ماہواری پر سوشل میڈیا پر بحث: ایک فطری جسمانی عمل کے بارے میں بات کرتے ہوئے شرم یا فیشن کا خیال کیوں؟

ثنا آصف - بی بی سی اردو ڈاٹ کام، اسلام آباد


 

ماہواری

’ماہواری پر بات کرنا تو فیشن بنتا جا رہا ہے۔۔۔ ماہواری تو صرف ٹوائلٹ استعمال کرنے جیسا ایک قدرتی عمل ہے۔‘

آپ میں سے اکثر قارئین یقیناً ایسی سوچ نہیں رکھتے ہوں گے لیکن پاکستان جیسے قدامت پسند معاشرے میں، جہاں ماہواری پر بات کرنا ابھی تک انتہائی معیوب سمجھا جاتا ہے، کچھ لوگ آج بھی اس سوچ سے اتفاق کرتے ہیں۔

یہ بات پاکستانی سوشل میڈیا صارفین پر اس وقت کھلی جب ماہواری کے بارے میں کھلے عام بات کرنے کی مخالفت کرنے والے آغا حسن نامی ایک ٹوئٹر صارف نے جب سماجی رابطوں کی ویب سائٹ پر اپنی رائے کا ’کھلے عام‘ اظہار کیا۔

لیکن خواتین تو ایک طرف، چند مردوں نے بھی اس بارے میں ان کے علم میں اضافہ کرنے کی کوشش تو کی لیکن موصوف اس ضد پر ڈٹے رہے کہ اس بارے میں پردہ پوشی ضروری ہے۔

اپنی ٹویٹ میں پیشگی معذرت کرتے ہوئے انھوں نے لکھا: ’آخر خواتین کے لیے کھلے عام سائیکلز (ماہواری) پر بات کرنا فیشن کیوں بنتا جا رہا ہے؟‘

ٹویٹ میں مزید لکھا گیا: ’میں جانتا ہوں کہ یہ قدرتی عمل ہے لیکن یہ ایسا ہی ہے جیسے دن میں چند بار واش روم استعمال کرنا۔ کچھ چیزوں کے بارے میں محتاط رہنا ہی بہتر ہے۔ شکریہ۔‘

سوشل میڈیا پر ردعمل

اس ٹویٹ کے جواب میں کئی خواتین نے ماہواری، اس کی وجہ سے عورت کے جسم میں آنے والی تبدیلیوں اور ہر مہینے اس دوران ہونے والے درد کے بارے میں اپنے ذاتی تجربے بھی لکھے اور ان صاحب کو یہ سمجھانے کی کوشش کی کہ اس پر بات کرنا کیوں ضروری ہے۔

آغا حسن کی ٹویٹ کے جواب میں نشاط نامی صارف نے سوالیہ انداز میں لکھا: ’ہم ہر مہینے اس تکلیف سے گزرتے ہیں اور ہم اس بارے میں بات بھی نہیں کر سکتے؟‘

صحافی تحریم عظیم نے لکھا: ’میں ان خوش قسمت خواتین میں سے ہوں جنھیں ماہواری کا درد نہیں ہوتا لیکن اور بھی بہت سی چیزیں ہوتی ہیں۔ اس ماہ جب مجھے پیریڈز آئے تو میں گھر پر نہیں تھی۔ میرے پاس کوئی پیڈ نہیں تھا۔ میں نے ہلکے نیلے رنگ کی جینز پہن رکھی تھی، اب ذرا سوچیں میری زندگی کے بدترین دو گھنٹے۔‘

ایک اور صارف نے لکھا: ’مجھے ماہواری کے دوران اتنا شدید درد بھی ہوا کہ میں اپنی کلاس میں بے ہوش ہونے لگتی۔ میں اس بارے میں بات کرتی ہوں کیونکہ آپ کی آدھی آبادی اسے سمجھ سکتی ہے۔ اپنے گندے ذہنوں کی صفائی کریں۔‘

صارف لعلین نے لکھا: ’اگر ماہواری نہ ہوتی تو آپ کا وجود بھی نہ ہوتا۔‘

لاہور یونیورسٹی آف مینیجمنٹ سائنسز (لمز) سے منسلک معلمہ ندا کرمانی نے لکھا: ’اگر آپ مجھ سے پوچھیں تو جب میں بڑی ہو رہی تھی تو میرے لیے یہ ایک بڑی اور خوش آئند تبدیلی تھی۔‘

انھوں نے مزید لکھا: ’مجھے اس بارے میں خوشی ہے کہ ہماری اگلی نسل شرم کو فطری جسمانی عمل سے الگ کر رہی ہے۔ یہ بہت اہم ہے۔‘

ماہواری کا موازنہ واش روم کے استعمال سے کرنے پر بھی کئی صارفین نے شدید غصے کا اظہار کیا۔

ایک اور صارف نے لکھا: ’کیا لوگ آپ کو دن میں کئی بار واش روم جانے کے بارے میں شرمندہ کرتے ہیں؟ آپ کو ہمت کیسے ہوئی ماہواری کا واش روم جانے سے موازنہ کرنے پر؟ ان دونوں میں بہت زیادہ فرق ہے۔ یہ قدرتی عمل ہے لیکن ابھی بھی اس بارے میں شرمندگی پائی جاتی ہے۔ یہ آپ جیسے لوگوں کی وجہ سے بدنما ہے جو اس بارے میں بات کرتے ہوئے بے چینی محسوس کرتے ہیں۔‘

رشم نجم نے لکھا: ’پاکستان میں مرد سڑک کے کنارے ’باتھ روم استعمال‘ کر لیتے ہیں۔ یہ ایک جیسا نہیں۔ لڑکیوں کو نو برس کی عمر سے ماہواری آنا شروع ہو جاتی ہے اور زیادہ تر کو اس بارے میں پہلے نہیں بتایا جاتا کیونکہ اس بارے مں بات کرنا فیشن نہیں۔ یہ انتہائی تکلیف ہو سکتا ہے۔‘

صائمہ اجرم نے لکھا: ’کبھی کبھی میں خواہش کرتی ہوں کہ مردوں کو بھی پیریڈز ہوتے تاکہ وہ سجھ سکتے کہ یہ ہم پر جسمانی اور جذباتی طور پر کس طرح اثرانداز ہوتے ہیں۔ آپ کو وقت کے ساتھ آگے بڑھنے کی ضرورت ہے۔‘

ارسلان احمد نامی ایک صارف نے لکھا: ’آپ خاصے بے وقوف ہیں اگر آپ یہ سوچتے ہیں کہ خواتین ماہواری پر اس لیے بات کرتی ہیں کہ یہ فیشن ہے۔ اسے صحت اور حفظان صحت کے متعلق آگاہی پھیلانا کہتے ہیں۔‘

اس بارے میں ماہرین کیا کہتے ہیں؟

خواتین کی زندگی میں ماہواری ایک قدرتی عمل ہے۔ یہ تبدیلی کسی بھی لڑکی کے بالغ ہونے کے بعد آتی ہے۔ ماہواری کا عمل قدرتی ہے لیکن اس کے باوجود پاکستانی معاشرے میں خواتین خصوصا بالغ لڑکیاں اس موضوع پر بات کرنے سے ہچکچاتی ہیں۔

تولیدی اور ماہواری صحت کے ماہرین کے مطابق پاکستان میں معاشرہ مذہب اور سماجی اقدار کا سہارا لے کر عورتوں کی جنسیت کو ایک ایسا موضوع بنا کر پیش کرتا ہے جس پر گفتگو کرنے سے اجتناب کیا جاتا ہے۔ اس صورتحال میں لڑکیوں کے لیے ماہواری سے متعلق معلومات کے حصول کا بنیادی ذریعہ والدہ یا بڑی بہنیں ہوتی ہیں۔

یہ معلومات بھی لڑکیوں کو اس وقت دی جاتی ہے جب انھیں پہلی مرتبہ ماہواری ہو چکی ہوتی ہے۔ اس وجہ سے بہت سی لڑکیاں اپنی ماہواری کا آغاز بے خبری اور بغیر تیاری کے کرتی ہیں۔

ایک اندازے کے مطابق پاکستان میں ہر تین میں سے ایک عورت ماہواری کے دوران غیر محفوظ طریقے استعمال کرنے کی وجہ سے بیماریوں کا شکار ہو رہی ہے۔

مینوپاز

ہارمونز میں تبدیلی کے بارے میں خیال کیا جاتا ہے کہ یہ مینوپاز کی علامات کے لیے سب سے پُر اثر علاج ہے

ماہرِ امراضِ نسواں ڈاکٹر عائشہ کا کہنا ہے کہ ان بیماریوں کے باعث بے شمار خواتین جنسی پیچیدگیوں کا شکار ہو جاتی ہیں جو جان لیوا بھی ہو سکتا ہے۔

’غیر محفوظ طریقوں کا استعمال عورتوں میں پیشاب کی نالی کے انفیکشن کی وجہ بن سکتا ہے۔ اس کے علاوہ یہ حیض کی باقاعدگی کو متاثر کرنے کے ساتھ ساتھ خواتین میں ماں بننے کی صلاحیت کو بھی ختم کر سکتا ہے۔‘

ڈاکٹر عائشہ کے مطابق اِس طرح نا صرف عورتوں کی مجموعی صحت متاثر ہوتی ہے بلکہ وہ گردوں اور جسم کے نچلے حصے میں ہونے والی دیگر بیماریوں کا بھی شکار ہو سکتی ہیں۔

اب اس بات کا تو کوئی اندازہ نہیں کہ ماہواری کے بارے میں پردہ پوشی کی حمایت میں ٹویٹ کرنے والے صارف کی سوچ میں کوئی بدلاؤ آیا یا نہیں لیکن ہمیں یہ یقین ضرور ہے کہ اس حوالے سے ہمارے بہت سے قارئین کی سوچ میں مثبت تبدیلی ضرور آئے گی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32298 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp