درد کا رشتہ


عامر

تمہارے جانے کے بعد کچھ اس طرح محسوس ہوتا رہا جیسے کوئی چیز، کوئی حصہ میرے دل کا ٹوٹ کر مجھ سے جدا ہو گیا ہے۔ دو دن تو اس طرح بولائی بولائی گھومتی رہی جیسے دیوانی ہو گئی ہوں۔ کچھ سمجھ میں نہیں آتا تھا کہ کیا کروں۔ ہر اڑتا ہوا جہاز دل میں طرح طرح کے شکوک پیدا کرتا ہوا جاتا تھا۔ سارا گھر، کالج، ہر چیز ویران لگتی تھی، حالانکہ زندگی کے معمولات میں کوئی تبدیلی نہیں آتی۔ آڈیٹوریم کی سیڑھیاں ویسے ہی آباد تھیں، اسنیک کارنر پر وہی جمگھٹا تھا اور لائبریری میں بھی وہی کچھ ہو رہا تھا جو ہوتا ہے۔ وقت اسی طرح سے رینگ رہا تھا کچھ نہیں بدلا تھا تمہارے جانے کے بعد۔

تمہارے جانے کے بعد بہت سے لوگوں کو شکایت ہوئی، مگر سب سمجھتے ہیں کہ اس طرح بغیر بتائے جانا ہی مناسب تھا۔ ہر ڈاکٹر کی ملٹری کال آئی ہوئی ہے۔ جن کی پہنچ ہے وہ بچ رہے ہیں۔ جن کی جان پہچان اور سورس نہیں ہے، انہیں اپنی مرضی کے خلاف فوج میں جانا پڑ رہا ہے۔ تم اپنی سوچ کے ساتھ تو نہ جانے کیا کرتے۔ یہی طریقہ مناسب تھا۔ کچھ دنوں میں شکایتیں ختم ہوجائیں گی۔ تم فکر نہ کرنا۔ تم لکھو کہ کیسے ہو؟ ائرپورٹ پر کوئی پریشانی تو نہیں ہوئی؟

لوگ کیسے ہیں، موسم کیسا ہے، سردی تو بہت ہوگی۔ اپنا خیال رکھنا۔

تمہارے جانے سے ایسا لگا جیسے ابو کو بہت اطمینان ہو گیا ہے۔ وہ اپنے خیال میں سمجھ رہے ہیں کہ میں تم کو بھول جاؤں گی، تم کو جو میری رگ جاں سے بھی قریب ہو۔ انہوں نے محسوس تو کیا کہ میں بے چین ہوں، کچھ پریشان ہوں، کچھ رنجیدہ ہوں، کچھ اداس ہوں، مگر خاموشی سے درگزر کر گئے۔ کل شام کو کہنے لگے، چلو انجم، آج کھانا کہیں باہر کھائیں گے۔ فورسیزن کا کھانا ہمیشہ کی طرح اچھا تھا۔ ہر چیز ہمیشہ کی طرح قرینے سے پکی ہوئی تھی۔

ابو عادت کے مطابق دنیا جہان کی باتیں کر رہے تھے مگر میں نے تمہاری کمی شدت سے محسوس کی۔ محسوس تو ابو بھی کر رہے تھے کہ کوئی انہیں ٹوک نہیں رہا تھا، کوئی ان سے اتفاق نہیں کر رہا تھا، کوئی ان سے بحث نہیں کر رہا تھا مگر پھر بھی وہ بولتے رہے، اسی طرح سے اپنی عادت کے مطابق۔ بزنس کی باتیں، امپورٹ ایکسپورٹ کا قصہ، کسی عربی شیخ سے کسی بزنس کا مسئلہ، سیاست کے پیچ و خم، افغانستان اور کیوبا کی باتیں، ایل سلویڈور اور ساؤتھ افریقہ کی سیاست، اسلام اور سوشلزم کا سلسلہ۔ ہر بات وہی تھی۔ ہر بات وہی ہے عامر، مگر تم نہیں ہو۔

رات کو آصف کا فون آیا وہ اگلے ہفتے کراچی آئے گا۔

ارے ایک بات تو میں لکھنا بھول ہی گئی کہ جس روز تم گئے اس کے دوسرے دن جب میں کالج نہیں گئی تھی تو جنرل جہاں زیب کالج آیا تھا۔ صوبے کی گورنری کے پورے کروفر کے ساتھ۔ لوگوں نے اس کے گاڑی کے پہیے کی ہوا نکال دی اور اس کے سامنے کھڑے ہو کر ضیا کتا ہائے ہائے اور نہ جانے کیا کیا نعرے لگاتے رہے۔ یہاں تک کے اسے کالج سے بھاگنا پڑ گیا۔ کاش اس روز میں کالج میں ہوتی تو تمہیں آنکھوں دیکھا حال لکھ بھیجتی۔ بڑا ذلیل ہوا یہ شخص اس دن۔ پھر بھی غیرت نہیں آتی ہے فوجیوں کو۔ ابو کو بھی کسی سے پتہ لگا تھا، پریشان تو ہوئے مگر خوش تھے کہ میں اس روز کالج نہیں گئی تھی۔ میری سمجھ میں نہیں آتا ہے کہ ابی کے محبت و نفرت کے اس عجیب اظہار کو میں کس خانے میں فٹ کروں؟

سب تم کو یاد کرتے ہیں۔ اپنا خیال رکھنا۔
انجم
کراچی 30 مئی 81 ء
٭٭٭٭ ٭٭٭٭
عامر

تمہارا خط ملا۔ بار بار پڑھا۔ پھر بھی دل چاہتا ہے کہ پھر پڑھوں۔ یہ خط لکھنا شروع کیا تو پھر تین دفعہ حرف بحرف خط پڑھ ڈالا شروع سے آخر تک۔ تمہارا خط یہ احساس دلا رہا ہے کہ تم دور تو ضرور ہو مگر ساتھ ساتھ موجود ہو، اسی طرح سے جیسے یہاں تھے۔

اخباروں اور بی بی سی سے پتہ لگ گیا ہوگا کہ ایک نیا قانون بنا ہے جس کی رو سے تمام اخبارات پر سنسر لگادیا گیا ہے۔ اخبار بالکل بے جان ہو کر رہ گئے ہیں۔ اس عالم میں بھی ان بازاری اخباروں میں، جو تمہارے ہاتھ میں ہوتے تھے اب بھی کچھ نہ کچھ ڈھکے چھپے انداز میں ہوتا ہے۔ رہا ”جنگ“ تو اس کا وہی رنگ ہے جو حکومت کا ڈھنگ ہے۔ مالکوں کا انداز بھی خوشامدانہ ہے اور جو صحافی ہیں ان کو بھی اپنے خاندان کو پالنا ہے۔ ضیاء الحق زندہ باد۔

تمہیں PLAB کی تاریخ مل گئی ہے، بڑی اچھی بات ہے۔ ایک دفعہ امتحان پاس کر لو گے تو نوکری بھی مل جائے گی اور بہت سارے مسئلوں کا حل بھی یہی ہے، میری دعائیں تمہارے ساتھ ہیں۔ آصف آج کل آیا ہوا ہے اور گھر میں ہر وقت چیخ پکار رہتی ہے۔ اس نے اپنا کاروبار ابوظہبی میں جما لیا ہے۔ ابی بڑے مطمئن ہیں کہ بیٹی اگر میری طرح نہیں سوچتی ہے تو نہ سوچے، بیٹا تو بالکل ہی اپنا ہے۔ دن رات آصف کے دوست گھر میں جمے رہتے ہیں اور خوب شور شرابا رہتا ہے۔ کل بڑی اچھی پارٹی تھی رات کو، وہی تمام پرانے دوست جمع تھے۔ وہی گانے، وہی غزلیں، وہی باتیں، وہی قصے اور جو کمی تھی تو تمہاری تھی۔ تم اچھے تو ہونا؟ فکر نہ کرنا، میں بھی اچھی ہوں۔ خوش ہوں۔ ٹھیک ہوں۔ وقت کا کیا ہے، گزر جائے گا۔ وقت کا کیا ہے گزر جاتا ہے۔

انجم
کراچی 26 جولائی 1981 ء
٭٭٭٭ ٭٭٭٭
عامر

شام کو گھر پہنچی تو تمہارا مسکراتا ہوا ایروگرام ملا، ایسا لگا جیسے دن بھر کی تھکاوٹ ختم ہو گئی ہے۔ تمہاری مسکراتی ہوئی تحریر اسی طرح سے جوان ہے عامر۔ نئے لوگوں میں تم خوش ہو، بڑی خوشی ہوئی پڑھ کر۔ تم نسیم کے ہسپتال میں attachement کر رہے ہو یہ بڑی اچھی بات ہے۔ اس سے پلیب پاس کرنے میں مدد ملے گی۔ تم مجھ سے بہتر سمجھتے ہو۔ جو کچھ تم نے ہسپتال کے بارے میں لکھا ہے اس کو پڑھ کر صرف اپنے لوگوں کی بے چارگی، بدقسمتی پر رونا آتا ہے۔ کتنے خوش ہیں وہ لوگ جنہیں موت بھی اطمینان کی نصیب ہوتی ہے۔ نہ جانے کب وہ دن آئے گا جب ہمارے ملک میں بھی غریب کو عزت سے جینے اور مرنے کا حق ملے گا۔ تم ٹھیک کہتے ہو، ایک دن ضرور انصاف ہوگا۔ حساب ہوگا۔

کالج میں سب ٹھیک چل رہا ہے۔ پوسٹنگ جاری ہے۔ آج کل میڈیکل وارڈ میں پوسٹنگ ہے۔ صبح کلاس ہوتی ہے وارڈ میں۔ پھر تھیوری کی کلاسیں، پھر وارڈ کا کام۔ اسی میں وقت نکل جاتا ہے اور تھکی ہوئی شام ٹیلی ویژن کے سامنے گزر جاتی ہے۔ سوچ رہی ہوں کچھ پڑھائی شروع کردوں کہ اب امتحان میں کچھ ہی مہینے رہ گئے ہیں۔

سلمیٰ اور ناہید کل آئی تھیں۔ رات گئے تک بات کرتے رہے ہم لوگ، وہی دنیا جہان کی باتیں جن سے تمہیں چڑھ تھی۔

بے نظیر کو پھر گرفتار کر لیا گیا ہے اور گیارہ لوگوں کو کوڑوں کی سزا دی گئی ہے جو صدر میں کوئی جلوس نکالنے کی کوشش کر رہے تھے۔ پریس کلب میں مارشل لاء کے خلاف جلسہ تھا۔ لڑکے بتا رہے تھے کہ حبیب جالب نے خوب سنایا کہ بندے کو خدا اور صرصر کو ضیاء کیا کہنا، کراچی میں تو کچھ ہو بھی رہا ہے مگر باقی تمام ملک میں خاموشی ہے۔ حبیب جالب کی نظم ساتھ بھیج رہی ہوں۔

آصف اور ابی آج کل کسی کارخانے کے سلسلے میں بری طرح مصروف ہیں۔ رات کے کھانے پر تھوڑی دیر کے لیے ملاقات ہوتی ہے، پھر تمام رات اکیلی مختلف خیالوں اور سوچوں میں گزر جاتی ہے۔

تم تو اچھے ہونا؟ اپنا خیال رکھنا۔ تمہاری کامیابی کے لیے ہر وقت دل میں ایک لو سی جلتی رہتی ہے۔
انجم
کراچی 27 جولائی 1981 ء
٭٭٭٭ ٭٭٭٭
عامر

بیڈ نمبر 41۔ یہ ایک مریض تھا۔ ذوالفقار، 24 سال کا ہوگا پچھلے ہفتے کی او پی ڈی سے ڈاکٹر حمید نے اسے داخل کیا تھا۔ تمام جسم کے غدود (Lymph Nodes) پھولے ہوئے تھے۔ دوسرے دن ہی تشخیص ہو گئی تھی کہ لیو کیمیا ہے۔ کل وہ ہم لوگوں کے سامنے ہی مر گیا۔ وارڈ کے ساتھ ہی ورانڈے میں اس کے ماں اور باپ کھڑے تھے۔ نو بھائی بہنوں میں وہ سب سے بڑا تھا۔ برنس روڈ پر کہیں ٹھیلا لگاتا تھا اور خاندان کی گاڑی چلاتا تھا۔ بوڑھا باپ اور بوڑھی ماں کے جس طرح سے آنسو نکل رہے تھے، جس طرح سے وہ بلک بلک کے رو رہے تھے، جس پریشانی سے اپنے ہاتھوں کو مل رہے تھے کاش میں اس کو بیان کر سکتی۔

عامر میری سمجھ میں نہیں آتا کہ قدرت کی کیا مصلحت تھی اس جوان کی موت میں۔ وہ ماں جس نے نو ماہ تک اسے اپنی کوکھ سے اپنا خون پلا پلا ٹر جنم دیا تھا، پھر اپنے ارمانوں کی اینٹ اور گارے مٹی سے مستقبل کی دیوار کو چنا تھا، وہ یکایک کسی خیراتی ادارے میں، کسی سرکاری ہسپتال میں دم توڑ دیتا ہے۔ آرزوئیں، خواہشیں، تمنائیں خواب سب بکھر جاتے ہیں کسی ٹوٹی ہوئی مالا کے دانے کی طرح۔ مجھ سے وہاں کھڑا نہیں ہوا گیا تھا۔ آنسو جس طرح سے نکلے تھے ان کی بے بسی پر کہ بیان نہیں کر سکتی ہوں۔ سسٹر ممتاز بہت دیر تک مجھے سمجھاتی رہی تھی۔ سیما کہہ رہی تھی کہ تمہارا دل چھوٹا ہے۔ پتہ نہیں چھوٹا ہے کہ بڑا، مگر دھڑکتا ہے، تڑپتا ہے اور کڑھتا ہے تو آنسو نکل ہی آتے ہیں۔ آنسوؤں پر کوئی اختیار نہیں ہے۔ کاش عامر میں سمجھ سکتی دنیا، زمانہ، وقت اور کائنات کے اصول!

چلو چھوڑو، کن باتوں میں الجھ گئی۔ تم بھی سوچتے ہو گے انجم کے خط تو بور ہوتے جا رہے ہیں، مگر میں کیا کروں تمہیں نہ لکھوں تو کسے لکھوں؟ سیما کا دل بڑا ہے، ابو اور آصف کے پاس وقت نہیں ہے اور کوئی دوسرا میرے پاس ہے ہی نہیں۔ ماں جیسی نعمت سے محروم ہوں کہ جس کی گود میں سر رکھ کر رو لیتی۔ ایک تم ہو جو میرے قریب ہو۔ بہت قریب۔ تم سے بہت کچھ کہہ سکتی ہوں۔ تمہاری سب کچھ سن سکتی ہوں۔ تم میرے سب کچھ ہو۔ اپنا خیال رکھنا عامر۔ تمہارا امتحان بھی قریب ہے۔ تم میری دعاؤں میں ہو گے۔

تمہاری انجم
٭٭٭٭ ٭٭٭٭
کراچی 5 اگست 1981 ء
عامر

تمہارا خط ملا، ہمیشہ کی طرح سلجھا ہوا، تمہاری بات درست ہے۔ موت و حیات کے جس معمے کو گوتم بدھ سے آئن اسٹائن تک کوئی بھی حل نہ کر سکا اس کو میں کیا حل کروں گی، مگر عامر کبھی کبھی دل کے اندر ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے کوئی خلا ہو، ایک بحر کراں، ایک کائنات لا انتہا اور جب کبھی اس خلا اور اس تنہائی کا احساس ہوتا ہے تو ایسا درد اٹھتا ہے جسے صرف محسوس کیا جاسکتا ہے بیان نہیں کیا جاسکتا۔

کالج کا وہی حال ہے اور ملک کا برا حال۔ پیپلز پارٹی کے چھوٹے چھوٹے لوگوں سے جیل بھر رہے ہیں۔ جس کو پھانسی لگادی گئی اسے اپنا لیڈر کہنے والے بڑے لوگ دوسری تیسری شادیاں رچا رہے ہیں۔ شکر کے کارخانے کھول رہے ہیں، ضیاء الحق کے سفیر بن رہے ہیں۔ اس کے ساتھ حج اور عمرہ کر رہے ہیں۔ تم سچ کہتے ہو، اسلام کا نام لینے والی تمام جماعتیں نہ جانے کس اسلامی اصول کے تحت ایک ایسے آدمی کے ساتھ ہیں جو جھوٹا ہے، کاذب ہے اور غاصب ہے۔ مجھے تو اپنے ملک کی ہر چیز مذاق لگتی ہے۔ یہ بڑے بڑے چوغے پہنے ہوئے جج یا تمغے لگائے ہوئے جنرل۔ یہ ایسے کارٹون ہیں جن پر ہنسی بھی نہیں آتی ہے۔

آصف اگلے ہفتے واپس جا رہا ہے۔ ہم لوگوں کی پوسٹنگ ختم ہو رہی ہے اور امتحان کے لیے پڑھائی ہو رہی ہے۔ وہی شب و روز ہیں، وہی کتابیں، وہی نوٹس اور امتحان کا خوف۔

تم کیسے ہو، تمہارے امتحانوں کے لیے ہر وقت دعاگو ہوں۔ اپنا خیال رکھنا۔
انجم
کراچی 10 اکتوبر 1981 ء

مزید پڑھنے کے لیے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیں

ڈاکٹر شیر شاہ سید
Latest posts by ڈاکٹر شیر شاہ سید (see all)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2 3 4

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments