پاکستان پریس فاؤنڈیشن: کووڈ 19 کے دوران پاکستان میں پریس کو مزید بندشوں کا سامنا


صحافت

پاکستان میں جنوری 2020 سے لے کر اپریل 2021 تک میڈیا پر نشر ہونے والے مواد کو پہلے سے کہیں زیادہ پابندیوں کا سامنا کرنا پڑا ہے۔

غیر سرکاری تنظیم پاکستان پریس فاؤنڈیشن نے اپنی ایک رپورٹ میں کہا ہے کہ گذشتہ سال صحافیوں کے قتل، جسمانی تشدد، غیر قانونی حراست، دھمکیاں اور گرفتاریاں جاری رہیں، وہیں میڈیا کے مواد کو براہِ راست کنٹرول کرنے کی کوششوں میں بھی اضافہ ہوا ہے۔

رپورٹ کے مطابق ریگولیٹری اداروں کی جانب سے ہدایات، پورے پلیٹ فارمز پر پابندیوں، اور قانونی نتائج سخت کرنے والے قواعد تیار کرنے کی کوششوں کی وجہ سے ایسا ماحول پیدا ہوا ہے جہاں میڈیا سینسر ہو رہا ہے اور صحافیوں کو خود اپنے آپ کو سینسر کرنا پڑ رہا ہے۔

واضح رہے کہ پاکستانی حکومت کی جانب سے اس تاثر کی تردید کی جاتی رہی ہے کہ وہ میڈیا کی سینسر شپ میں ملوث ہے۔

’صحافیوں کو ویکسین میں ترجیح دی جائے‘

پی پی ایف کی رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ ایک اور چیلنج کووڈ 19 کا پھیلاؤ ہے جس نے کئی صحافیوں اور میڈیا کارکنوں کی جانیں لی ہیں۔ ‘وائرس سے صحافیوں کے تحفظ کو لاحق خطرات کے علاوہ اس وبا نے میڈیا کی آزادی سے متعلق بھی نئے چیلنجز پیدا کیے ہیں۔’

رپورٹ میں مطالبہ کیا گیا ہے کہ چونکہ صحافیوں کے کورونا سے متاثر ہونے کا خطرہ زیادہ ہے، اس لیے اُنھیں بھی فرنٹ لائن کارکن تصور کیا جائے اور ویکسین کی فراہمی میں ترجیح دی جائے۔

واضح رہے کہ پاکستان الیکٹرانک میڈیا ریگولیٹری اتھارٹی (پیمرا) کی جانب سے مختلف ٹی وی چینلز کو اکثر و بیشتر اُن کے مواد پر نوٹس جاری کیے جاتے رہے ہیں جن میں ‘عوام کی شکایات’ کا حوالہ دیا جاتا ہے۔

فروری 2021 میں پاکستان کے نجی انٹرٹینمنٹ چینل ٹی وی ون کی جانب سے ڈرامہ سیریل ‘دل ناامید تو نہیں’ کو ناظرین کی جانب سے پذیرائی تو ملی، مگر پیمرا نے اس ڈرامے پر اعتراض کیا اور کہا کہ ‘اس ڈرامے میں معاشرے کی حقیقی تصویر پیش نہیں کی گئی ہے۔’

پیمرا کی جانب سے ڈرامے کی قسط نمبر دو، تین اور چھ پر اعتراض کیا گیا جن میں حرکات و سکنات، مواد اور مکالموں کو معیوب کہا گیا۔

صحافت

اس سے قبل اکتوبر 2020 میں پیمرا کی جانب سے گالا بسکٹ کے اشتہار کے بارے میں ایک مراسلہ سامنے آیا جس میں پاکستان ایڈورٹائزنگ ایسوسی ایشن (پی اے اے) اور پاکستان ایڈورٹائزرز سوسائٹی (پی اے ایس) کو اشتہار کے مواد پر نظر ثانی کی ہدایت کی گئی تھی۔

اس اشتہار کے بارے میں پیمرا کا کہنا تھا کہ ‘یہ معاشرے میں شائستگی کے قابل قبول معیارات اور پاکستانی سماجی و ثقافتی اقدار’ کی ‘خلاف ورزی’ ہے۔

پاکستان پریس فاؤنڈیشن نے اپنی رپورٹ میں کہا ہے کہ ریگولیٹری ادارے حکومت کے لیے مواد پر بندشیں عائد کرنے کا ایک ذریعہ بن چکے ہیں۔ اس میں کہا گیا کہ ملک میں ہونے والی اہم پیش رفتوں کی کوریج پر پیمرا کی جانب سے مکمل پابندیاں بھی عائد کی گئی ہیں جس کی وجہ سے میڈیا اپنے ناظرین کو آگاہ رکھنے میں ناکام رہا ہے۔

‘صرف 2021 کے پہلے چند مہینوں میں ہی پیمرا نے نیب کے حوالے سے کوریج پر ہدایات جاری کیں، تحریکِ لبیک پاکستان (ٹی ایل پی) کی کوریج پر جزوی پابندی عائد کی اور صحافیوں کو کابینہ اجلاسوں کی ذرائع کے حوالے سے رپورٹنگ کرنے سے منع کیا۔

جنوری 2021 میں بی بی سی ورلڈ سروس کی جانب سے آج ٹی وی پر نشر ہونے والے اپنے اُردو پروگرام سیربین کا سلسلہ بھی ختم کر دیا گیا تھا۔

اس حوالے سے بی بی سی ورلڈ سروس کے ڈائریکٹر جیمی اینگس نے ایک بیان میں کہا تھا کہ ‘ہمارے پروگراموں میں کسی قسم کی مداخلت ہمارے اور ہمارے ناظرین کے درمیان اعتماد کی خلاف ورزی ہے، جس کی ہم اجازت نہیں دے سکتے۔’

اُنھوں نے کہا تھا کہ ‘ہم سنہ 2020 اکتوبر سے اپنے نیوز بلیٹنز میں مداخلت دیکھ رہے تھے۔’

بی بی سی اُردو کے پروگرام سیربین کی آج ٹی وی پر نشریات کا سلسلہ سنہ 2014 سے جاری تھا۔

بی بی سی، سیربین،

اس حوالے سے آزادیِ صحافت کی عالمی تنظیم رپورٹرز ود آؤٹ بارڈرز (آر ایس ایف) بھی پاکستانی حکومت پر زور دے چکی ہے کہ وہ میڈیا کے صحافتی فیصلوں میں مداخلت نہ کرے کیونکہ ایسا کرنا بنیادی طور پر جمہوریت مخالف ہے اور یہ مداخلت ‘پاکستان کی تاریخ میں آمریت کے بدترین برسوں کی یاد تازہ کرتی ہے۔’

جب بی بی سی نے حکمراں جماعت کے سینیٹر فیصل جاوید سے اس بارے میں رابطہ کیا تو اُن کا کہنا تھا کہ وہ اس بات سے اتفاق نہیں کرتے کہ پاکستان میں کسی قسم کی سنسر شپ ہے۔

‘آج میڈیا جتنا آزاد ہے، چاہے وہ مقامی ہو یا غیر ملکی، اس سے پہلے اتنا آزاد نہیں تھا۔’


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32299 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp