بھارت: مغربی بنگال کی سیاست پر حاوی ممتا بنرجی کون ہیں؟


ممتا بنرجی
نئی دہلی — بھارت کی ریاست مغربی بنگال میں دو مرتبہ وزیرِ اعلیٰ رہنے والی ممتا بنرجی کی جماعت آل انڈیا ترنمول کانگریس ‘ٹی ایم سی’ نے ریاست کے انتخابات میں مرکزی حکمران جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کو شکست دی ہے۔

ممتا بنرجی نندی گرام سے اپنا الیکشن ہار گئی ہیں جنہیں ان کے سابق ساتھی شبھیدو ادھیکاری نے 1956 ووٹوں سے شکست دی ہے۔ البتہ ان کی جماعت ریاست میں تن تنہا حکومت بنانے کی پوزیشن میں ہے۔

ممتا بنر جی چھ ماہ کے اندر ضمنی انتخاب میں کامیابی حاصل کر کے دوبارہ وزارتِ اعلٰی کا منصب حاصل کر سکتی ہیں۔ تاہم اگر وہ ناکام رہیں تو اُنہیں یہ عہدہ چھوڑنا پڑے گا۔

مغربی بنگال کی 292 رکنی اسمبلی میں حکومت سازی کے لیے 147 نشستیں درکار ہیں اور ممتا کی جماعت (ٹی ایم سی) نے 213 نشستیں حاصل کر کے میدان مار لیا ہے جب کہ ان کے مدِ مقابل بھارتی جنتا پارٹی 77 نشستیں حاصل کر سکی ہے۔

ممتا کی جماعت نے ریاست میں جیت کی ہیٹ ٹرک بنائی ہے اور وہ اس وقت بھارت میں واحد خاتون وزیر اعلیٰ ہیں جو تیسری بار وزیرِ اعلیٰ بن سکتی ہیں۔

ممتا بنرجی کون ہیں؟

ممتا بنرجی جنوری 1955 میں کلکتہ کے ہندو بنگالی خاندان میں پیدا ہوئیں۔ انہوں نے کلکتہ یونیورسٹی سے اسلامی تاریخ میں ماسٹر کیا۔ اس کے علاوہ انہیں کلنگا یونیورسٹی سے ڈاکٹریٹ اور کلکتہ یونیورسٹی سے ڈی لٹ کی ڈگری تفویض کی گئی ہے۔

ممتا نے 15 سال کی عمر میں سیاسی سفر کا آغاز کیا اور ‘چھاترا پریشد یونین’ کے نام سے کانگریس پارٹی کا اسٹوڈنٹ ونگ قائم کیا۔

سن 1976 سے 1980 تک ممتا بنرجی کانگریس پارٹی کی خواتین ونگ کی جنرل سیکریٹری رہیں، جس کے بعد 1984 میں انہوں نے سی پی ایم کے رہنما سومناتھ چٹرجی کو شکست دی اور سب سے کم عمر رکن پارلیمنٹ بنیں۔

وہ 1991، 1996، 1998، 1999، 2004، 2009 میں کلکتہ ساؤتھ سے رکن پارلیمنٹ منتخب ہوئیں۔

مرکز میں پہلی بار وزارت

انہوں نے 1991 میں کابینہ میں اس وقت قدم رکھا جب کانگریس کے پی وی نرسمہا راؤ کی حکومت تھی۔ تاہم انہوں نے 1997 میں کانگریس کو خیر باد کہتے ہوئے مکل رائے کے ساتھ ‘ترنمول کانگریس’ نامی سیاسی جماعت کی بنیاد رکھی۔

واضح رہے کہ مکل رائے اِس وقت بی جے پی میں ہیں۔

ممتا بنرجی نے 1999 میں بی جے پی کی قیادت میں قائم ہونے والے نیشنل ڈیموکریٹک الائنس (این ڈی اے) میں شمولیت اختیار کی۔ انہیں ریلوے اور سیاحت کا وزیر بنایا گیا۔

لیکن سن 2000 میں انہوں نے پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے کے خلاف احتجاج کرتے ہوئے کابینہ سے استعفیٰ دیا۔ بعد ازاں تہلکہ میگزین کی جانب سے ‘آپریشن ویسٹ اینڈ’ کے عنوان سے بدعنوانی کے انکشاف کے بعد سال 2001 میں انہوں نے ‘این ڈی اے’ سے علیحدگی اختیار کرلی۔

جس کے بعد وہ 2003 میں پھر این ڈی اے کا حصہ بنیں اور اٹل بہاری واجپائی کی حکومت میں کسی قلمدان کے بغیر وزیر مقرر کی گئیں۔ البتہ 2004 میں انہیں کوئلے سے متعلق امور کی وزیر بنایا گیا۔

سال 2004 میں این ڈی اے کو پارلیمانی انتخابات میں شکست ہوئی لیکن ممتا بنرجی کامیاب رہیں۔ مرکز میں یو پی اے کی حکومت قائم ہوئی۔ اس کے بعد وہ مغربی بنگال میں مختلف عوامی تحریکوں سے وابستہ رہیں جن میں نندی گرام کا مشہور احتجاج بھی شامل ہے جو انہوں نے کارپوریٹ کے ہاتھوں کسانوں کی زمین مبینہ تحویل میں لینے کے خلاف کیا تھا۔

اگلے پارلیمانی انتخابات یعنی 2009 میں انہوں نے کانگریس کی قیادت والے یونائیٹڈ پروگریسو الائنس (یو پی اے) سے اتحاد کیا۔

یو پی اے کو ایک بار پھر کامیابی ملی اور ڈاکٹر من موہن سنگھ دوبارہ وزیرِ اعظم مقرر ہوئے۔ اس سے قبل انہیں 2004 کے پارلیمانی انتخابات کے بعد پہلی بار وزیرِ اعظم بنایا گیا تھا۔

من موہن سنگھ کی کابینہ میں ممتا بنرجی کو ریلوے کی وزارت دی گئی۔

پہلی مرتبہ وزیرِ اعلیٰ

ممتا بنرجی کی جماعت نے 2011 میں مغربی بنگال کے اسمبلی انتخابات میں کامیابی حاصل کی اور وہ ریاست کی وزیرِ اعلیٰ بن گئیں۔

ٹی ایم سی نے 2016 کے اسمبلی انتخابات میں پھر کامیابی حاصل کی اور وہ دوسری بار وزیرِ اعلیٰ کے منصب پر فائز ہوئیں۔

ممتا بنرجی کو سادگی پسند تصور کیا جاتا ہے۔ وہ وزیرِ اعلیٰ کی سرکاری رہائش گاہ کے بجائے جنوبی کلکتہ کے ہریش چٹرجی اسٹریٹ پر واقع دو کمرے کے مکان میں رہتی ہیں۔

سیاست کے علاوہ دلچسپی

ممتا بنرجی شاعرہ، ناول نگار اور ایک پینٹر بھی ہیں۔ ان کی کتابوں اور پینٹنگ سے انہیں اچھی رائلٹی ملتی ہے جو وہ پارٹی فنڈ میں دیتی ہیں۔بعض میڈیا رپورٹس کے مطابق ان کی 300 پینٹنگس نو کروڑ روپے میں فروخت ہوئی ہیں۔

معروف عالمی جریدے ’ٹائم میگزین‘ نے 2012 میں انہیں دنیا کی 100 بااثر خواتین میں شامل کیا تھا۔ مئی 2019 میں ان کی زندگی پر مبنی بنگالی فلم ’باگھنی‘ (شیرنی) ریلیز ہوئی تھی۔

انہیں اقلیتوں بالخصوص مسلمانوں، کمزوروں، محروموں اور پسے ہوئے طبقات میں خاصی مقبولیت حاصل ہے۔

وائس آف امریکہ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

وائس آف امریکہ

”ہم سب“ اور ”وائس آف امریکہ“ کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے مطابق ”وائس آف امریکہ“ کی خبریں اور مضامین ”ہم سب“ پر شائع کیے جاتے ہیں۔

voa has 3331 posts and counting.See all posts by voa

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments