نشان حیدر: پاکستان کے سب سے بڑے فوجی اعزاز سے متعلق اہم سوالوں کے جواب

عمر فاروق اور عقیل عباس جعفری - بی بی سی اردو کے لیے


یہ تین مئی 1956 کا دن تھا جب اس وقت کے صدر پاکستان اسکندر مرزا نے ملک کے لیے نمایاں شہری اور فوجی خدمات ادا کرنے والے افراد کو مختلف تمغے دینے کا سلسلہ شروع کرنے کا اعلان کیا۔

اسی اعلان میں کہا گیا کہ ملک کا سب سے بڑا فوجی اعزاز نشان حیدر ہو گا اور یہ تمغہ مسلح افواج کے ان ارکان کو دیا جائے گا جنھوں نے ملک کی حفاظت اور سلامتی کے لیے زبردست خطرات کا سامنا کرتے ہوئے بے حد بہادری اور زبردست ہمت کا مظاہرہ کیا ہو۔

اس اعزاز کا نام اسلام کے چوتھے خلیفہ حضرت علی کے نام پر رکھا گیا۔ حضرت علی میدان جنگ میں اپنی بہادری وکراری کی وجہ سے مشہور ہیں اور خود پیغمبر اسلام نے انہیں ‘شیر خدا’ کا لقب دیا تھا۔

میاں محمد مسعود الزماں نے اپنی کتاب ‘نشان حیدر’ میں لکھا ہے کہ ‘نشان حیدر’ پانچ کونوں کا ایک ستارہ ہے جو توپ کی دھات سے بنایا جاتا ہے۔ ان کونوں کے کنارے تانبے اور نکل کے مرکب سے بنتے ہیں۔ اس میں چاند اور ستارہ ہیرے کا ہوتا ہے، فیتہ ریشمی اور سبز رنگ کا ہوتا ہے، اس کی چوڑائی ڈیڑھ انچ ہوتی ہے، جب یہ فیتہ تمغے کے بغیر پہنا جاتا ہے تو اس کے اوپر پنچ کونی ستارے کی نقل لگالی جاتی ہے۔’

نشان حیدر

وہ مزید بتاتے ہیں کہ ‘نشان حیدر کی اوپر والی پٹی پر جلی حروف میں نشان حیدر کے الفاظ کندہ ہوتے ہیں اور اس کی پشت پر اعزاز حاصل کرنے والے کے بارے میں مختصر معلومات درج ہوتی ہیں۔’

نشان حیدر برطانیہ کے سب سے اعلیٰ جنگی اعزاز وکٹوریہ کراس، امریکہ کے میڈل آف آنر، فرانس کے لیجن آف آنر اور بھارت کے پرم ویر چکر کے مساوی ہے۔

اس عسکری اعزاز کی غیر معمولی انفرادیت اور اہمیت کا اندازہ اس حقیقت سے لگایا جا سکتا ہے کہ 1947 میں قیام پاکستان سے اب تک صرف 10 افراد کو ہی یہ اعزاز ملا ہے (تاہم ‘ہلال کشمیر’ کا اعزاز بھی اس گنتی میں ملانے سے اس شمار کو مجموعی طورپر گیارہ مانا جاتا ہے کیونکہ پاکستان کے زیر انتظام کشمیر میں یہ تمغہ نشان حیدر کے مساوی قرار دیا گیا ہے)۔

یہ بھی پڑھیے

پاکستانی فوجی جس کی بہادری کا دشمن بھی قائل ہوا

میجر عزیز بھٹی کا کردار نبھانے کے لیے برسوں انتظار کیا

’کارگل کی ذمہ داری کبھی کسی پر عائد نہیں کی جائے گی‘

پاکستان میں نشان حیدر کا اعزاز پانے والوں میں سے نو کا تعلق پاکستان کی بری فوج جبکہ ایک کا پاکستانی فضائیہ سے ہے۔

نشان حیدر تیار کون کرتا ہے اور کیا اس کے ساتھ معاوضہ بھی ملتا ہے؟

وزارت دفاع کے حکم پر ‘پاکستان مِنٹ’ (وہ جگہ جہاں سِکّے بنائے جاتے ہیں) نشان حیدر تیار کرتی ہے۔ اسے دشمن سے چھینے گئے اسلحہ کو پگھلا کر بنایا جاتا ہے جس میں 88 فیصد تانبا، 10 فیصد سونا اور 2 فیصد زنک (جست) شامل کیا جاتا ہے۔

عوامی سطح پر اس قسم کی کوئی معلومات دستیاب نہیں کہ نشان حیدر پانے والوں کو مالی طور پر کیا فوائد دیے گئے تاہم ریٹائرڈ بریگیڈیئر فاروق حمید کے مطابق نشان حیدر کا اعزاز پانے والوں کے اہل خانہ کو پیشکش کی جاتی ہے کہ وہ چاہیں تو نقدی لے لیں یا زرعی اراضی۔

نشان حیدر کا اعزاز صرف ‘شہدا’ کے لیے؟

نشان حیدر کا اعزاز بلالحاظِ عہدہ پاکستان کی مسلح افواج کے کسی بھی فرد کو دیا جا سکتا ہے اور یہ ضروری نہیں کہ یہ اعزاز صرف جنگ میں ہلاک ہونے والوں کو دیا جائے، تاہم اب تک پاکستان میں یہ اعزاز صرف مادرِ وطن کے لیے اپنی جان دینے والوں کے حصے میں ہی آیا ہے۔

پاکستان میں جن فوجیوں کو یہ اعزاز عطا کیا گیا ہے یہ ان میں سے سات کمیشنڈ افسران کو ملا جبکہ چار ‘نان۔کمشنڈ’ یا ‘جونیئر کمشنڈ’ افسران کو دیے گئے۔ یہ اعزاز حاصل کرنے والوں میں چار میجر، دو کپتان، ایک پائلٹ آفیسر، ایک نائیک، ایک لانس نائیک، ایک حوالدار اور ایک سوار شامل ہیں۔

نشانِ حیدر حاصل کرنے والے سب سے پہلے فوجی، کیپٹن راجہ سرور تھے جنھوں نے 27 جولائی 1948 کو کشمیر کے محاذ پر جان دی تھی اور ان کا اعزاز 27 اکتوبر 1959 کو ان کی اہلیہ نے فیلڈ مارشل محمد ایوب خان کے ہاتھ سے وصول پایا تھا۔

میجر محمد اکرم نشان حیدر حاصل کرنے والی وہ واحد شخصیت ہیں جو بنگلہ دیش میں دفن ہیں جبکہ باقی قبریں ملک کے مختلف علاقوں میں ہیں۔

پاکستان کی عسکری تاریخ کو دیکھا جائے تو سب سے زیادہ یعنی پانچ نشان حیدر 1971 کی اس جنگ کے بعد دیے گئے جس کا نتیجہ مشرقی پاکستان کی علیحدگی اور بنگلہ دیش کے قیام کی صورت میں نکلا تھا۔

1971 کی جنگ میں بہادری پر پاکستان آرمی کے چار نشان حیدر پانے والوں میں سے صرف ایک میجر اکرم کو مشرقی پاکستان کے دفاع کے دوران جان دینے پر یہ اعزاز ملا جبکہ دیگر تین فوجیوں نے پنجاب کے میدانوں میں جنگ لڑتے ہوئے جان دی تھی۔

پائلٹ آفیسر راشد منہاس 1971 کی جنگ کا پانچواں نشانِ حیدر حاصل کرنے والے فوجی تھے۔ وہ یہ اعزاز حاصل کرنے والے سب سے کم عمر اور پاکستانی فضائیہ کے وہ واحد افسر ہیں جنھیں بے مثال شجاعت پر نشان حیدر دیا گیا۔

1971 سے پہلے دو نشانِ حیدر 48-1947 میں کشمیر میں محاذ آرائی جبکہ ایک 1965 کی جنگ کے بعد دیا گیا تھا۔

سقوطِ ڈھاکہ کے بعد پاکستانی فوج کی جانب سے نشانِ حیدر کا اعزاز دینے کا فیصلہ 1999 میں کارگل کی جنگ کے بعد کیا گیا جب کیپٹن کرنل شیرخان اور حوالدار لالک جان ملک کے اس سب سے بڑے فوجی اعزاز کے حقدار قرار دیے گئے۔

‘نشان حیدر’ اور ‘ہلال کشمیر’ میں فرق کیا ہے؟

1971 سے 1999 کے درمیان نشانِ حیدر حاصل کرنے والوں میں ایک اور نام کا اضافہ ضرور ہوا جو کہ نائیک سیف علی خان جنجوعہ کا تھا جنھیں 14 مارچ 1949 کو پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کی حکومت نے اپنا سب سے بڑا فوجی اعزاز ‘ہلال کشمیر’ دینے کا اعلان کیا تھا۔

30 نومبر 1995 کو حکومت پاکستان نے ہلال کشمیر کو نشان حیدر کے مساوی قرار دینے کا اعلان کیا تو اس فہرست میں نائیک سیف علی کا نام بھی شامل ہو گیا۔

نشان حیدر کا کشمیر سے کوئی گہرا تعلق ہے؟

اب تک کشمیر کے لیے چار نشان حیدر مختص ہوئے ہیں۔ 26 اکتوبر 1948 کو لڑتے ہوئے جان دینے والے سیف علی جنجوعہ کے علاوہ پاکستان آرمی کے جن تین اہلکاروں کو کشمیر میں لڑائی کے دوران ان کی جراعت و شجاعت پرنشان حیدر کا اعزاز ملا، ان میں کیپٹن راجہ محمد سرور، کیپٹن کرنل شیر خان اور حوالدار لالک جان شامل ہیں۔

سیف علی جنجوعہ کے بارے میں دفاعی ماہر ریٹائرڈ بریگیڈیئر فاروق حمید نے کہا کہ ‘وہ پاکستان آرمی کا حصہ تھے اور 1948 میں کشمیر کی پہلی جنگ میں بڑی بہادری سے لڑتے ہوئے شہید ہوئے۔ وہ بجا طور پر نشان حیدر کے اعزاز کے مستحق تھے۔’

دہشتگردی کے خلاف جنگ میں بھی کوئی نشان حیدر دیا گیا ہے؟

پاکستان میں آج تک جتنے بھی فوجیوں کو نشانِ حیدر دیا گیا انھوں نے اپنی جان انڈیا کے خلاف جنگ یا محاذ آرائی کے دوران دی اور دلچسپ امر یہ ہے کہ دہشت گردی کے خلاف پاکستانی فوج نے ایک دہائی سے زیادہ عرصے تک جو جنگ لڑی اور اس دوران ہزاروں فوجیوں نے اپنی جان بھی دی لیکن ان میں سے کسی کو بھی نشانِ حیدر نہیں دیا گیا۔

اس بارے میں ریٹائرڈ بریگیڈیئر فاروق حمید کا کہنا تھا کہ ‘تمام نشان حیدر انڈیا کے ساتھ لڑائیوں میں بہادری و شجاعت پر دینا نہایت اہمیت رکھتا ہے۔’

کیا نشان حیدر صرف جنگ میں حصہ لینے والوں کو ملتا ہے؟

نشان حیدر پانے والے 11 افراد میں سے صرف ایک فوجی کو یہ اعزاز جنگ کے علاوہ کسی واقعے میں ملا اور یہ میجر طفیل محمد تھے۔

اگست 1958 میں میجر طفیل محمد مشرقی پاکستان رائفلز کے کمپنی کمانڈر تھے جب مشرقی پاکستان کے لکشمی پور ضلع میں ان کی چوکی کو گھیرے میں لے لیا گیا۔ اس واقعے کی سرکاری روداد اس طرح بیان ہوئی ہے کہ ‘اس لڑائی کے نتیجے میں میجر طفیل اپنے بنکر میں شدید زخمی حالت میں ہونے کے باوجود بھی اس وقت تک اپنے دستے کی کمان کرتے رہے جب تک کہ انڈین فوجیوں کو انھوں نے وہاں سے مار نہیں بھگایا اور اسی شام انھوں نے زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے جان دے دی۔’

کیا کسی حریف نے بھی کبھی نشان حیدر پانے والوں کی دلیری کو سراہا؟

نشان حیدر پانے والوں میں سے کیپٹن کرنل شیر خان کی بہادری و شجاعت کا اعتراف ایک ناقابل یقین اور ناقابل تصور ذریعے سے سامنے آیا تھا۔

کیپٹن کرنل شیر خان کو کارگل میں اپنے دستوں کے ساتھ قیادت اور معرکہ آرائی کرتے دیکھنے والے بھارتی بریگیڈئیر نے بعد ازاں بھارتی میڈیا سے اپنے انٹرویو میں یہ دعویٰ کیا تھا کہ انہوں نے کیپٹن کرنل شیر خان کی میت کی جیب میں ایک تعریفی رقعہ اس وقت لکھ کر رکھ دیا تھا جب کرنل شیر خان کا جسد خاکی پاکستان کی فوج کے حوالے کیا جا رہا تھا۔ اس رقعے میں تحریر تھا کہ کرنل خان بڑی بہادری سے لڑے اور ان کی اس بہادری کا اعتراف ہونا چاہیے۔

کیپٹن کرنل شیر خان کے معاملے میں تو واقعے کے عینی شاہد مخالف کمانڈنگ افسر نے رضاکارانہ طور پر ان کی بہادری کی گواہی دی تاہم دیگر افراد کی بہادری کے واقعات کی کوئی غیرجانبدارانہ تحقیق یا مطالعاتی چھان بین نہیں ہوئی کہ نشان حیدر پانے والے ان افراد نے کن حالات میں جان دی اور اس سلسلے میں پاکستانی فوج کی جانب سے فراہم کردہ معلومات پر ہی تکیہ کرنا پڑتا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32540 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp