چائے کے کپ سے چینی کی درآمد تک


فرانسیسی سپہ سالار نپولین بونا پارٹ کا کہنا تھا
Lose the battle, win the war

آج کل کا دور جہاں جدید سے جدید آلات حرب لے کر آیا ہے وہیں طرز جنگ بھی تبدیل کر چکا ہے۔ جنگ اپنے مفہوم میں خاصی پیچیدگی لیے ہوئے ہے، فرسٹ، سیکنڈ، تھرڈ اور فورتھ جنریشن وارفیئر کے بعد آج کی دنیا ففتھ جنریشن وارفیئر کا سامنا کر رہی ہے۔ ہائی برڈ وارفیئر ہاٹ وار فیئر سے زیادہ خطرناک اور پیچیدہ ہے۔ آج کا دور ہائی برڈ وارفیئر کا دور ہے۔ ہائی برڈ وارفیئر میں بظاہر نظر آنے والی متحارب قوتوں سے ہٹ کر بھی کچھ قوتیں ملوث ہوتی ہیں جو کہ نظر آنے والی قوتوں سے زیادہ متحرک اور موثر ہوتی ہیں اور یہی نظر نہ آنے والی قوتیں جنگوں کی ہار جیت کے فیصلے کرتی ہیں۔

یہی نظر نہ آنے والی چیز/قوت جنگوں کی طرز اور سمت کا تعین کرتی ہے۔ نظر نہ آنا جہاں ایک صفت ہے وہیں اس سے ہٹ کر بھی کچھ پہلو ہیں جو اسے مزید پیچیدہ و خطرناک بنا دیتے ہیں۔ سب سے زیادہ مہلک اور خطرناک اس جنگ میں اقتصادیات کا معاملہ ہے اور اس کے بعد نفسیات کا۔ باقاعدہ افواج، اسپیشل فوج، بے قاعدہ فوج سے ہٹ کر ہائی برڈ وارفیئر میں اقتصادی جنگ، سفارت کاری، غلط معلومات کو پھیلانا، سائبر حملے، علاقوں میں بدامنی پھیلانے جیسے عناصر شامل ہوتے ہیں۔

ماضی میں اگر کسی فوج کی سپلائی لائن کاٹ دی جاتی تھی تو وہ بے دست و پا ہو کر آخر کار ہتھیار ڈال دیتی تھی جس کی نئی شکل اب اقتصادی جنگ ہے۔ جب ایک سپاہی کو کھانے کو روٹی، پہننے کو کپڑا، رہنے کو مکان اور لڑنے کے لیے ہتھیار ہی نہ ملیں تو وہ لڑے گا کیسے اور اگر کوئی سرپھرا لڑ بھی جائے تو کب تک دشمن کے ہتھیاروں کے سامنے ٹک پائے گا؟ پاکستان کے دشمن اسی چیز کو سامنے رکھتے ہوئے پاکستان کی مالی امداد بند کرنے کے ساتھ ساتھ اس کے اردگرد کا ماحول ناقابل برداشت کر کے اس کی افواج سے لڑنے کا حوصلہ چھین لینا چاہتے ہیں۔

مشہور زمانہ ممبئی حملوں کو کون بھول سکتا ہے کہ جس میں اجمل قصاب نامی ایک بندہ پکڑا گیا تھا جس کے متعلق اس وقت کچھ سینیئر پاکستانی صحافیوں تک نے دعویٰ کر دیا تھا کہ وہ پاکستانی ہے لیکن ابھی چند دن قبل ہی اس بندے کا ڈراپ سین ہوا ہے جب ہند میں اس کا ڈومیسائل بنایا گیا تھا۔ اس ڈراپ سین اور دیگر شواہد سے ظاہر ہوتا ہے کہ ممبئی حملوں میں ہند یا پھر ہند کے اندر کی قوتیں ملوث تھیں لیکن اس سارے کا ملبہ پاکستان پر ڈالا گیا اور اس قدر شدید پروپیگنڈا کیا گیا کہ پاکستان کو چند قدم پیچھے ہٹنا پڑا۔ الغرض یہ سب غلط پروپیگنڈا ہے جس کا استعمال امریکا، روس، چین اور دیگر ممالک اپنے اپنے حالات کے مطابق کرتے رہتے ہیں۔

یاد رہے کہ 26 فروری علی الصبح بھارتی فوج کی جانب سے حدود کی خلاف ورزی کرتے ہوئے بالاکوٹ اور مقبوضہ کشمیر پر حملہ کیا گیا تھا۔ جس کا پاک فضائیہ نے بھر پور جواب دیتے ہوئے مقبوضہ کشمیر میں بھارتی اہم ٹارگٹس کو لاک کیا اور پھر لائن آف کنٹرول کی خلاف ورزی کرنے والے دو بھارتی مگ طیاروں کو مار گرایا تھا۔ اس دوران تباہ ہونے والے ایک طیارے کا ملبہ پاکستانی حدود میں گرا جب کہ اس کے پائلٹ ابھی نندن کو بھی زندہ گرفتار کیا گیا اور اس کو پلائی گئی چائے نے دنیا بھر میں مقبولیت پائی، جسے بعد میں جذبہ خیرسگالی کے تحت رہا کر دیا گیا۔ اس دن کو بعد میں ’سرپرائز ڈے‘ کا نام دیا گیا اور سوشل میڈیا پر بھی لوگوں نے اسے یادگار بنا دیا۔ پاکستان میں ٹویٹر پر ”HappySurpriseDayIndia“ کا ٹرینڈ پہلے نمبر پر موجود ہے۔

سینئر صحافی اور جیو نیوز کے پروگرام ’کیپیٹل ٹاک‘ کے میزبان حامد میر نے ابھی نندن کو چائے پلانے والے پاک فوج کے باورچی انور علی سے گفتگو کی تو ان کا کہنا تھا کہ ’جی وہ (ابھی نندن) آئے تھے اور کافی زخمی حالت میں تھے اسپتال میں ہی ہم نے ان کے لیے چائے بنائی اور اسے پیش کی۔‘ انور سے پوچھا گیا کہ آپ نے چائے کیوں پیش کی تو انہوں نے اس پر خوبصورت جواب دیا اور کہا کہ ’وہ ہمارا مہمان تھا سر ہمارے ملک میں آیا ہوا تھا۔‘

یورپی ممالک دو عالمی جنگوں میں لاکھوں جانیں جھونکنے کے بعد اپنی سرحدیں بھی ختم کرچکے ہیں، ایک دوسرے کے خون کے پیاسے امریکہ اور جاپان اپنی دشمنی معاشی جنگ میں تبدیل کر چکے ہیں لیکن مبصرین کے مطابق پاکستانی سکیورٹی ادارے اب بھی ہندوستان اور افغانستان کو شک کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔ پچھلے دنوں وزیر خزانہ حماد اظہر کی سربراہی میں ہونے والے اقتصادی رابطہ کمیٹی کے اجلاس میں انڈیا سے پانچ لاکھ ٹن چینی کے علاوہ کپاس اور دھاگہ درآمد کرنے کی سفارش کی گئی تھی جسے اگلے ہی دن حسب روایت عمران حکومت کابینہ نے قومی اقتصادی رابطہ کمیٹی کی جانب سے موخر کر دیا۔

عسکری و سیاسی قیادت کی الگ سوچ اور علاقائی حالات کی وجہ سے تعلقات میں بہتری کے امکانات کم ہی ہیں کیونکہ ہم ایک ایسے معاشرے کا حصہ ہیں جہاں اشرافیہ اپنی رائے باہمی مشاورت سے نہیں ڈنڈے کے زور سے منواتی ہے، میاں محمد نواز شریف کے دور میں غداری قرار دیے جانے والی تجویز وزیراعظم عمران خان کے دور میں ایک اچھی خارجہ پالیسی اس قرار پاتی ہے جب اس کا سپہ سالار کی زبان سے انڈیا سے اچھے اور پرامن تعلقات کی خواہش کی نوید بن کر ہم تک پہنچے۔

پھر ابھی نندن چائے پیتے پیتے بارڈر کراس بھی کر سکتا ہے اور ایک بھارتی دہشتگرد کلبھوش کو رہا کرنے کے لئے قانون میں اپیل کا حق بھی دیا جا سکتا ہے اور اس پر تنقید کرنے والوں کو قید یا جرمانہ کا قانون بھی حرکت میں آ سکتا ہے۔ کسی نے درست ہی کہا تھا کہ پاکستان میں شاید سب سے زیادہ سچ شراب خانے میں شراب پی کر بولا جاتا ہے۔ اور سب سے زیادہ جھوٹ عدالتوں میں مقدس کتاب پر ہاتھ رکھ کر بولا جاتا ہے اور ظریف لکھنوی کے اشعار ان حالات کی عکاسی زیادہ بہتر کر سکتے ہیں :

وحشت میں ہر اک نقشہ الٹا نظر آتا ہے
مجنوں نظر آتی ہے لیلیٰ نظر آتا ہے
اے مرغ سحر ککڑوں کوں بول کہیں جلدی
تو بھی شب فرقت میں گونگا نظر آتا ہے


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments