انس ارمیاؤ انس: وہ صحافی جس نے پولیس اور جاسوسوں کی طرح مجرموں کا پیچھا کیا

ریڈاسیون - بی بی سی نیوز منڈو


اپنی شناخت کو چھپانے کے لیے چہرہ ڈھانپنے کی وجہ سے انس ارمیاؤ اور زیادہ مشہور ہو گئے ہیں

بھیس بدل کر جرائم پیشہ افراد کا پیچھا کرنا، سچ کو سامنے لانے کے لیے تمام رکاوٹوں کو عبور کرنا اور جان ہتھیلی پر رکھ اپنا کام سر انجام دینا۔۔۔ آپ نے اکثر فلموں میں پولیس اہلکاروں کو ایسا کرتے دیکھا ہو گا اور حقیقی زندگی میں بھی ایسا ہوتا ہے۔ کچھ ایسا ہی افریقہ میں بھی ہوا لیکن فرق صرف یہ ہے کہ حقیقی زندگی کا یہ ہیرو دراصل ایک صحافی ہے جس نے وکالت کو چھوڑ کر اس شعبے میں قدم رکھا۔

انھوں نے اپنی صحافت کے لیے متعدد ایوارڈ بھی جیتے ہیں اور ان کی رپورٹوں میں بدعنوانی اور منظم جرائم سے لے کر جنسی سمگلنگ تک افریقی براعظم کو متاثر کرنے والے بڑے مسائل کی طرف توجہ مبذول کروائی گئی ہے۔

انس ارمیاؤ انس گھانا کے ایک وکیل ہیں جو تفتیشی رپورٹر بن گئے اور کبھی کبھار بی بی سی کے افریقہ آئی پروگرام کی میزبانی بھی کرتے ہیں۔ اگرچہ ان کا کام پورے افریقہ میں مشہور ہے لیکن شاید ہی کوئی جانتا ہو کہ وہ کیسے دکھائی دیتے ہیں کیوںکہ وہ اپنے چہرے کو ڈھانپ کر عوام کے سامنے آتے ہیں۔

انس نے بی بی سی کو بتایا ’میں بنیادی طور پر سکیورٹی کی وجہ سے اپنا چہرہ ڈھانپتا ہوں، اس لیے کہ برے لوگ ہمیشہ تلاش میں رہتے ہیں اور ہمیشہ ہم جیسے لوگوں تک پہنچنے کی کوشش کرتے رہتے ہیں۔‘

’ایسے لوگ ہیں جو ظاہر ہے کہ اس کام سے خوش نہیں جو ہم کرتے ہیں اس لیے ہمیں دھمکیاں، موت کی دھمکیاں ملتی ہیں۔‘ اپنی شناخت کو چھپانے کے لیے چہرہ ڈھانپنے کی وجہ سے انس ارمیاؤ اور زیادہ مشہور ہو گئے ہیں۔

خطرناک اور متنازعہ طریقے

اپنے 20 برس کے کام کے دوران انس نے ان ہیلتھ ورکرز کو بے نقاب کیا جو کووڈ 19 کے علاج کے لیے جعلی دوائیں فروخت کرتے ہیں اور ان ججوں کو بھی جو کسی مقدمے کے فیصلے کے لیے رشوت قبول کرتے ہیں۔ انس ان لوگوں کو بھی انصاف کے کٹہرے میں لائے جو جسم فروشی کے لیے لوگوں کو سمگل کرتے ہیں اور انسانی اعضا کا کاروبار کرتے ہیں۔

ان کے کام کے نتیجے میں متعدد گرفتاریاں ہوئیں اور کئی افراد کو سزا بھی ہوئی لیکن ان کے طریقے بعض اوقات خطرناک اور متنازعہ بھی ہو جاتے ہیں۔

’میں فوج میں پیدا ہوا تھا۔ میرے والد ایک سپاہی ہیں لہذا بیرکوں میں بڑھتے ہوئے میں نے پاور گیم سے سبق سیکھا۔‘

’اس وقت گھانا ایک فوجی حکومت کے تحت تھا اور بیرکوں میں آپ کو بے گناہ شہری نظر آتے تھے۔ کچھ نے بغیر کسی جرم کیے اپنے سر منڈوا دییے تھے۔ لہذا میں نے خود سے یہ سوال پوچھنا شروع کیا: خواتین کے ساتھ ناروا سلوک کیوں کیا جاتا ہے؟ اور میں نے سوچا کہ کوئی ایسا پیشہ ہونا چاہیے جس میں آپ کے پاس مظلوم اور زیادتی کرنے والے لوگوں کی نمائندگی کرنے کی صلاحیت ہو۔‘

اس کام کو انجام دینے کے لیے انس نے 2000 کی دہائی کے اوائل میں اپنی تحقیقاتی صحافت کی ٹیم اور سراغ رساں ایجنسی ’ٹائیگر آئی پرائیویٹ‘ بنانے کا فیصلہ کیا۔

اور اس طرح انھوں نے خفیہ رہ کر اپنے کام کو سرانجام دینے کا طریقہ سیکھا۔

خفیہ کیمروں اور خاص طرح کے میک اپ کا استعمال کرتے ہوئے انس نے قحبہ خانے میں خاکروب، تھائی لینڈ کی جیل میں ایک پادری اور یہاں تک کہ ایک بنجر زمین میں چٹان کا روپ بھی اختیار کیا۔

غیر معمولی تجربات

اپنے کیریئر کے دوران انس نے انتہائی غیر معمولی تجربات کیے، جیسے کہ ذہنی امراض کے ایک ہسپتال میں مریضوں سے بدسلوکی کو سامنے لانے کے لیے وہ ایک نفسیاتی مریض بن گئے۔

انس کہتے ہیں ’یہ ایک ایسے ہسپتال میں ہو رہا تھا جس کا مقصد ذہنی طور پر غیر مستحکم لوگوں کی دیکھ بھال کرنا تھا لیکن وہ ہسپتال کوکین، ہیروئن، بھنگ اور دیگر منشیات فراہم کر رہا تھا۔‘

’لہذا میں نے انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں اور کوکین کی فروخت کی تحقیقات کے لیے اس ہسپتال جانے کا فیصلہ کیا اور ہم اس سب کو ایک ایسی فلم میں دستاویز کر سکے جس کو ہم نے ’دا کریزی ہاؤس‘ یعنی پاگل خانے کا نام دیا۔ یہ میری انسانی حقوق کی رپورٹس میں سے ایک بہترین رپورٹ تھی۔‘

’جب میں ہسپتال میں داخل ہوا تو پہلے تین دن مجھے وہ ادویات لینا پڑیں جو وہ تمام مریضوں کو دیتے تھے اور یہ میرے جسم کے لیے بہت زیادہ تھا۔ جب میں اس ہسپتال سے نکلا تو مجھے احساس ہوا کہ میرا جسم صحیح طرح کام نہیں کر رہا اور میری گرل فرینڈ کو احساس ہوا ہے کہ کچھ غلط ہے۔‘

’جب میں نے اپنی تحقیق شروع کی تو مجھے یہ احساس ہوا کہ ہسپتال میں مجھے دی گئی دوائیوں کے مضر اثرات میں یہ بھی شامل ہے کہ آپ جنسی تعلق قائم رکھنے کے قابل نہیں رہتے۔ میں نے اپنے ڈاکٹر سے بات کی اور انھوں نے مجھے کچھ ہفتے انتظار کرنے کا کہا۔ ذرا تصور کریں کہ میں نے کیسا محسوس کیا ہو گیا۔ میں سٹوری لکھنے گیا تھا ان چیزوں کو کھونے نہیں۔‘

’خوش قسمتی سے دو ہفتوں بعد میری گرل فرینڈ کو معلوم ہوا کہ سب کچھ ٹھیک ہو گیا ہے۔‘

انس ارمیاؤ انس گھانا کے ایک وکیل ہیں جو تفتیشی رپورٹر بن گئے اور کبھی کبھار بی بی سی کے افریقہ آئی پروگرام کی میزبانی بھی کرتے ہیں

لیکن بعض اوقات معاملات بہت زیادہ سنگین بھی ہو گئے۔ سنہ 2018 میں انس بی بی سی کے لیے ملاوی میں تحقیقات کر رہے تھے جہاں کئی لوگوں کو قتل کیا گیا اور بغیر اعضا والی لاشیں ملی تھیں۔

شواہد سے یہ معلوم ہو رہا تھا کہ اعضا جادو کی رسومات میں استعمال کے لیے فروخت ہو رہے تھے۔

انس اور ان کے ساتھی ایک خفیہ کیمرے کے ساتھ اعضا کی خرید و فروخت میں ملوث ایک شخص کے پاس جا پہنچے۔

انس کی ٹیم اس شخص کے ساتھ اس تمام بات چیت کو کیمرے میں محفوظ کرنے میں کامیاب ہو گئی جس میں اس شخص نے بتایا کہ کیسے لوگوں کو قید میں رکھا گیا اور انھیں مارنے کے بعد اعضا کو بیچنے کے لیے نکال لیا۔

بعد میں یہ شخص اور اس کے ساتھی انس اور ان کی ٹیم کو اس جگہ لے جانے کا فیصلہ کرتے ہیں جہاں انھوں نے لاشوں کو جنگل میں دفن کیا تھا۔

یہ رات کا وقت تھا اور چند مقامی باشندے وہاں جمع ہو گئے جو انس اور دوسرے ’اجنبیوں‘ پر اپنے شبے کا اظہار کرنے لگے۔

مقامی باشندوں کے گروپ کو یقین تھا کہ انس اور ان کے ساتھی جائے وقوعہ پر ہونے والے قتل میں ملوث ہیں۔

انس بتاتے ہیں ’یہ سب کچھ بہت تیزی سے ہوا۔ اچانک ہی تقریباً 100 لوگ جمع ہونا شروع ہو گئے اور چیخنے لگے کہ انھیں مار دینا چاہیے۔‘

’انھوں نے ہماری وضاحت کو نہیں سنا۔ انھوں نے ہمیں پتھر مارنے شروع کر دیے، ایک لڑکے نے میرے کپڑے پھاڑ ڈالے۔ یہ خوفناک تھا۔‘

لیکن پھر مقامی باشندوں نے انھیں مقامی رہنما کے گھر لے جانے پر اتفاق کیا تاکہ وہ فیصلہ کر سکیں کہ ان کے ساتھ کیا کیا جائے۔

’جب ہم مقامی رہنما کے گھر پہنچے تو ہم اندر چلے گئے اور انھوں نے ہم سے بہت سارے سوالات کرنے شروع کر دیے۔ آخر کار انھوں نے ہمیں بچانے کا فیصلہ کیا۔‘

’خوش قسمتی سے ایک مقامی شخص نے علاقے کے نائب کو فون کیا جو ہمارے منصوبے سے واقف تھا۔ وہ پولیس کے ساتھ ہمیں بچانے پہنچے۔ یہ ایک خوفناک تجربہ تھا۔‘

صحافی احمد حسین سویل گھانا کے دارالحکومت میں سڑک پر فائرنگ کا نشانہ بنے اور اس کے نتیجے میں ہسپتال میں دم توڑ گئے

گرفتاری اور سزا

اس حقیقت کے باوجود کہ انس نے قتل کی وارداتوں میں ان دونوں ملزمان کے خلاف گواہی دی، انھیں رہا کر دیا گیا لیکن ان کی ٹیم بہت سارے لوگوں کو سزا دلوانے میں کامیاب بھی رہی ہے۔

سنہ 2010 میں ان کی ایک اہم تفتیش کے نتیجے میں چین کے سمگلر(جو جسم فروشی کے لیے انسانوں کی سمگلنگ کرتے تھے) کے ممبروں کو 41 سال قید کی سزا سنائی گئی۔

’میری کہانیاں ہمیشہ تین بنیادی اصولوں پر مبنی ہوتی ہیں: نام، شرم اور قید۔‘

’یہ صرف شائع کرنے کے بارے میں نہیں۔ جس ویڈیو ثبوت کو ہم حاصل کرنے میں کامیاب ہوتے ہیں، اسے ہم پولیس کے حوالے کر دیتے ہیں اور جب مقدمے کی سماعت کا وقت آتا ہے تو میں عدالت جا کر گواہی دیتا ہوں اور اس سے مجرموں کو سزا ملنی چاہیے۔‘

لیکن انس پر الزام لگایا گیا ہے کہ وہ لالچ کے ذریعے معلومات حاصل کرتا ہے، جو غیر قانونی ہے۔

’یہ وہ پہلی چیز ہے جو ایک ملزم ہمیشہ کہتا ہے۔ لیکن میں واضح طور پر یہ کہنا چاہتا ہوں کہ میں نے اپنی ساری زندگی غیر قانونی طور پر کام کرنے کا مقدمہ کبھی نہیں ہارا۔ کیوں؟ کیوںکہ ثبوت، ثبوت ہی ہے۔‘

کچھ افریقی صحافی انس پر تنقید کرتے ہیں کہ ’ان کی پرفارمنس ڈرامائی‘ ہے اور کس طرح سے وہ ہر کہانی میں ایک مشہور شخصیت بن جاتے ہیں۔

لیکن شاید سخت تنقید ان لوگوں کی طرف سے ہے جو ان پر پیشہ ورانہ اخلاقیات کی کمی کا الزام لگاتے ہیں۔ جیسا کہ افریقہ میں چین کے جنسی سمگلروں کے نیٹ ورک کی تفتیش ہے۔

انس ارمیاؤ انس اپنے ساتھی احمد حسین کے جنازے پر

’اس دستاویزی فلم کے لیے میں ایک لڑکی کے ساتھ ڈیٹ کرتا نظر آتا ہوں۔ اس لڑکی کا خیال تھا کہ میں اس کا بوائے فرینڈ ہوں اور اس نے مجھ پر بہت اعتماد کیا۔ اس نے مجھے لڑکیوں کے بارے میں معلومات فراہم کیں کہ انھیں کہا رکھا جاتا ہے اور کیسے ان کا جنسی استحصال کیا جا رہا ہے۔‘

’لڑکی کا خیال تھا کہ میں واقعی اس کا بوائے فرینڈ ہوں اور وہ میرے ساتھ بہت پیار میں دکھائی دیتی تھی لیکن میں اس کہانی میں خفیہ کام کر رہا تھا، میں محبت کے لیے وہاں نہیں تھا۔‘

بہت سے لوگوں نے الزام لگایا کہ انس نے معلومات حاصل کرنے کے لیے لڑکی کا استعمال کیا۔

انھوں نے وضاحت کرتے ہوئے کہا: ’مجھے صورتحال کا موازنہ کرنا تھا۔۔۔ زیادہ اہم بات کیا تھی، ان لڑکیوں کو مرنے دینا یا کسی کا دل توڑنا۔‘

’میں نے فیصلہ کیا۔ ہاں لوگ مجھ پر تنقید کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ آپ نے اس کا استعمال کیا۔ اور میں اسے قبول کرتا ہوں۔ میں نے اچھا نہیں کیا اور میں معذرت چاہتا ہوں۔لیکن مجھے ان لڑکیوں کو بچانا تھا۔‘

انس کے کیریئر کا سب سے خوفناک پوائنٹ سنہ 2019 میں اس وقت آیا جب ان کی ٹیم کے ایک صحافی احمد حسین سویل، گھانا کے دارالحکومت ایکرا میں سڑک پر فائرنگ کا نشانہ بنے اور اس کے نتیجے میں ہسپتال میں دم توڑ گئے۔

انس کا خیال ہے کہ یہ قتل گھانا فٹ بال لیگ میں بدعنوانی سے جڑا تھا۔

یہ ڈاکیومینٹری، جسے انھوں نے بی بی سی کے ساتھ فلمایا، اعلیٰ عہدیداروں کو میچ فکس کرنے کے لیے رشوت لیتے دیکھاتی ہے۔

اس تفتیش کا عنوان ’نمبر 12‘ ہے، اس اضافی شخص کے حوالے سے جس نے ٹیم کے لیے ’کھیلا۔‘

انس کہتے ہیں ’میرے ساتھی احمد حسین شروع سے آخر تک 12 نمبر کا حصہ تھے۔ اس دستاویزی فلم میں پورے براعظم میں 60 سے زیادہ ریفریز کی تفتیش ہوئی اور سیاسی طبقے سے بھی پوچھ گچھ ہوئی۔ لہذا ہمیں معلوم تھا کہ بہت سارے مفادات داؤ پر لگے ہیں۔‘

’لیکن ہم نے کبھی بھی یہ توقع نہیں کی تھی کہ برے لوگ قتل کر دیں گے۔ مجھے پتا چلا کہ میرے دوست کو گولی مار دی گئی ہے۔ ٹیم کے لیے یہ بہت بڑا دھچکا تھا۔‘

انس کا کہنا ہے کہ احمد کی موت کے بعد ان کے اہلخانہ اور دوستوں نے کہا کہ وہ یہ کام چھوڑ دیں۔

اگر کوئی آپ کو بتائے کہ ارے انھوں نے اس جگہ پر 10 بچوں کو اغوا کیا اور ہمیں آپ کی ضرورت ہے تو اگر آپ اس ذمہ داری کو قبول نہیں کرتے ہیں تو آپ کے ہاتھوں پر خون ہے۔‘

’میں یہ سب اس لیے نہیں کرتا کہ مجھے بہت زیادہ فالوور چاہییں میں یہ سب اس لیے کرتا ہوں کیونکہ معاشرے کو اس کی ضرورت ہے۔‘


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32288 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp