اترپردیش: جونپور میں آکسیجن فراہم کر کے لوگوں کی مدد کرنے والے کے خلاف مقدمہ

دلنواز پاشا - بی بی سی ہندی، نئی دہلی


انڈیا کی سب سے بڑی ریاست اترپردیش کے جونپور ضلعے میں انتظامیہ نے اس نوجوان کے خلاف مقدمہ درج کیا ہے جو سرکاری ہسپتال کے باہر آکسیجن کی کمی کے شکار مریضوں کو اپنی ایمبولینس سے آکسیجن دے رہا تھا۔

مقدمے کے درج کیے جانے کو بہت سے لوگ مددگاروں کو خاموش کرنے کی کوشش سے تعبیر کر رہے ہیں۔ جبکہ انتظامیہ کا موقف ہے کہ یہ نوجوان ہسپتال کے باہر انتشار کا باعث بنا تھا اور اس کی وجہ سے طبی عملے کو پریشانی کا سامنا کرنا پڑا تھا۔

جونپور کے ڈی ایم منیش ورما نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا: ‘ابھی تک نوجوان کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی گئی ہے۔ اے ڈی ایم کی ٹیم اس پورے معاملے کی تحقیقات کر رہی ہے۔ انتظامیہ کسی کو غیر ضروری سزا دینے کا ارادہ نہیں رکھتی ہے۔’

یہ بھی پڑھیے

’اگر انھوں نے سوچا ہوتا تو آج میری بیٹی اور اہلیہ زندہ ہوتیں‘

آکسیجن کی فراہمی میں مودی حکومت کی ناکامی کے اسباب

’ہمیں ہسپتال کے بستر کی تلاش میں 200 افراد کو فون کرنا پڑے‘

جونپور کوتوالی میں وکی اگرہری نامی نوجوان کے خلاف وبائی ایکٹ کی دفعہ 3 اور تعزیرات ہند کی دفعہ 188 اور 269 کے تحت مقدمہ درج کیا گیا ہے۔ یہ معاملہ جونپور کے چیف میڈیکل سپرنٹنڈنٹ کی شکایت پر درج کیا گیا ہے۔

بی بی سی سے گفتگو کرتے ہوئے وکی اگرہری نے کہا: ‘میں مریضوں کو بغیر آکسیجن کے تڑپتے ہوئے نہیں دیکھ سکتا تھا۔ اس لیے میں نے اپنی ایمبولینس سے آکسیجن سیلنڈر نکال کر انھیں آکسیجن دے دی۔’

سی ایم او نے اپنی شکایت میں کہا: ‘وکی اور دیگر افراد پرچہ (رسید) کاؤنٹر کے قریب سانس کی تکلیف والے مریضوں کو نجی سیلنڈروں سے آکسیجن دے رہے تھے اور ویڈیو بنا رہے تھے۔ وہ وہاں موجود لوگوں کو بتا رہے تھے کہ ہم مریضوں کو بچانے کی کوشش کر رہے ہیں اور یہ کہ انتظامیہ کی جانب سے انتظام نہیں ہے۔’

مدد کرنے والے نوجوان پر مقدمہ دائر کرنے سے انتظامیہ کی شبیہہ پر منفی اثر ہو سکتا ہے۔ ایسے میں اس کیس کو درج کرنے کی کیا وجہ ہے؟

اس سوال پر ڈی ایم منیش ورما نے کہا: ‘جہاں تک مجھے معلوم ہے مذکورہ نوجوان ہسپتال کے باہر مریضوں کو آکسیجن دے کر ویڈیو بنا رہا تھا جبکہ اس وقت ہسپتال میں بستر دستیاب تھے۔ جنھیں باہر آکسیجن دی گئی تھی ان سب کو ہسپتال میں داخل کر لیا گیا تھا۔’

منیش ورما کا کہنا ہے کہ ‘ہمارے افسران اور میڈیکل عملہ بھی اپنی جان کو خطرے میں ڈال رہے ہیں۔ ان کی کوششوں کو میڈیا میں جگہ نہیں ملتی ہے لیکن جب کوئی منفی خبر آتی ہے تو اس کی حوصلہ افزائی کی جاتی ہے۔ اس سے عہدیداروں کے حوصلے پست ہوتے ہیں۔’

ڈی ایم کا دعوی ہے کہ کووڈ کی دوسری تباہ کن لہر کے باوجود جونپور میں صورتحال بہت حد تک قابو میں ہے اور اس وقت آکسیجن یا بستر کا کوئی بحران نہیں ہے۔

وکی اگرہری کون ہیں؟

34 سالہ وکی اگرہری پیشے کے اعتبار سے ایمبولینس ڈرائیور ہیں۔ بی بی سی سے بات کرتے ہوئے وکی نے کہا: ‘میرے پاس ایمبولینس میں دو آکسیجن سیلنڈر تھے۔ دو ہفتے قبل میں نے اپنی بیوی کا سونا فروخت کیا تھا اور چار آکسیجن سیلنڈر خریدے تھے۔ مجھے دو سیلنڈر عطیے میں ملے ہیں۔ میں نے اب تک سو لوگوں کو آکسیجن دے کر مدد کی ہے۔’

ان کے مطابق انھوں نے آکسیجن کے بحران کے پیش نظر بیس ہزار روپے فی سیلنڈر کی شرح پر آکسیجن سیلنڈر خریدے ہیں۔

جمعرات کے واقعے کو یاد کرتے ہوئے وہ کہتے ہیں: ‘میں ایمبولینس سے ایک شدید مریض کو لے کر ڈسٹرکٹ ہسپتال گیا تھا۔ ایمبولینس میں آکسیجن سیلنڈر تھا۔ وہاں میں نے دیکھا کہ بہت سارے مریض آکسیجن کے لیے پریشان ہو رہے تھے اور انھیں داخل کرنے کے عمل میں وقت لگ رہا تھا۔ میں نے انھیں اپنی ایمبولینس سے آکسیجن نکال کر دے دی۔ جب میں نے ایک مریض کو آکسیجن دی تو دوسرے مریض بھی میرے پاس آنے لگے اور بھیڑ سی لگ گئی۔’

وکی نے کہا: ‘میں 16 سال سے ایمبولینس چلا رہا ہوں۔ یہ شدید بحران ہے۔ میں نے سوچا تھا کہ لوگوں کی مدد کرنے کا یہ ایک بڑا موقع ہے اور اسی وجہ سے میں نے گھر کے زیورات بھی بیچے۔ جن لوگوں کو آکسیجن دی گئی ہے وہ پیسے دینا چاہ رہے تھے لیکن میں نے کسی سے پیسے نہیں لیے۔ میں پوری طرح خدمت کے جذبے کے تحت کام کر رہا تھا۔’

وکی کا دعوی ہے کہ اس سے قبل وہ ایک سیلنڈر میں 500 روپے کی شرح سے آکسیجن بھرواتے تھے لیکن اب انھیں ایک سیلنڈر کے لیے 2500 روپے تک خرچ کرنا پڑتا ہے۔ جب ہم نے وکی سے فون پر بات کی تو وہ جونپور سے 80 کلومیٹر دور رام نگر میں سیلنڈر بھروا رہے تھے۔

وکی اگرہری کا دعویٰ ہے کہ ان کے چھوٹے بھائی کو پولیس سٹیشن بلاکر بٹھایا گیا تھا لیکن کوتوالی جونپور کے ایس ایچ او تاراوتی نے بی بی سی کو بتایا کہ وہ صرف اپنے بھائی پر دائر مقدمے کے بارے میں معلومات حاصل کرنے آئے تھے، اس معاملے میں ہم نے کسی کو گرفتار نہیں کیا۔

اس ایف آئی آر کے بعد وکی کے اہل خانہ خوفزدہ ہیں۔ ان کے چھوٹے بھائی نے بی بی سی کو بتایا کہ اب وہ اپنے بھائی کے آکسیجن سیلنڈر کو فروخت کروا دیں گے۔ لیکن وکی کا کہنا ہے کہ تمام تر مشکلات اور ایف آئی آر کے باوجود وہ لوگوں کی مدد کرتے رہیں گے۔

وکی نے کہا: ‘میں اس بحران کو خدمت کے مواقع کے طور پر دیکھ رہا ہوں۔ میں نے زندگی بھر کمایا ہے۔ میں مستقبل میں بھی کماؤں گا۔ مجھ سے جہاں تک ہو سکے گا میں لوگوں کی مدد کروں گا۔ میں اپنے سیلنڈر فروخت نہیں کروں گا۔’

جونپور کے حالات

ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ منیش ورما کے مطابق جونپور میں انتظامیہ نے کووڈ رسپانس وار روم قائم کر رکھا ہے جس کے ذریعے کووڈ بحران پر قابو رکھا جا رہا ہے۔ فی الحال جونپور میں کووڈ سے متاثرہ مریضوں کے لیے لیول ون اور لیول ٹو کے 500 بستر دستیاب ہیں۔

منیش ورما نے کہا: ‘ہمارے کنٹرول روم میں روزانہ تقریبا ایک ہزار کالز آتی ہیں۔ جن مریضوں کو داخلے کی ضرورت ہوتی ہے ان کو داخل کیا جا رہا ہے۔ ہم ہر کال کا جواب دے رہے ہیں۔ یہ ایسی صورتحال ہے جیسی پہلے کبھی نہیں دیکھی۔ ہمارے پاس تیاری کے لیے وافر وقت نہیں تھا۔ لیکن ہمارے افسران اور طبی عملہ سخت حالات کے باوجود 24 گھنٹے کام کر رہے ہیں۔’

ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ کا دعویٰ ہے کہ جونپور میں ریمڈیسیویر کا بحران بھی نہیں ہے۔ منیش ورما کہتے ہیں: ‘ہمارے پاس ریمڈیسیویر کا جو بھی مطالبہ ادارہ جاتی طور پر آرہا ہے ہم اسے پورا کر رہے ہیں۔ ہم نے یہ دوا کچھ نجی ہسپتالوں کو قرض بھی دی ہے۔ لیکن جو لوگ نجی طور پر اسے حاصل کرنا چاہتے ہیں ہم انھیں یہ دوا نہیں دے رہے ہیں۔’

جونپور میں کورونا انفیکشن کے کیسز میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے۔ جمعہ تک جون پور میں پانچ ہزار سے زیادہ ایکٹو کورونا مریض تھے۔ جمعہ کے روز تک ایل ٹو کووڈ ہسپتال میں 62 میں سے 61 بستروں پر مریض تھے۔ جبکہ ڈسٹرکٹ ہسپتال میں 71 بستروں میں سے ایک بھی خالی نہیں تھا۔

مقامی صحافی آدتیہ پرکاش کے مطابق انتظامیہ کے سامنے صورتحال انتہائی چیلنجنگ ہے اور اب تک کیے گئے انتظامات ناکافی ثابت ہورہے ہیں۔

آدتیہ کا کہنا ہے کہ ‘آکسیجن کی کمی کی وجہ سے انتظامیہ پر مستقل دباؤ ہے۔ ضلعی انتظامیہ کووڈ کنٹرول روم کے ذریعہ صورتحال پر قابو پانے کی کوشش کر رہی ہے۔ لیکن اچانک تعداد میں اضافے کی وجہ سے تمام ہسپتالوں کی حالت خراب ہے۔

بڑی تعداد میں کووڈ اور غیر کووڈ مریضوں کو آکسیجن کی ضرورت ہے جو انتظامیہ کے لیے فراہم کرنا مشکل ہوتا جا رہا ہے۔ تاہم، ضلعی انتظامیہ نے ڈاکٹروں کی ایک ٹیم کو 24 گھنٹے ٹیلی میڈیسن کے علاج میں مصروف رکھا ہوا ہے۔’

ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ کے مطابق جونپور میں کوئی آکسیجن پلانٹ نہیں ہے اور اس کی فراہمی کے لیے ہمسایہ شہروں پر انحصار ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ اب تک فراہمی میں کوئی پریشانی نہیں ہوئی ہے اور مزید انتظامات کیے جا رہے ہیں۔

آکسیجن

مددگاروں کی آواز دبانے کی کوشش؟

اتر پردیش حکومت کی کووڈ پالیسیوں کے کھلے ناقد اور سابق بیوروکریٹ سوریہ پرتاپ شاہی کا کہنا ہے کہ حکومت مدد کے لیے آگے آنے والوں کے خلاف مقدمات درج کر کے ان کی حوصلہ شکنی کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔

بی بی سی سے گفتگو کرتے ہوئے انھوں نے کہا: ‘یوپی حکومت صورت حال کو تسلیم کرنے کے لیے تیار نہیں ہے۔ وہ شہریوں کو اس فریب میں رکھنا چاہتی ہے کہ سب کچھ ٹھیک ہے۔ لیکن ہسپتالوں کے باہر لوگوں کی اموات ہو رہی ہیں، حکومت اس سچائی کو چھپا نہیں پا رہی ہے۔ اسی کشمکش میں مقدمے درج کیے جا رہے ہیں۔ میرے خلاف بھی تین مقدمات درج کیے گئے ہیں، لیکن اس طرح کے مقدمات سے کوئی فرق نہیں پڑے گا۔ جن لوگوں کو مدد کرنی ہوگی وہ باہر نکل کر مدد کریں گے۔’

شاہی کہتے ہیں کہ ‘ضرورت اس بات کی تھی کہ ہسپتال بنایا جائے، بستروں کی تعداد میں اضافہ کیا جائے، آکسیجن مہیا کی جائے۔ حکومت اس سمت میں کوششیں تو کر رہی ہے لیکن بحران اتنا بڑا ہے کہ بہت کچھ نہیں ہو پا رہا ہے۔’


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32298 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp