عید الفطر کی شاپنگ: مہنگے برانڈز سے تنگ خواتین نے سستا حل تلاش کر لیا

سارہ عتیق - بی بی سی اردو ڈاٹ کام، اسلام آباد


’ہاں ہم جانتے ہیں کہ عید صرف سال میں دو مرتبہ آتی ہے لیکن پھر بھی عید کے ایک جوڑے پر 10 سے 15 ہزار روپے خرچ کرنا بہت سی خواتین کے لیے ممکن نہیں۔‘

اُشنا حبیب کہتی ہیں کہ وہ ہر سال عید کے لیے شاپنگ ایک یا دو ماہ پہلے کر لیتی ہیں لیکن اس بار جو انھوں نے عید کے جوڑے کے لیے مشہور برانڈز کا رخ کیا تو ان کی قیمتیں دیکھ کر ان کے ہوش اڑ گئے۔

’اس وقت تقریباً تمام ہی بڑے برینڈز کے ایک عام سے سوٹ کی قیمتیں 10 یا 11 ہزار سے شروع ہو رہی ہیں۔ ایک خاتون پہلے عید پر اپنے لیے 10 ہزار روپے کا سوٹ خریدے، پھر وہ اپنے بچوں کے لیے کپڑے خریدے اور صرف ایک تہوار پر ہزاروں روپے خرچ کر دے۔ اس مہنگائی کے دور میں یہ عوام کے ساتھ ظلم ہے۔‘

اُشنا کو شکایت ہے کہ بڑے برانڈز اس قیمت میں تمام خواتین کو کپڑے فروخت کر رہے ہیں جن کو خریدنے کی استطاعت صرف ایک خاص طبقے کی خواتین میں ہے۔

مشہور برانڈز کے گرتے معیار اور زیادہ قیمت سے تنگ آ کر ایک دن اُشنا نے خواتین کے فیس بک گروپ میں لکھا کہ وہ تمام بڑے اور مشہور برانڈز سے تنگ آ چکی ہیں اور اس عید پر وہ کسی ایسی دکان یا برانڈ کی تلاش میں ہیں جہاں نہ صرف سستے بلکہ معیاری کپڑے فروخت ہو رہے ہوں۔

’مجھے پہلے لگتا تھا کہ میری جیسی لڑکیوں اور خواتین کے لیے، جو یا تو طلب علم ہیں یا ان کا تعلق ایک ایسے گھرانے سے ہے جس کی ماہانہ آمدن 50 سے 80 ہزار روپے ہے، کوئی ایسا برانڈ نہیں ہے جو ہمیں نہ صرف سستے بلکہ فیشن کے مطابق کپڑے فراہم کرے۔ اگر میں تین سے چار ہزار روپے بھی ایک جوڑے پر لگاتی ہوں تو میں چاہوں گی کہ وہ چھ آٹھ مہینے تو چلے۔‘

جب اُشنا نے خواتین سے تجویز مانگی اور خود بھی انسٹاگرام پر تلاش شروع کی تو انھیں ایسے متعدد نئے اور چھوٹے برانڈز ملے جن کے کپڑے نہ صرف جدید فیشن کے مطابق تھے بلکہ ان کی قیمتیں بھی بڑے برانڈز کے مقابلے میں بہت کم تھیں۔

’مجھے یہ جان کر حیرانی ہوئی کہ اس وقت 60 سے 70 ایسے نئے برانڈز ہیں جن کی قیمتیں ایک عام خاتون کی پہنچ میں ہیں۔ ہمیں لگتا ہے کہ اگر کپڑے مہنگے ہوں تو اچھے ہوں گے۔ اگر ان کے اشتہارات میں مشہور اور خوبصورت ماڈلز ہوں گی تو ہی کپڑے اچھے ہوں گے لیکن ان سب کا تعلق کپڑوں کے اچھے معیار سے نہیں ہے۔‘

نیہا بھی اُشنا کی طرح بڑے برانڈز کی بڑھتی ہوئی قیمتوں سے تنگ تھیں۔ جب ایک ایک کر کے تمام مشہور برانڈز ان کی قوت خرید سے باہر چلے گئے تو انھوں نے نہ صرف اپنے لیے بلکہ اپنی طرح کی خواتین کے لیے کپڑے بنانے کا سوچا جو کہ ہر کسی کی قوتِ خرید میں ہوں اور ان کی کوالٹی بھی اچھی ہو۔

’مجھے مشہور برانڈز سے سب سے بڑی شکایت یہ تھی کہ وہ صرف ایک خاص جسامت والی خواتین کے لیے کپڑے بناتے ہیں۔ بھاری جسامت والی پلس سائز خواتین کے لیے ان کے پاس یا تو کپڑے ہیں ہی نہیں اور اگر ہیں بھی تو ایک خاص ڈیزائن کے۔ میں چاہتی تھی کہ مجھ جیسی پلس سائز لڑکیوں کے لیے بھی آج کل کے فیشن کے مطابق کپڑے ہوں۔‘

’ایسٹرنری بائے نیہا‘ کی مالک کا دعویٰ ہے کہ ان کے سب سے مہنگے جوڑے کی قیمت کسی بڑے برانڈ کے سب سے کم قیمت جوڑے جتنی ہے۔

’جو مشہور برانڈز کے کپڑوں کی کم سے کم قیمت ہوتی ہے وہ میرے کپڑوں کی زیادہ سے زیادہ قیمت ہوتی ہے۔ میرا قمیض شلوار دوپٹہ سمیت جوڑا تین ہزار سے شروع ہوتا ہے جبکہ میرا سب سے زیادہ قیمت والا جوڑا سات ہزار کا ہے۔ اس کے علاوہ میں نے اس بات کا بھی خاص خیال رکھا ہے کہ میرے کپڑے ہر طرح کی جسامت والی خواتین پر اچھے لگیں اور وہ اس میں پُراعتماد محسوس کریں۔‘

کورونا کی وباء کے آغاز میں مہوش، حرا اور ثنا کے برانڈ ’نقش‘ نے لوگوں سے درخواست کی کہ لوگ ان کے کپڑے نہ خریدیں بلکہ اس کی جگہ وہ پیسے کسی غریب اور ضرورت مند کو عطیہ کر دیں۔ اس برانڈ کی مالک مہوش کا کہنا ہے کہ اگرچہ ان کے کپڑے ہر طبقے کی خواتین کی قوت خرید میں ہیں لیکن پھر بھی انھیں مشکل کی اس گھڑی میں یہی مناسب لگا۔

’ہماری کوشش ہوتی ہے کہ ہم اپنا منافع کم سے کم رکھیں اور خواتین کو کپڑوں میں وہی معیار فراہم کریں جو ہم اپنے لیے پسند کرتے ہیں۔ میں نے ساری زندگی زیادہ تر بنے بنائے کپڑے خریدے ہیں لیکن پھر یہ دیکھنے میں آیا کہ مہنگے کپڑے ہونے کے باوجود کچھ دنوں بعد یا تو کسی کپڑے کا بٹن نکل آتا تھا یا کسی کے دھاگے نکل آتے تھے۔ اس لیے میں نے یہ کپڑے خریدنے بند کر دیے اور سوچا کہ خود کچھ ایسا بناؤں جو دیرپا ہو۔‘

نقش برانڈ کی مالک حرا کا دعویٰ ہے کہ ان کے کپڑوں کی قیمت دو ہزار سے شروع ہوتی ہے اور اکثر اوقات اس سے بھی کم قیمت میں کپڑے دستیاب ہوتے ہیں۔

’ہمارے پاس دو قسم کے کپڑوں کی لائن ہے۔ ایک روز مرّہ کے پہننے والے سادہ کپڑے اور ایک خاص تقریبات میں پہننے والے۔ جو ہمارے روز مرّہ کے پہننے والے ہیں وہ دو ہزار سے شروع ہوتے ہیں جبکہ تقریبات میں پہنے جانے والے کپڑوں میں صرف قمیض کی قیمت تین ہزار روپے سے شروع ہوتی ہے۔‘

مہوش اور حرا کا کہنا ہے کہ اس وقت کیونکہ شوخ کپڑے فیشن میں ہیں اس لیے اس بار صارفین کو ان کے عید کے کپڑوں میں خوبصورت رنگ دیکھنے کو ملیں گے۔

اُشنا خوش ہیں کہ ان کی تلاش رنگ لے آئی اور اس بار عید کے جوڑے کے لیے انھیں ہزاروں روپے خرچ نہیں کرنے پڑے۔

’میں نے انسٹاگرام پر موجود ایک نئے برانڈ سے اپنا عید کا جوڑا ساڑھے تین ہزار روپے میں خریدا جو شاید اگر میں کسی بڑے برانڈ سے لیتی تو مجھے سات سے آٹھ ہزار روپے کا پڑتا۔’


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32294 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp