امریکی فوج کے انخلا کے بعد افغانستان میں صحافیوں کی مشکلات بڑھنے کے خدشات


افغانستان میں حالیہ عرصے میں خواتین سمیت صحافیوں کے قتل کے واقعات میں اضافہ ہوا ہے۔
اسلام آباد — افغانستان کا شمار صحافیوں کے لیے خطرناک ترین ممالک کی فہرست میں ہوتا ہے۔ تاہم رواں سال امریکی فوج کے انخلا کے بعد افغان صحافیوں کی مشکلات میں مزید اضافے کا خدشہ ظاہر کیا جا رہا ہے۔

افغانستان میں صحافیوں کے قتل اور اغوا کے واقعات رپورٹ ہوتے رہتے ہیں جب کہ حالیہ عرصے میں خواتین صحافیوں کو نشانہ بنانے کی کارروائیوں میں بھی اضافہ ہوا ہے۔

عرصۂ دراز سے بدامنی کے شکار ملک میں صحافیوں کو پیشہ ورانہ فرائض کی انجام دہی میں بھی مشکلات کا سامنا رہتا ہے۔

اعداد و شمار کے مطابق گزشتہ سال دنیا بھر میں لگ بھگ 50 صحافیوں کو پیشہ ورانہ فرائض کی انجام دہی کے دوران ہلاک کیا گیا جن میں سے 11 کا تعلق افغانستان سے تھا۔

آزادیٔ صحافت کے عالمی دن کی مناسبت سے افغانستان میں یورپی یورپی یونین کے مشن نے ایک بیان میں صحافیوں کا تحفظ یقینی بنانے اور اُن کے خلاف پرتشدد کارروائیوں میں ملوث عناصر کو انصاف کے کٹہرے میں لانے کی ضرورت پر زور دیا ہے۔

بیان میں مزید کہا گیا ہے کہ افغانستان میں خواتین صحافیوں کو خاص طور پر خطرہ لاحق ہے۔

گزشتہ سال ستمبر میں افغان حکومت اور طالبان کے درمیان بین الافغان مذاکرات شروع ہونے کے باوجود صحافیوں بالخصوص خواتین صحافیوں کے قتل کے پے درپے واقعات ہوئے۔ تاہم طالبان ان واقعات سے لاتعلقی کا اظہار کرتے رہے ہیں۔ کچھ واقعات کی ذمے داری شدت پسند تنظیم داعش نے بھی قبول کی تھی۔

‘صحافیوں کی آواز دبانا اب ناممکن ہے’

کابل میں مقیم چینل ‘آر ٹی اے’ سے منسلک خاتون صحافی خدیجہ امین کا کہنا ہے کہ افغانستان میں اب صحافت کو ایک خطرناک پیشے کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔

انہوں نے بغیر کسی ملک یا گروہ کا نام لیے بغیر وائس آف امریکہ کو بتایا کہ “ہمارے دشمن ہماری آواز مکمل طور پر خاموش کرنا چاہتے ہیں۔”

تاہم پرعزم خدیجہ نے کہا کہ اب صحافیوں کی آواز دبانا ناممکن ہے کیوں آج افغان صحافی برادری جہاں کھڑی ہے۔ اس کے لیے اُنہوں نے بہت سی قربانیاں دی ہیں۔

مارچ میں صوبہ ننگرہار کے دارالحکومت جلال آباد میں ‘انعکاس’ نامی ریڈیو اور ٹی وی چینل کے لیے کام کرنے والی تین خواتین کو گولی مار کر اس وقت ہلاک کر دیا گیا جب وہ کام ختم کرنے کے بعد گھر جا رہی تھیں۔

اس سے قبل اسی چینل کے ساتھ منسلک ایک اور خاتون صحافی، ملالئی میوند کو ڈرایئور سمیت ہلاک کر دیا گیا تھا۔ اس حملے کی ذمے داری شدت پسند تنظیم داعش نے قبول کی تھی۔ اس کے علاوہ رحمت اللہ نیک زادہ کو غزنی اور ریڈیو لبرٹی کے نمائندہ الیاس ڈائی کار بم حملے میں ہلاک ہو گئے تھے۔

خدیجہ امین کا مزید کہنا تھا کہ صحافت کے دشمن انہیں بم دھماکوں، گھات لگا کر قتل کرنے کے واقعات، خودکش حملوں جیسے واقعات کے ذریعے ان کے حوصلوں کو پست کرنا چاہتے ہیں۔ لیکن اب ایسا ممکن نہیں ہے۔

اُن کے بقول “ایک صحافی کی حیثیت سے میں کہنا چاہوں گی کہ آج جس جگہ ہم کھڑے ہیں۔ ہم نے قربانیاں دی ہیں۔ اس کے بعد آزادیٔ اظہار پر کوئی سمجھوتہ ممکن نہیں ہے۔”

عصمت اللہ حلیم کابل میں گزشتہ چھ سالوں سے صحافت کے شعبے سے منسلک ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ افغانستان میں صحافت ایک مشکل دور سے گزر رہی ہے لیکن باقی شعبوں کے حالات بھی ٹھیک نہیں ہیں۔

‘امریکہ اور نیٹو افواج کے انخلا سے مشکلات بڑھیں گی’

وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے انہوں نے بتایا کہ صحافیوں کو اس لیے نشانہ بنایا جاتا ہے کیوں کہ وہ عوام کو باخبر رکھنے کے لیے حقائق سے پردہ اٹھاتے ہیں اور بد قسمتی سے ان کی یہی پروفیشنلزم بعض اوقات ان کی جان جانے کا سبب بن جاتی ہے۔

عصمت اللہ حلیم کا مزید کہنا تھا کہ امریکہ اور اتحادی افواج کے انخلا کے بعد وہ نہیں سمجھتے کہ افغانستان میں آزادیٔ اظہار اپنا وجود برقرار رکھ پائے گی۔

اُن کے بقول منتشر افغانستان میں صحافی برادری بھی دوسری قوتوں کے زیرِ اثر آ سکتی ہے اور ایسی صوتِ حال میں کوئی بھی یہ رسک لینے کو تیار نہیں ہو گا کہ عوام کو صحیح معنوں میں معلومات اور خبروں سے آگاہ کر سکے۔

خیال رہے کہ امریکہ کے صدر جو بائیڈن 11 ستمبر تک افغانستان سے فوجی انخلا کا اعلان کر چکے ہیں۔

گزشتہ سال فروری میں امریکہ اور طالبان کے درمیان امن معاہدہ اور اس کے بعد بین الافغان مذاکرات کے شروع ہونے کے بعد افغان عوام توقع کر رہے تھے کہ اب ان کی مشکلات دور ہونے کا وقت قریب ہے۔

تاہم طالبان اور افغان حکومت کے درمیان بد اعتمادی کی فضا کے باعث ملک میں تشدد کی کارروائیوں میں اضافہ دیکھنے میں آیا ہے جب کہ عوام غیر یقینی صورتِ حال سے دوچار ہیں۔

صحافیوں کے حقوق کی تنظیم ‘این اے آئی’ کے منیجنگ ڈایریکٹر عبدالمجیب خلوتگر کا کہنا ہے کہ بدقسمتی سے افغانستان میں صحافیوں کے لیے سیکیورٹی کی صورتِ حال تسلی بخش نہیں ہے۔

وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے انہوں نے بتایا کہ ایک جانب صحافی دہشت گردوں کے نشانے پر ہیں تو دوسری جانب حکومتی ادارے ان کو قانونی مدد فراہم کرنے میں ناکام ہیں۔

عبدالمجیب خلوتگر خدشہ ظاہر کر رہے ہیں کہ ان تمام وجوہات کی بنیاد پر وہ سمجھتے ہیں کہ افغانستان میں صحافیوں کا مستقبل غیر یقینی صورت حال سے دوچار ہے جب کہ حکومت انہیں موافق ماحول مہیا کرنے میں بھی ناکام ہے۔

عبدالمجیب کا مزید کہنا تھا کہ افغانستان میں ایک جانب تشدد کی کارروائیاں عروج پر ہیں تو دوسری جانب امریکی اور اتحادی افواج نے افغانستان سے انخلا بھی شروع کر دیا ہے۔ اس کے علاوہ افغان حکومت اور طالبان کے درمیان صلح کی باتیں بھی ہو رہی ہیں۔

عبدالمجیب خلوتگر کے مطابق اگر فریقین کسی تصفیے پر پہنچ بھی جاتے ہیں پھر بھی ماضی میں طالبان کے دورِ حکومت کی تلخ یادوں کے تجربے کے پیشِ نظر افغانستان میں آزاد صحافت کی راہ میں کئی رکاوٹیں آ سکتی ہیں۔

وائس آف امریکہ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

وائس آف امریکہ

”ہم سب“ اور ”وائس آف امریکہ“ کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے مطابق ”وائس آف امریکہ“ کی خبریں اور مضامین ”ہم سب“ پر شائع کیے جاتے ہیں۔

voa has 3331 posts and counting.See all posts by voa

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments