مغربی بنگال انتخابات میں بی جے پی کو شکست: ’آج بی جے پی کے ساتھ جوبنگال نے کیا ہے کل وہ پورا ملک کرے گا‘


ممتا

ممتا بینرجی انڈیا کی ایسی پہلی خاتون وزیر اعلی ہیں جو مسلسل تیسری بار وزیر اعلی کے عہدے پر منتخب ہوئی ہیں۔ انھوں نے ملک کی سب سے طاقتور حکمراں جماعت بی جے پی کو شکست دی ہے۔

بنگال میں ان کے خلاف وزیر اعطم نریندر مودی اور وزیر داخلہ امت شاہ نے ایک طویل انتخابی مہم چلائی تھی۔ بی جے پی کی غیر معمولی مہم کے زیر اثر انتخابات کے آخری مراحل آتے آتے میڈیا اور تجزیہ کار بھی ممتا بینرجی کی شکست کی پیش گوئیاں کرنے لگے تھے۔

یہ انتخابات مجموعی طور پر 294 سیٹوں کی اسمبلی میں سے 292 سیٹوں کے لیے منعقد ہوئے۔ ان میں سے ممتا بینرجی کی ترنمول کانگریس پارٹی نے کم از کم 213 سیٹیں حاصل کی ہیں، تاہم ممتا ذاتی طور پر اپنی سیٹ سے ہار گئی ہیں۔

تجزیہ نگاروں کی نظر میں ترنمول کانگریس پارٹی کی یہ فتح غیر معمولی ہے اور کوئی بھی اتنی بڑی جیت کی توقع نہیں کر رہا تھا۔

یہ بھی پڑھیے

مغربی بنگال میں شکست: بے جے پی کے ’چانکیہ‘ کی سیاسی چالیں بھی کام نہ آئیں

جس کا نام لینا گوارا نہیں تھا ’وہ عورت‘ مغربی بنگال کی وزیر اعلیٰ کیسے بنی؟

’مودی تو ہندوؤں کے دیوتا ہیں، انھیں کیسے ہرائیں گے‘

ممتا بینرجی کی واحد ’غیر متوقع‘ شکست اور بی جے پی کی انا کی جنگ

اس بھاری شکست کے باوجود بی جے پی اب ریاستی اسمبلی میں اصل اپوزیسن پارٹی بن گئی ہے، اسے کل 77 سیٹیں ملی ہیں۔ ریاست میں کانگریس اور کمیونسٹ پارٹیوں کا خاتمہ ہو چکا ہے۔ سنہ 2016 کے انتخابات میں بی جے پی کو محض دس فیصد ووٹ ملے تھے۔ اس بار اسے 38 فیصد ووٹ ملے ہیں۔

بی جے پی مغربی بنگال یونٹ کے صدر دلیپ گھوش نے انتخابی نتائج کے بعد ایک بیان میں کہا ‘ہم نے اپنے لیے ایک بڑا ہدف مقرر کیا تھا۔ یہ ایک لمبی چھلانگ تھی جو ہم پار نہیں کر سکے لیکن جو ہم نے حاصل کیا ہے وہ بھی ایک بڑی کامیابی ہے۔’

ادھر ممتا بینر جی نے اپنی غیر معمولی جیت کو عوام اور جمہوریت کی جیت قرار دیا ہے۔

انھوں نے کہا کہ ‘ریاست کے عوام نے ملک کی جمہوریت اور ملک کو بچا لیا ہے۔’

بعض تجزیہ کاروں اور کارکنوں کا خیال ہے کہ بنگال کی جیت کا ملک کی سیاست پر گہرا اثر پڑے گا۔

ممتا

کولکتہ کی نوشین بابا خان کہتی ہیں ‘بنگال کے عوام بیدار ہیں، انھوں نے یہ بتا دیا ہے کہ ملک میں نفرت اور پھوٹ ڈالنے کی سیاست نہیں چلے گی۔ آج جو بنگال نے کیا ہے، کل وہ پورا ملک کرے گا۔’

انتخابی نتائج پر نظر ڈالیں تو بی جے پی آسام میں تو دوبارہ اقتدار میں آ گئی ہے لیکن وہ اپنی تمام تر کوششوں کے باوجود کیرالہ اور تمل ناڈو کی جنوبی ریاستوں میں اپنے پیر نہیں جما سکی۔

بی جے پی کو سب سے بڑا دھچکہ بنگال میں لگا ہے۔ بنگال ایک بڑی ریاست ہے اور وہ ملک میں علم و دانش کا مرکز مانی جاتی ہے۔ یہ ایک طویل عرصے سے بی جے پی کے ‘ہندوتوا’ کے ایجنڈے کا مرکز بھی ہے۔

ہندو نظریاتی تنظیم بی جے پی ریاست میں کئی عشروں سے ہندوتوا کے نظریے کا پرچار کر رہی ہے۔ وزیر اعظم مودی نے یہاں انتخاب جیتنے کے لیے خصوصی حکمت عملی تیار کی تھی۔

یہاں ایک برس پہلے سے انتخابی مہم چلائی گئی۔ آر ایس ایس اور بی جے پی کے ہزاروں کارکن دن رات کام کرنے کے لیے یہاں لائے گئے۔ انتخاب جیتنے کے لیے بی جے پی نے بڑے پیمانے پر اپنے سارے وسائل لگا دیے۔ اس کے باوجود مودی کی قیادت میں بی جے پی کو بھاری شکست کا سامنا ہوا۔

اگر مودی بنگال میں جیت گئے ہوتے تو وہ اپنے انتخابی منشور میں کیے گئے وعدے کے مطابق ممکنہ طور پر آسام کی طرح یہاں بھی این آر سی اور سی اے اے نافذ کرتے۔

اب ان کے سامنے ایک ایسی حکومت ہے جوان کے نظریے کے خلاف ہے۔

یہ شکست ایک ایسے وقت میں ہوئی ہے جب کورونا کی وبا سے نمٹنے میں مبینہ غفلت پر مودی حکومت کو ملک اور بیرون ملک میں شدید تنقید کا سامنا ہے۔

اس وقت ملک کی معیشت کے حالات بھی خوش آئند نہیں ہیں اور کورونا کی وبا کے باوجود کسانوں کی تحریک ابھی تک برقرار ہے۔ اس وقت بھی ہزاروں کسان اپنی جگہ دھرنے دیے بیٹھے ہوئے ہیں لیکن معروف تجزیہ کار شبوجیت باگچی کا کہنا ہے کہ انڈیا کی سیاست میں برقرار رہنے کے لیے خطرہ مول لینے کی صلاحیت بہت ضروری ہے۔

وہ کہتے ہیں ‘مودی کے اندر خطرہ مول لینے کی صلاحیت سبھی موجودہ سیاست دانوں سے زیادہ ہے۔ انھیں وقتی طور پر دھچکا ضرور لگا ہے لیکن وہ کسی نہ کسی طرح ان حالات سے نکل جائیں گے۔’

دانشور کستوری باسو کا خیال ہے کہ ‘ کیرالہ ، تمل ناڈو اور بنگال میں بی جے پی کی شکست سے اپوزیشن جماعتوں کے لیے متحد ہونے کا راستہ ہموار ہو گیا ہے۔’

ان انتخابات میں بی جے پی کے ساتھ ساتھ کانگریس کو بھی کیرالہ، پانڈیچری اور آسام میں شکست ہوئی ہے۔

ملک کی سب سے بڑی اپوزیشن جماعت کانگریس اس وقت قیادت کے بحران سے دو چار ہے۔ یہ پیشنگوئی کی جا رہی ہے کہ ملک کی سیاست میں اگلی کوئی بڑی تبدیلی کانگریس کے اندر رونما ہوگی کیونکہ کانگریس اپوزیشن اتحاد میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔

ممتا

تاہم اس وقت ممتا بینرجی مودی کو چیلنج کرنے والی رہنما کے طور پر سامنے آئی ہیں۔ دلی کے وزیر اعلی اروند کیجریوال، تمل ناڈو کے نو منتخب وزیر اعلیٰ ایم جے‏ سٹالن، بہار کے رہنما تجسوی یادو، اتر پردیش کے سابق وزیر اعلی اکھیلیش یادو، پنجاب کے کانگریس کے وزیر اعلی کیپٹن امریندر سنگھ، شیو سینا کے وزیر اعلی اودھو ٹھاکرے، سینیئر رہنما شرد پوار اور شرد یادو ممتا بینرجی کی حمایت میں کھڑے ہیں۔

یہ مودی کے خلاف محاذ کی ابتدائی شکل ہے۔ کسی ٹھوس محاذ کی تشکیل کے لیے ان رہنماؤں کو یہ طے کرنا ہوگا کہ وہ مودی اور بی جے پی کے خلاف کیوں ہیں۔ لیکن فی الحال مودی کے مقابلے میں اپوزیشن کی یہ ایک فیصلہ کن جیت ہے اور یہ مستقبل کی سیاست کا رخ بھی طے کرے گی۔

مودی کے ہندوتوا کے سیاسی رتھ کو بنگال نے فی الحال لگام لگا دی ہے ۔بنگال میں وزیر اعظم مودی اور ان کے معتمد، وزیر داخلہ امت شاہ کو جو زخم لگا ہے اس سے نکلنے میں وقت لگے گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32292 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp