کورونا کا علاج اور عدم شفافیت کا نظام


پاکستان میں حکمرانی کا بحران ہمیشہ سے رہا ہے۔ 18 ویں ترمیم کے بعد خیال تھا کہ جس انداز سے سیاسی، انتظامی اور مالی اختیارات مرکز سے صوبوں میں منتقل ہوں گے تو اس کا ایک بڑا نتیجہ صوبائی اور مقامی سطح پر منصفانہ اور شفاف حکمرانی کے تناظر میں دیکھنے کو ملے گا۔ مرکز سے اختیارات صوبوں اور صوبوں سے ضلعی یا تحصیل سطح پر ایک مضبوط مقامی حکومتوں کا نظام ہی بنیادی طور پر ہماری سیاسی ترجیحات کا حصہ ہونا چاہیے تھا۔

لیکن ریاستی و حکومتی نظام کی ترجیحات میں مرکزیت پر مبنی حکمرانی کا نظام ہمارے سارے حکمرانی کے نظام کو بدترین انداز میں متاثر کر رہا ہے۔ اس کی ایک بڑی بھاری قیمت ہمیں عوامی مفادات کے تناظر میں استحصال پر مبنی معاشرہ یا نظام کی صورت میں ادا کرنا پڑتی ہے جو لوگوں میں ریاست اور حکومت کے بارے میں موجود اعتماد کے رشتے کو بداعتمادی میں تبدیل کرتا ہے۔

اس وقت دنیا مجموعی طور پر ایک بہت ہی بڑے بحران یعنی کورونا جیسی موذی وبا سے نمٹنے کی کوشش کر رہی ہے۔ خود پاکستان بھی اس مرض سے محفوظ نہیں۔ اس وبا نے مجموعی طور پر ہمارے حکمومتی نظام کو بری طرح متاثر کیا ہے۔ سب سے بڑا بحران ہمیں شعبہ صحت میں دیکھنے کو ملا ہے۔ یعنی کورونا کے بحران نے جو شعبہ سب سے زیادہ نمایاں طور پر خامی کی صورت میں اجاگر کیا ہے وہ ہمارا صحت کا شعبہ تھا۔ اس کا اعتراف ریاستی و حکومتی سطح سمیت عالمی ادارہ صحت نے بھی کیا ہے۔

ایک طرف حکومتی نظام ہے جو مجموعی طور پر اپنی شفاف صلاحیتوں سے محروم نظر آتا ہے۔ بالخصوص کسی بھی قدرتی آفات یا حادثہ یا وبا کی صورت میں کیا ہمارا صحت کا شعبہ عوامی مفادات یا توقعات کو ادا کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے؟ کیا وہ تمام ہنگامی اور ضروری اقدامات یا سہولتیں ہمارے پاس میسر ہیں جو ہمیں اس طرح کے حادثات یا وبا سے نمٹنے کے لیے درکار ہوتی ہیں؟ تو جواب نفی میں ملتا ہے۔

پاکستان جو اس وقت کورونا کے بحران سے نمٹنے کی کوشش کر رہا ہے، اس میں ایک بڑا مسئلہ عام آدمی کو اس بیماری میں زیادہ سے زیادہ ریلیف فراہم کرنا ہے۔ یہ حکومت کی ذمہ داری ہے کہ وہ حکومتی یا نجی شعبہ کی سطح پر موجود صحت کی سہولتوں سے عام اور کمزور یا غریب آدمی کو زیادہ سے زیادہ ریلیف فراہم کرنے میں اپنی بنیادی ذمہ دار ی ادا کرے۔ یہ ریاست یا حکومت کا عوام پر احسان نہیں بلکہ اس کی ذمہ داری کے زمرے میں آتا ہے۔

ہسپتالوں میں کمروں کی دستیابی، بستر کی موجودگی، بنیادی ادویات کی فراہمی، آکسیجن کا موجود ہونا، وینٹی لیٹر کا ہونا، ایکسرے یا ٹیسٹوں کو سہولیات کا ہونا، ڈاکٹروں اور نرسوں سمیت پیرا میڈیکل سٹاف بنیادی سہولتیں ہیں۔ اس وقت ہمارا سرکاری صحت کا شعبہ جن محدود وسائل، سہولتوں اور عدم ترجیحات کے باوجود کورونا سے نمٹنے کے لیے جو دن رات کام کر رہا ہے ، اس کی بھی ہر سطح پر پذیرائی اور تعریف ہونی چاہیے۔ ان سرکاری ڈاکٹروں اور عملے نے ہنگامی بنیادوں پر ایک فوج کی طرح اپنا حق ادا کیا ہے۔ کورونا ویکسین کی فراہمی یا دستیابی کے معاملات میں بھی بہتری نظر آ رہی ہے اور خاص طور پر جس انداز سے عام اور غریب لوگوں کو ویکسین کی سہولت فراہم کی جا رہی ہے ، وہ واقعی قابل تعریف عمل ہے اور اس میں حکومت پاکستان نے بھی کافی حد تک ذمہ داری کا مظاہرہ کیا ہے۔

لیکن کورونا جیسے مرض پر ہمارے نجی شعبہ میں جو منافع کمانے کی ڈور لگی ہوئی ہے وہ بھی قابل غور ہے۔ یعنی ہم بطور قوم لوگوں کی مجبوریوں سے فائدہ اٹھانے کی کوشش کرتے ہیں۔ ایسے موقع پر جو مہذہب معاشرہ یا طبقے کی ذمہ داری ہوتی ہے اس کا واقعی بڑی سطح پر فقدان پایا جاتا ہے۔ مثال کے طور پر اس وقت آکسیجن کی فراہمی کا مسئلہ ہی دیکھ لیں ، جیسے ہی لوگوں کی اس بیماری میں بڑی ضرورت بنی تو کیسے آکسیجن سلنڈر کی قیمتوں میں اضافہ دیکھنے کو مل رہا ہے۔

نجی شعبہ جات میں قائم لیبارٹری میں ٹیسٹوں کی قیمتوں میں اضافہ، ہسپتالوں کے کمروں سمیت دیگر دی جانے والی سہولتوں کی قیمتوں میں بے تحاشا اضافہ، ڈاکٹروں کی فیس، وینٹی لیٹرز کا کرایہ، بلاوجہ ٹیسٹوں کی طرف لوگوں کو مائل کرنا،  مریض کی صورتحال زیادہ خراب نہ ہونے کے باوجود ان کو ہسپتال میں رکھنے کا رجحان، اس سب کے پیچھے دولت زیادہ سے زیادہ کمانے کا کھیل غالب ہو گیا ہے۔ بہت سے مریض ہم سے گلہ کرتے ہیں کہ ہسپتال انتظامیہ کا مجموعی رویہ انسان دوستی کی بجائے کاروباری بن گیا ہے اور ہر مشکل وقت کو بنیاد بنا کر پیسے کی دوڑ لگی ہوئی ہے۔

اب سوال یہ ہے کہ جو کچھ کورونا کے نام پر نجی شعبہ جات میں ہو رہا ہے ، اس میں خرابیوں کا ذمہ دار کون ہے؟ نجی شعبہ کی بڑی اہمیت ہے۔ اس سے انکاری نہیں اور اس شعبہ کو سرکاری اداروں کے ساتھ ساتھ اور زیادہ مضبوط ہونا چاہیے۔ لیکن ان نجی شعبہ جات کی کون نگرانی کر رہا ہے اور کیسے ان کو قانون اور حکومتی پالیسیوں کے تابع کیا جا سکتا ہے۔ صوبائی سطح پر ہمارے پاس صوبائی ہیلتھ کیئر کمیشن موجود ہیں۔ پنجاب میں بھی پنجاب ہیلتھ کیئر کمیشن کام کر رہا ہے۔

اس ادارہ کی بنیادی ذمہ داری میں پنجاب میں صحت کی سہولتوں کو منصفانہ اور شفاف بنانا ہے جو لوگوں کو صحت کی بہتر سہولتوں کو یقینی بنانے میں اپنا کردار ادا کرتا ہے۔ سابق چیف جسٹس ثاقب نثار کے دور میں ہم نے اس شعبہ میں بہت زیادہ گرم جوشی دیکھی، کمیٹی کا قیام عمل میں لایا گیا اور ان نجی شعبہ جات کو جوابدہ بنایا گیا۔ کوشش یہ کی جا رہی تھی کہ نجی شعبہ کو صحت کی سہولتوں کی فراہمی میں مادرپدر آزادی نہیں دی جانی چاہیے۔

حکمرانی کے نظام میں نجی شعبہ میں شفافیت کو پیدا کرنے میں ریگولٹری اتھارٹیاں زیادہ اہمیت رکھتی ہیں۔ ان کا کام بنیادی طور پر نجی شعبہ جات کے بنیادی طے شدہ اشاریوں پر نگرانی کے نظام کو شفاف بنانا ہوتا ہے۔ یعنی ان نجی شعبوں میں نہ صرف لوگوں کو سہولیات مل رہی ہوں بلکہ ان کی قیمتوں میں بھی توازن ہونا چاہیے۔

لیکن اس وقت کورونا کے مریض اور ان کے خاندان کے لوگ جس انداز میں نجی شعبوں پر تنقید کر رہے ہیں اور جس انداز سے ریاست یا حکومتی نظام کی کمزوریوں کے باعث لوگوں کو نجی ہسپتالوں اور لیبا ٹریوں سے مسائل کا سامنا ہے ان کو ہر صورت میں حل بھی ہونا چاہیے اور یہ معاملہ شفافیت کے طور پر نظر بھی آنا چاہیے۔ علاج کے لیے قیمتوں کا تعین کرنا اور ان میں توازن پیدا کرنا اور اس بات کو یقینی بنانا کہ نجی شعبے کے لوگ یا ذمہ داران لوگوں کا معاشی استحصال نہ کریں۔ یہ صوبائی کمیشن کی ذمہ داری کے زمرے میں آتا ہے۔

صوبائی حکومتوں کی یہ بڑی ذمہ داری ہے کہ وہ اس ہیلتھ کیئر کمیشن کی مدد سے نجی شعبہ میں قائم ہسپتالوں کی نگرانی اور شفافیت کے نظام کو زیادہ سے زیادہ مؤثر اور اسے عوامی توقعات کے مطابق چلائے۔ یہ تأثر کسی بھی صورت نہیں ابھرنا چاہیے کہ مشکل وقت میں حکومت اول تو اپنی ذمہ داری ادا نہیں کرتی یا اپنی ذمہ داری ادا کرنے کی بجائے لوگوں کو نجی شعبوں کے رحم وکرم پر چھوڑ دیتی ہے۔ ایسے میں ان اداروں کی نگرانی کا نہ ہونا اور ان میں عملی طور پر شفافیت کے نظام کی عدم موجودگی اور زیادہ لو گوں کو مشکل صورتحال سے دوچار کرتی ہے۔

حکومت کو یہ سمجھنا ہو گا کہ اچھی حکمرانی کے نظام میں ادارہ جاتی سطح پر معاملات کو درست کرنا، اسے ریگولیٹ کرنا، شفافیت کو پیدا کرنا، سخت اور کڑی نگرانی کرنا اور جو لوگ بھی حکومتی سطح پر موجود قوانین یا پالیسی کی نفی کریں تو انہیں جوابدہ بنا کر ہی اچھی حکمرانی اور عوامی مفاد کی سیاست کو طاقت دی جا سکتی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments