صحافت کا سفر
آج 32 برس بیت گئے۔ مئی 1989 میں صحافت کے شعبہ میں قدم رکھا۔ ہمیشہ ذکر کرتا ہوں میرے استاد حسین نقی نے ترغیب دی۔ وہ ایک پیشہ ور صحافی کے ساتھ ساتھ ایک ایماندار اور مخلص انسان ہیں۔ خبر کی تلاش اور بنانے کے عمل میں کسی قسم کی بددیانتی کی حوصلہ شکنی کرتے رہے۔ سچ اور حق بات کرنے سے کبھی روگردانی کا تصور بھی ممکن نہیں۔
اس سفر کا آغاز پنجابی کے پہلے اخبار سجن سے کیا۔ صحافت اور زبان کے شعبے سے وابستہ بڑے ناموں کے ساتھ کام کرنے کا موقع ملا۔ نجم حسین سید۔ شفقت تنویر مرزا۔ ظفریاب احمد۔ راجہ رسالو۔ اور کئی معتبر شخصیات نے ہم جیسے نوآموز نوجوانوں کی انگلی پکڑی۔
روزنامہ جنگ میرا اگلا پڑاؤ تھا جہاں ایک دہائی سے زائد عرصہ بارہ سال نیوز روم میں بیٹھ کر تمام قابل ذکر شعبوں کے لئے فرائض انجام دیے۔
آج کی تحریر کا مقصد کچھ تجربات کا تبادلہ کرنا ہے۔ ابلاغ کے عمل میں بنیادی بات سیکھی وہ اس کا درست ہونا تھا۔ لیکن کسی ایک کی کہی درست بات کبھی دوسرے کے لئے کوئی اور معنی رکھتی ہے۔ تصدیق کے مروجہ تقاضے کبھی مکمل کیے بغیر خبر آگے نہیں بڑھتی تھی۔ ذرا سا شبہ ہونے پر اسے روک لیا جاتا۔ سنسنی خیز خبروں کو شجر ممنوعہ خیال کیا جاتا تھا۔ الفاظ کا چناؤ ایسا ہوتا کہ قاری کے لئے توجہ کا باعث بنتی۔ اختصار بیانی بھی ملحوظ رکھی جاتی۔ خبر میں ذرا سی جھول یا کسی بھی نوعیت کا کمزور حوالہ سینئرز کی سرزنش پر انجام پذیر ہوتا۔
یہ سلسلہ اچانک منقطع ہو گیا جب ٹی وی چینل آئے اور بظاہر اصول وہی بتائے مگر کام سنسنی پھیلانا اور کسی تصدیق کی پروا تک نہ کرنا صرف ایک میراتھن لگی ہے۔ پہلے میں اور سب سے آگے۔ اب ساکھ نہیں ریٹنگ کا خیال رکھا جاتا ہے۔
تازہ ترین سوشل میڈیا کا رجحان دیکھا جاتا ہے۔ درست کی کوئی پروا نہیں۔ لائیکس اور ہٹس دیکھی جاتی ہیں
صحافت درمیان میں سے نکل گئی۔ خبر اور ساکھ بھی خاک میں مل گئی۔ سفر کا اختتام اچھا نہیں۔ پیچھے مر کر دیکھتا ہوں تو اطمینان ہوتا ہے آگے کا سوچ کر پریشانی ہوتی ہے۔
- ضد لے ڈوبے گی - 06/02/2024
- جمہوریت اور لوگوں کی رائے - 25/01/2024
- کیا 8 فروری کی تاریخ پتھر پر لکیر ہے؟ - 06/01/2024
Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).