ایم ٹی جے کا ناڑا اور قوم کی شلواریں


بند قبا ڈھیلی پڑ چکی ہے اور منہ زور ہوائیں مسلسل چل رہی ہیں۔ بے ستری کا زمانہ عام ہے اور ہر طرف برہنگی کو دور دورہ ہے۔ ایک ناڑے نے آدھی قوم کو ننگا کر کے رکھ دیا۔ مبشر زیدی سے لے کر رعایت اللہ فاروقی اور اسلم تک ”محققین“ کے اخلاقیات کے ستر کھل گئے۔

کہا جاتا ہے کہ پاکستان وہ ملک ہے جہاں فحش مواد سب سے زیادہ دیکھا جاتا ہے۔ اس تلخ حقیقت کی تائید موجودہ واقعے سے بھی ہو جاتی ہے۔ مگر ساتھ ہی یہ حیرت انگیز حقیقت بھی کھل کر سامنے آئی کہ فحاشی اور حیا باختگی سے ہمارا بڑا فکری، تحقیقی، تنقیدی اور انقلابی نوعیت کا رشتہ ہے۔

کس طرح ناڑے کے من گھڑت واقعے کو ایک تہذیبی مسئلہ بنا کر زیر بحث لایا گیا؟ طلباء عمرانیات نے کس عمدگی اور ژرف نگاہی کے ساتھ اس کا جائزہ لیا؟ علماء فلسفہ نے کس فصاحت و بلاغت کے ساتھ فلسفیانہ تبصرے کیے۔ بخدا ایتھنز اور قرطبہ و بغداد کی علمی مجالس کی یاد تازہ ہو گئی۔

ارباب لوح و قلم نے ایک ازار بند کا مضمون کیسے سو رنگ میں باندھا۔ کیا کیا پیرائے استعمال کیے گئے۔ اللہ اللہ کیا کیا ادبی کرامتیں اور تخلیقی کرشمے دیکھنے کو ملے۔ بلاشبہ یہ مجموعہ عالمی ادب میں جگہ پانے کے لائق ہے۔ لاریب اس سال کے نوبل انعام برائے ادب پر اجتماعی طور پاکستانی قوم کا استحقاق ہے۔

سبحان اللہ! اس ایک ناڑے کے کیا کیا فائدے ہیں۔ کیا کیا برکتیں ہیں۔ کوئی قوت باہ کے لیے مفید بتلا رہا ہے تو کوئی جذبات کو قابو میں رکھنے کا نسخۂ تیر بہدف۔ یہ ناڑہ ہے یا طبی کرشمات کا استعارہ، ازار بند ہے یا جالینوس کا طلسماتی گل قند۔

محمد دین جوہر صاحب بڑے منجھے ہوئے مفکر بزرگ ہیں۔ انہوں نے ناڑہ کشائی کے اس پر مسرت موقع پر فرزندان قوم کے نام جو پیغام لکھا، نا سپاسی ہو گی اگر اسے شامل تحریر نہ کروں۔ فرماتے ہیں :

”پاکستان میں ناڑے کا ایک تہذیبی مسئلے کے طور پر زیربحث آنا نہایت خوش آئند پیش رفت ہے اور قومی ذہن کے فعال ہونے کی علامت ہے، اور“ انڈر سٹینڈنگ ”میں بھی کسی قدر اضافے کا امکان ہے۔ اس طرح گم شدہ شلوار بھی ہو سکتا ہے زیربحث آنے لگے۔ لیکن شلوار پر اختلاف زیادہ ہے۔ کچھ کہتے ہیں کہ صرف ناڑہ ڈھیلا ہے، کچھ کے خیال میں ٹخنوں میں پڑی ہے، اور کچھ کو گمشدگی پر اصرار ہے، کچھ کا خیال ہے کہ دھلنے گئی ہوئی تھی اور دھوبی کی دکان میں آتش زدگی کے بعد مفقود الخبر ہے۔ ماہرین ناڑہ سے گزارش ہے کہ لگے ہاتھوں مسائل شلوار بھی فیصل فرماتے چلیں تو خوب رہے۔“

واقعہ یہ ہے کہ ہم بڑی انقلابی قوم ہیں۔ ہر معاملے میں الٹے چلتے ہیں۔ جو ہمیں دن رات محبتوں کا درس دے ہم سب سے زیادہ نفرتیں اسی کو دیتے ہیں۔ اخلاق کی بات کرتے کرتے جس کی داڑھی سفید ہو جائے ہم اس کے سامنے برہنہ ہو کر ناچتے ہیں۔ عورتوں کے حقوق کا پرچار کرتے کرتے جس کی عمر ڈھل جائے ، ہماری آزاد خیالی اسے ہی خواتین کا سب سے بڑا دشمن سمجھتی ہے۔ فرقہ واریت اور عصبیت کے خلاف جنگ لڑتے لڑتے جس کے بالوں میں سفید چاندی اتر آئی ہے یہاں وہی ہماری عصبیتوں اور نظریاتی منافرتوں کا سب سے بڑا نشانہ ہے۔ لباس کی دکان کھلی نظر آئی تو ہم سب نے اسے سوئمنگ پول سمجھ کر کپڑے اتار دیے۔

صاحبو! کپڑوں کی دکان ستر پوشی کے لیے کھولی گئی ہے مگر تم ہو کہ یہاں بھی الٹی چال چلنے پہ تلے ہو۔

اندھوں کی اس بھیڑ میں آگہی فروز چراغوں کی اہمیت کا اندازہ کسے ہو گا؟ بہروں کے اس سماج میں اذان کی گونج کس کی سماعتوں میں رس گھولے گی؟ جہاں سارا کاروبار زندگی ہی نفرت پر کھڑا ہو وہاں محبت کے نغمے کسے راس آئیں گے۔ مردہ پرستوں کے اس معاشرے میں زندگی کی قدر کون کرے گا؟

آہ مولانا طارق جمیل! آپ نے غالب کا وہ شعر تو پڑھا ہی ہو گا۔
ڈھانپا کفن نے داغ عیوب برہنگی
میں ورنہ ہر لباس میں ننگ وجود تھا


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments