زندگی کی علامت


راستے میں کھڑا کھڑا اسے اتنے برس بیت گئے تھے کہ لوگ اب اس کے وجود کو غیر محسوس طریقے سے قبول کر چکے تھے۔ کیسی قبولیت تھی یہ؟ جیسے ہماری زندگی میں کوئی رشتہ! جس کی اہمیت بہت ہوتی ہے، جس کی ضرورت بھی بہت ہوتی ہے مگر اس ضرورت، اس اہمیت کا ہمیں اندازہ ہی نہیں ہوتا۔ ہم اسے فار گرانٹڈ لینے لگتے ہیں کہ اس کا یہاں ہونا، یہ کرنا فرض ہے اور ہمارا حق۔ لیکن کیا ہی خوب ہو جو حالات بدل جائیں اور وہ اپنے فرائض سے دستبردار ہو جائے، تو؟ تو کیا ہم اس بات کو من و عن قبول کر لیں گے یا پھر تھوڑی بہت پس و پیش کریں گے؟

اس کا وجود بھی ایسا ہی ایک مظہر تھا جو کے قبولیت کی اس نہج پر تھا کہ اس کی اہمیت اور افادیت کو گھول کر پیا جا چکا تھا۔

کئی پرندے اس کی ٹہنیوں میں دبکے رہتے، مکڑی، جگنو، تتلیاں، ابابیل، چیل، عقاب اور نوع و اقسام کے حشرات اس کی ایک ایک شاخ کے ہر ہر پتے اور ٹہنی سے مستفید ہوتے۔ وہ اس سب کے بدلے میں کسی سے کچھ نہیں چاہتا تھا، اسے درکار تھی تو صرف زندہ رہنے کی اجازت! ہم اپنے رشتوں سے بھی تو یہی سلوک کرتے ہیں، ان کی موجودگی اور احساس کو ہم اس ڈگر پر لے جاتے ہیں جہاں ہم حکمرانی کا اکڑاؤ اپنے اعصاب میں سمو کر دوسروں کی سانس تک پر غاصب آ جاتے ہیں کہ ہم سے دی گئی تمام سہولیات ایک حباب کی مانند پھوٹ پھوٹ کر اپنا آپ تسلیم نہیں کروا پاتیں اور ہم حکمران سے مطلق و عنان تک کا سفر تیزی سے طے کرتے ہوئے اپنی کایا کلپ کا سبب بنتے ہیں۔

کایا کلپ تو اس کی بھی ہر اکتوبر اور پھر فروری میں ہوتی رہتی ہے۔ خزاں اور بہار اس کے لئے دو موسم ہیں، دو دنیائیں ہیں، دو عالم ہیں، جن میں وہ جیتا ہے یا پھر کبھی کبھی آندھیاں اس کی شاخوں کو شکست خوردہ کر دیتی ہیں اور اس کے بڑے بڑے بازو ٹوٹ ٹوٹ کر گرتے ہیں تو ان کے نیچے کی گیلی زمیں کچھ نمی کھو سی دیتی ہے۔ تب وہ بہت دکھی ہوتا ہے کہ اس کے زیر سایہ کسی کا سایہ چھن گیا اور وہ تیز ہوا کو کوس بھی نہیں سکتا کہ یہ اس کے لئے تخم ریزی بھی تو کرتی ہے۔

رشتوں میں ہم جب کسی سے مادیت اور فائدے کا سودا کرتے ہیں تو اکثر وہ رشتہ اس امید کو پورا نہیں کر پاتا، کر سکتا بھی نہیں کہ بدلاؤ پوری کائنات کا ایک جزو لاینحل ہے اور جو اس سے منہ موڑتا ہے یا ناتا توڑتا ہے یہ بھاگا بھاگا اسی سے جا ٹکراتا ہے اور اتنی شدت کا تصادم کسی ایک کی نفی کا سبب بھی بنتا ہے۔ اکثر یوں بھی ہوتا ہے کہ ایک رشتہ کچھ سائے سے محروم کرنا پڑتا ہے کہ کہیں اسے سائے میں رہ رہ کر تمازت کی افادیت ہی نہ بھول جائے۔

لوگ اس کے سائے میں پناہ لینے آتے ہیں، کسی حد تک بارش کا زور بھی اس کے پتے کم کر دیتے ہیں اور وہ ایک بڑی سی کھمبی کی طرح اپنی نم دار اور نم ناک ہیجانیت کو فضا سے بچا کر اپنے پناہ گزینوں کو خوش آمدید کہتا ہوا ان کی خوش آمد میں مگن ہو جاتا ہے۔ اب جب کہ اس کا وجود ثنوی معنوں میں گیلا اور سوکھا دونوں زمانوں کا کرب جذب کرنے لگتے ہیں تو وہ کلیشے کی صورت اختیار کر جاتا ہے اور بے وقعتی کی کوئی بات ہی نہ پوچھی جائے۔

انسان، خاص کر وہ انسان جو اپنا من مار کر یا پھر اپنا آپ تیاگ کر اس درخت کی تقلید میں ایسا کرتے ہیں وہ کہانیوں میں کچھ عظمت پاتے تو ہیں مگر یہ بھول جاتے ہیں کہ اس درخت کی جڑیں زمین میں بھی ہیں مگر آپ جڑ دار نہیں قدم دار ہیں، آپ کو قوت اپنی حرکت سے ملنی ہے اور استعاراتی زبان میں آپ جب تک اپنی جڑوں کی دیکھ بھال نہیں کریں گے آپ کا وجود طاقت سے عاری رہے گا ہی اور آپ دوسروں کو پھل نہیں پہنچا پائیں گے اور نہ ہی سائبان کی ہی حیثیت اختیار کر سکیں گے۔

درخت کے دو موسموں کے مستزاد انسان کی زندگی کے کئی موسم ہیں جو سالوں یا مہینوں یا ہفتوں پر محیط نہیں ہوتے بلکہ آن واحد میں ان کی توڑ پھوڑ ہوجاتی ہے۔ آج کا دشمن کل کا دوست یا پھر آج کا دوست کل کا دشمن بن سکتا ہے۔ ایسے میں حکمت عملی صرف اور صرف کچھ دکھانا اور کچھ بچانا ہی کام آ سکتی ہے۔ دکھا وہ دیا جائے جو سامنے والا دیکھنا اور جاننا چاہتا ہے اور بچا وہ لیا جائے جو ہم نہیں چاہتے کہ کوئی جان پائے۔

صدیوں سے رشی، منی اور جوگی درختوں کے تنوں کے سائے میں بسرام اور قیام کرتے چلے آئے ہیں۔ کیونکہ ان کے پاس سکوت و ہلچل کا وہ بزرخ ہے جس میں بولا کچھ نہیں جاتا اور بتا سب کچھ دیا جاتا ہے کہ الفاظ اکثر ہمیں تباہ کر دیتے ہیں۔ کیونکہ ان کا استعمال کسی پھپھوندی لگی دوا کا سا ہوتا ہے۔ جو ہے تو دوا مگر اس دوا میں زہر کی بھی ملاوٹ آ چکی ہے۔ ہم اسے نگل تو سکتے ہیں مگر شفا یا وبا اس کے اندر ہی کہیں پنہاں ہے کہ جس کا اثر خود دوا کی مرضی پر منحصر ہے کہ وہ جلا دے گی یا پھر جلا دے گی۔ لوگ بھی وہی دوا ہیں۔ فنکار ایسے ہیں کہ دوا کی تاثیر دکھا جاتے ہیں مگر پھپھوندی کو یکسر چھپا کر اپنی پرتوں کا منفی استعمال کرتے ہوئے کچھ شخصے اپنے چہرے پر اور کچھ اپنی نیت پر چڑھا کر دوسروں کو تباہ کر جاتے ہیں۔

مگر اس کا وجود ان سب سے بہت اعلیٰ بہت عرفا ہے۔ اسے بات کرنے سے مطلب نہیں، اسے کچھ جاننا نہیں، وہ حسب نسب بھی نہیں جانتا، صنفی امتیازات اس کے سسٹم میں قدرت نے جنریٹ ہی نہیں کیا کہ وہ تو ایک محب و آشتی کا مظہر و سائبان ہے۔ وہ کبھی کسی کی کلاس نہیں دیکھتا نہ ہی کپڑوں کی برینڈ اسے متاثر کرتی ہے۔ اسے متاثر کرتا ہے تو وہ ایک محبت بھرا لمس جو کسی کی انگلیوں کے پوروں سے نکل کر اس کے کھردرے جسم سے ہوتا ہوا اس کی روح میں سرایت کرتا ہے۔

وہ کسی ادارے کا سربراہ ہے اور نہ ہی کسی مجلس یا حلقے کا سرغنہ کہ اسے جانب داری، رشوت، سفارش، خوشامد یا پھر کسی سیلن زدہ دوستی جیسے ناسوروں کا پاس رکھنے کے لئے انسانیت اور انسان کی تذلیل کرنی پڑے۔ کچھ لوگ اس کے آس پاس کی مٹی کو پانی دیتے ہیں، کبھی کبھار اسے کیڑوں سے بچاؤ کے لئے کچھ ادویہ سے نہلایا جاتا ہے یا پھر اس کے گرد دائرہ لگا کر اس میں کچھ زہر دبایا جاتا ہے۔ وہ جانتا ہے کہ یہ زہر ہے مگر پھر بھی مسکراتا ہے کہ زہر دینے والے کی نیت رس بھرنے کی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments