یورپی پارلیمنٹ میں پاکستان کے خلاف قرارداد، کیا پاکستان کی برآمدات متاثر ہوں گی؟


اسلام آباد — یورپین پارلیمنٹ کی جانب سے پاکستان کو حاصل جی ایس پی پلس اسٹیٹس ختم کرنے سے متعلق قرارداد کی منظوری کے بعد پاکستان کے صنعتی شعبے سے منسلک افراد نے تشویش کا اظہار کیا ہے۔

ادھر وزیرِ اعظم پاکستان کی زیرِ صدارت پیر کو اس معاملے میں ایک اجلاس بھی ہوا ہے جس میں وزیرِ خارجہ، وزیرِ خزانہ اور تجارت سمیت اعلٰی حکام شریک ہوئے۔

خیال رہے کہ جی ایس پی پلس اسٹیٹس ملنے سے پاکستان کو اپنی مصنوعات کو یورپی منڈیوں تک رسائی میں سہولت کے علاوہ کئی ٹیکسز میں بھی چھوٹ حاصل ہے۔ پاکستان کو یہ درجہ 2013 میں ملا تھا۔

پاکستان میں گزشتہ ماہ کالعدم مذہبی جماعت تحریکِ لبیک پاکستان کے ملک گیر احتجاج کے بعد حکومت نے ایک معاہدے کے تحت قومی اسمبلی میں فرانس کے سفیر کو ملک بدر کرنے کی قرارداد پیش کی تھی جس پر یورپین پارلیمنٹ نے تشویش کا اظہار کیا تھا۔

یورپین پارلیمنٹ کی منظور کی گئی قرارداد میں کہا گیا تھا کہ پاکستان میں اقلیتوں کے خلاف اور بنیادی انسانی حقوق کے منافی قوانین رائج ہیں۔

قرارداد میں یورپی یونین کے متعلقہ اداروں کو اس بات کا جائزہ لینے کے لیے کہا گیا ہے کہ کیا پاکستان کا ’جی ایس پی پلس‘ اسٹیٹس عارضی طور پر ختم کیا جا سکتا ہے؟

کاروباری شعبے سے منسلک افراد کا کہنا ہے کہ اگر پاکستان کا جی ایس پی پلس درجہ ختم ہو گیا تو اس کی برآمدات پر منفی اثر پڑے گا۔

آل پاکستان ٹیکسٹائل ملز ایسوسی ایشن کے سیکرٹری جنرل شاہد ستار کا کہنا ہے کہ یہ ہمارے لیے بہت تشویش کی بات ہے۔ اُن کے بقول ٹیکسٹائل کے شعبے میں نئے منصوبوں کے لیے لگ بھگ دو سے ڈھائی ارب ڈالرز کی نئی سرمایہ کاری کی گئی ہے۔

شاہد ستار کہتے ہیں کہ یہ منصوبے اسی صورت میں فعال ہو سکتے ہیں اگر برآمدات میں اضافہ ہو اور اگر جی ایس پی پلس درجہ ختم ہو گیا تو پاکستان کے صنعتی شعبے کو اس سے بہت نقصان ہو گا۔

انہوں نے کہا کہ پاکستان یورپی یونین میں شامل ممالک کو اپنی مجموعی برآمدات کا 35 سے 40 فی صد برآمد کرتا ہے۔

یاد رہے کہ کرونا وائرس کی وبا کے باوجود یورپی یونین کے لیے پاکستان کی ٹیکسٹائل کی مصنوعات میں اضافہ دیکھنے میں آیا تھا۔

شاہد ستار کا کہنا ہے کہ اس کی وجہ یہ ہے کہ کرونا وائرس کی وبا کے باوجود پاکستان میں معاشی سرگرمیاں نہیں روکی گئیں جس طرح بھارت یا بنگلہ دیش نے کیا تھا۔

ان کے بقول پاکستان میں ٹیکسٹائل فیکڑیاں چلتی رہیں اور جو آرڈر بنگلہ دیش یا بھارت پورے نہیں کر سکا وہ پاکستان نے پورے کیے تھے۔

‘قرارداد پر عمل کرنا رُکن ممالک پر لازم نہیں’

دوسری جانب پاکستان کے سابق سیکرٹری خارجہ شمشاد احمد خان کا کہنا ہے کہ یورپی پارلیمنٹ کی قرارداد پر عمل کرنا رکن ممالک پر لازم نہیں ہے۔

لیکن ان کے بقول ایسی قراردادیں یورپی یونین کے رکن ممالک کی کسی بھی امور کے بارے میں ایک متفقہ رائے کا اظہار ضرور ہوتی ہیں۔

اقتصادی امور کے تجزیہ کار فرخ سلیم کا کہنا ہے کہ یورپی یونین کی قرارداد کے اقتصادی سے زیادہ سیاسی مضمرات ہیں۔

فرخ سلیم کا کہنا ہے کہ یورپی یونین کی قرارداد پاکستان کے لیے یہ پیغام ہے کہ پاکستان کے بعض قوانین انسانی حقوق سے متعلق بین الاقوامی قوانین سے متصادم ہیں۔

لیکن تجزیہ کار فرخ سلیم کا کہنا ہے کہ یورپی پارلیمان فیصلہ ساز ادارہ نہیں ہے بلکہ فیصلہ سازی کا اختیار یورپی یونین کی کونسل آف منسٹرز کے پاس ہے۔

اُن کے بقول اگر یہ ادارہ یورپی پارلیمان کی قرارداد کے تحت کوئی فیصلہ کرے گا تو اس کا اطلاق یورپی یونین کے رکن ممالک پر ہو گا۔ اسی صورت میں پاکستان کے لیے اقتصادی مضمرات ہو سکتے ہیں۔

فرخ سلیم کا کہنا ہے کہ اگر پاکستان سے جی ایس پی پلس کا درجہ واپس لے لیا جاتا ہے تو اس کا مطلب یہ نہیں کہ پاکستان ان ممالک کو مصنوعات برآمد نہیں کر سکے گا۔ تاہم اسے جی ایس پی پلس کے حامل ممالک بشمول بنگلہ دیش سے مقابلہ کرنے میں مشکلات کا سامنا ہو گا۔

فرخ سلیم کا کہنا ہے کہ عمومی طور پر یورپی یونین ممالک پر درآمدی ڈیوٹی کی شرح 10 سے 14 فی صد ہے اگر پاکستان سے یہ سہولت واپس لے لی جائے تو پاکستان کو نقصان ہو گا۔

تاہم پاکستان کی وزارتِ خارجہ کے ترجمان نے یورپی یونین کی قرارداد اور پاکستان کے عدالتی نظام اور قوانین پر تبصروں کو مایوس کن قرار دیا تھا۔

ترجمان وزارتِ داخلہ کا کہنا تھا کہ پاکستان اقلیتوں کے حقوق اور اُنہیں مساوی مواقع دینے کے اپنے دیرینہ عزم پر قائم ہے اور پاکسان کا آئین بھی اُنہیں مکمل تحفظ دیتا ہے۔

وائس آف امریکہ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

وائس آف امریکہ

”ہم سب“ اور ”وائس آف امریکہ“ کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے مطابق ”وائس آف امریکہ“ کی خبریں اور مضامین ”ہم سب“ پر شائع کیے جاتے ہیں۔

voa has 3331 posts and counting.See all posts by voa

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments