادہ شکایات ملیں۔ آر ٹی ایف کے محققین نے تصدیق کی کہ دنیا بھر کے متعدد ممالک جیسے برطانیہ، برازیل، جرمنی، جنوبی افریقہ، انڈیا، سعودی عرب وغیرہ میں رینسم ویئر کے حملے ہوئے ہیں۔

سائبر سکیورٹی کمپنی ایمسی سافٹ نے اندازہ لگایا ہے کہ صرف 2020 میں رینسم وئیر سے ہونے والے مالی نقصان کا تخمینہ کم از کم 42 ارب ڈالر سے لے کر 170 ارب ڈالر کے درمیان ہے۔

رینسم ویئر

ویریٹاس ٹیکنالوجیز کمپنی کی جانب سے کیے گئے سروے کے مطابق 66 فیصد متاثرین نے تسلیم کیا کہ انھوں نے تاوان کے لیے مانگی گئی رقم یا تو پوری ادا کی یا اس کا کچھ حصہ ضرور ادا کیا۔

’میری کمپنی تباہ ہو گئی تھی‘

سوئٹزرلینڈ کے شہر آربورگ میں آفکس گروپ کے چیف ایگزیکٹو مارٹن کیلیٹبورن جن کی کمپنی پر مئی 2019 میں ہیکنگ حملہ کیا گیا تھا کا کہنا ہے کہ ’جب ہمیں ہیک کیا گیا تھا تو مجھے یقین نہیں آیا تھا‘

وہ بتاتے ہیں کہ ’جب میں اپنے آئی ٹی ڈیپارٹمنٹ میں گیا تو اس وقت مینیجر کا رنگ زرد تھا اور وہ واضح طور پر صدمے میں تھا۔ اس نے مجھے بتایا کہ سب کچھ جا چکا ہے۔ ہم نے سب کچھ اپنی آنکھوں کے سامنے ہوتے دیکھا کیونکہ ہماری ویب سائٹ پر ہماری مصنوعات کی تمام تصاویر ایک کے بعد ایک انکرپٹ کر دی گئیں۔‘

’میرے پاس 230 ملازمین یہ پوچھنے آ رہے تھے کہ ہمارے پاس دسیوں ہزار آرڈرز تھے، لیکن ان میں سے ایک کو بھی دینے کے لیے کوئی کمپیوٹر سسٹم نہیں تھا۔‘

ان کا کہنا ہے کہ ’ایک موقع پر میں اور میرے باس نے درحقیقت ایک پریس ریلیز لکھی جس میں اعلان کیا گیا تھا کہ کمپنی تباہ ہو گئی ہے اور کاروبار ختم ہو گیا ہے۔ وہ میری زندگی کے بدترین تین ہفتے تھے۔‘

انھوں نے بتایا کہ ’ہیکرز ریوک رینسم ویئر گینگ کا حصہ تھے اور ان کا مطالبہ تھا کہ ہم انھیں 45 بٹ کوائن ادا کریں، جو تقریباً پانچ لاکھ ڈالرز بنتے تھے۔‘

ان کا کہنا ہے کہ ’ہاں ہم نے ادائیگی کرنے پر غور کیا تھا، لیکن دراصل انھوں نے ہمارے نظام کو اتنا تباہ کر دیا تھا کہ ہمیں بہرحال اسے دوبارہ بنانے کی ضرورت تھی۔ نظام کی بحالی میں ہمیں اسی لاگت کا سامنا کرنا پڑا: آدھا ملین ڈالر۔‘

آر ٹی ایف نے حکومتوں کو اپنی تجاویز میں کہا ہے کہ وہ اس بات کو یقینی بنائیں کہ جو متاثرین جرائم پیشہ افراد کو تاوان ادا کر رہے ہیں وہ حکومت کو اس متعلق ضرور بتائیں۔

سائبر سکیورٹی سے منسلک اداروں نے عرصے سے الزامات عائد کیے ہیں کہ رینسیم وئیر کے جرائم پیشہ گروہوں کا تعلق روس، ایران یا شمالی کوریا سے ہے۔

حال ہی میں امریکی حکومت نے متعدد روسی کمپنیوں اور افراد پر پابندی عائد کی تھی جن پر الزام تھا کہ روسی حکومت ان جرائم پیشہ افراد کو مدد فراہم کرتی ہے اور ان کی کارروائیوں میں ان کی حمایت کرتی ہے۔

گذشتہ ہفتے امریکی محکمہ انصاف نے اسی حوالے سے رینسم وئیر سے نمٹنے کے لیے ایک ٹیم بھی تشکیل دی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32497 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp