سائبرکرائم ایکسپرٹ سوشل میڈیا نہ استعمال کرے تو رکشہ چلائے؟


ایف آئی اے کے اسٹنٹ ڈائریکٹر سائبر کرائم ونگ آصف اقبال چودھری جن کا تعلق جنوبی پنجاب سے ہے ، سوشل میڈیا پر کافی سرگرم نظر آتے ہیں، سائبر کرائم جس میں بینکنگ کرائم ہوں، ہیکنگ ہو یا سائبر بلیک ملینگ، پیچیدہ سے پیچیدہ معلومات کو انتہائی آسان اور عام فہم الفاظ میں آپ کو سمجھاتے ہوئے نظر آئیں گے۔ یہی چیز ہی ان کا گناہ بنی اور انہی اپنے عہدے سے معطلی کا سامنا کرنا پڑا۔ ان پر جو فرد جرم عائد کی گئی وہ بھی مضحکہ خیز ہی تھی کہ وہ سرکار کے ملازم ہو کر بغیر اجازت کے سوشل میڈیا استعمال کر رہے ہیں۔ جس کے بعد سوشل میڈیا پر حکومت کو کڑی تنقید کا بھی سامنا کرنا پڑا۔

حتیٰ کہ ٹویٹر پر ان کی بحالی کے لئے تحریک ٹاپ ٹرینڈ بن گئی۔ خود سوشل میڈیا ٹرولنگ اور فیک پراپیگنڈا سے بنی حکومت کو یہ سب باتیں ناگوار گزرتی رہیں اور معطلی کا سلسلہ طویل سے طویل ہوتا جا رہا ہے۔ آصف اقبال چودھری کی بحالی کے لئے حسن نثار سمیت درجنوں مصنفین نے تحریریں لکھیں جن میں حکومت سے اس بے تکے اقدام کو واپس لینے کا مطالبہ کیا گیا۔

معاملہ اس وقت شروع ہوا کہ جب گلوکار علی ظفر اور میشا شفیع کے درمیان الزامات کی جنگ عدالتوں تک پہنچی تو علی ظفر کے خلاف سوشل میڈیا پر ٹرینڈ چلنے لگے جن کے خلاف علی ظفر نے ایف آئی اے سے رجوع کیا اور ایف آئی اے نے میرٹ پر تحقیق کرتے ہوئے ٹرینڈز چلانے والوں اور فنانسرز کے خلاف جھوٹے پراپیگنڈا کی بنیاد پر مقدمہ درج کرنے کی رپورٹ عدالت میں جمع کروائی۔

جس کے بعد خواتین کے حقوق کے لئے آواز اٹھانے والی محترمہ ایمان حاضر مزاری نے سوشل میڈیا پر ایف آئی اے کے اس اقدام کو کڑی تنقید کا نشانہ بنایا۔ ان کی والدہ محترمہ شیریں مزاری بھی ان کی ہم آواز بنیں اور یوں ایک ایمان دار، پرجوش اور محب وطن پاکستانی افسر کو اپنی نوکری سے معطلی کا سامنا کرنا پڑا۔

افسوسناک بات کہیں یا مزے کی بات کہیں کہ محترمہ شیریں مزاری بھی جنوبی پنجاب کے پسماندہ ضلع راجن پور سے تعلق رکھتی ہیں۔ آصف اقبال کا تعلق بھی جنوبی پنجاب سے ہی ہے۔ مجھے بھی فخر محسوس ہوتا ہے کہ میں بھی اس خطے سے ہوں جہاں کی یہ دو قابل قدر ہستیاں ہیں۔ کیونکہ سہولیات کا فقدان، جدید تعلیم اور کیریئر کونسلنگ جیسی لگژریز ہم جنوبی پنجاب والوں کو کم کم ہی حاصل ہوتی ہیں۔ ایسے میں ایک نوجوان کا سائبر کرائم کی فیلڈ میں آگے آنا محترمہ شیریں مزاری کے لئے بھی باعث فخر ہونا چاہیے تھا بجائے اس کے کہ ایسے قابل افسر کو کھڈے لائن لگانے کی حوصلہ افزائی کی جاتی۔

ڈگری سے فراغت کے بعد جب میں نے اس وقت کے سرائیکی چینل روہی ٹی وی کی اپنے شہر کی نمائندگی لی تو اسی دوران جام پور میں محترمہ ایمان حاضر مزاری اور ان کی والدہ شیریں مزاری کا بھی ان کی این جی او کے پروگرام کے سلسلہ میں آنا ہوا۔ محترم ایمان حاضر مزاری اس وقت تعلیم مکمل کر کے واپس آئی تھیں اور اس پسماندہ علاقے میں ورکشاپس اور ہوٹلوں پر کام کرنے والے غریب بچوں کو زیور تعلیم سے آراستہ کرنے لئے پرجوش تھیں۔ محترمہ شیریں مزاری نے ہم صحافیوں کو فخریہ انداز میں ان کے اس پراجیکٹ کے بارے میں بریف کیا۔

مگر انہی شیریں مزاری صاحبہ اور ایمان حاضر مزاری صاحبہ نے اقتدار میں آنے کے بعد اسی علاقے کے ایک قابل افسر کو معطلی کا تحفہ دے دیا۔ اب مجھے یہ نہیں سمجھ آتی کہ جہاں پاکستان کی 111 تحصیلوں کے اسٹنٹ کمشنر، ڈپٹی کمشنر اور کمشنر صاحبان ٹویٹر پر اپنے اقدامات کے قصیدے پڑھوا رہے ہوتے ہیں، کسٹمز ہو یا پولیس، کانسٹیبل حضرات تک سوشل میڈیا پر موجود ہیں مگر سوشل میڈیا کی رگ رگ سے واقف اور سائبر کرائم کے ایکسپرٹ کا ایسا فعل اس کا جرم بن جاتا ہے۔

میرا ایک مؤدبانہ سوال ہے وزارت داخلہ سے کہ سائبر کرائم ایکسپرٹ سوشل میڈیا نہ استعمال کرے تو کیا رکشہ چلائے؟ یا پھلوں کی ریڑھی لگا کر بیٹھ جائے؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments