زندگی میں سکون چاہیے یا ڈبل بیڈ؟


آپ ڈبل بیڈ پہ کیوں سوتے ہیں؟ سٹیٹس سمبل ہے، عام بات ہے یا پھر اس سے ہٹ کے سوچا ہی نہیں جا سکتا؟
بے شک کنوارے بندے کا خواب ہو سکتا ہے ایک ڈبل بیڈ جس کے ساتھ تمام لوازمات بھی شامل ہوں لیکن، سوال یہ کہ ڈبل ہی بیڈ کیوں؟

ابھی پچاس ساٹھ برس پہلے تک تو نہیں ہوتا تھا یہ گھروں میں۔ تب کوئی جوڑا کیسے سوتا تھا؟ چارپائیاں ملا کر یا بہت ماڈرن ہیں تو سنگل بیڈ کو جوڑ لیتے تھے۔ اس میں دو تین انچ کا فاصلہ ضرور ہوتا تھا۔

یہ دو تین انچ جو ہیں، یہ ساری کہانی ہے۔

باہر ملک کے موسم اور ہیں، ان کے مسائل دوسرے ہیں، شہروں کے تنگ گھر، سرد موسم، سب کے لیے الگ کمرے چاہے بہت چھوٹے ہی کیوں نہ ہوں، پھر سب سے بڑھ کر ایک ایسی تہذیب جو بہرحال ان کے لیے اب بالکل نارمل ہے۔ جیسے دودھ ابالنے کے بعد ملائی نہ اترے تو ہماری جو بھی فیلنگ ہوتی ہے، ان کے لیے کسی کپل کے پاس ڈبل بیڈ نہ ہونا اسی طرح غیر معمولی بات ہے۔

ہمیں کیا ہوا تھا بھئی، سال میں آٹھ مہینے گرمی کے، نیچے موٹا فوم اور دو انسان جو ایک ہی بستر پہ سوئیں گے، کیوں؟ اب غور کرتے ہیں کہ اس میں پریشانیاں کیا ہیں۔

سب سے پہلی چیز باڈی ہیٹ۔ دو جانداروں کو ایک دوسرے کے جسم کی حرارت ہی مار دیتی ہے۔ آپ کروٹیں بدلیں، اے سی تیز چلائیں، کولر کمرے کے اندر لے آئیں لیکن سونے کا طریقہ کوئی اور نہیں ہو سکتا کیونکہ اس میں ساری دنیا آپ کے خلاف ہو جائے گی، لوگ ادھر ادھر سے پوچھیں گے سب خیر تو ہے؟

ایک بندے کو چاہیے کمبل، ایک مانگتا ہے کہ چادر ہو، ادھر پہلا پھڈا پڑے گا کہ تم نے الگ چادر مانگی کیسے؟ سمجھنے کی کوشش کیجے گا، باقاعدہ برا شگن مانا جائے گا۔ پھر وہی پنکھا تیز یا آہستہ کرنے کے رپھڑ ہوں گے کہ سونا تو عین اسی پانچ ساڑھے پانچ فٹ کی چوڑائی میں ہے۔ جو بحث میں جیت گیا اس نے پنکھا اپنے حساب سے کرنا ہے اور سو جانا ہے، دوسرا کیا کرے؟ سوئے!

ایک کی نیند ہلکی ہے، وہ بیڈ ہلنے سے جاگ جاتا ہے، پارٹنر جو ہے وہ نیند کا چیتا ہے۔ اب جس کی نیند اچھی ہے وہ جتنا مرضی سوئے لیکن جس کی نیند کچی، وہ گیا کام سے۔ یا تو ڈالیں بچپن سے عادت کہ اولاد شور میں سو جاتی ہو، نہیں ڈالتے تو ڈبل بیڈ امتحان ہے۔

آپ کو سوتی چادر پسند ہے، مجھے ہو سکتا ہے ریشمی اچھی لگتی ہو، کسی نے کھیس ڈالنا ہے، کوئی فوم پہ کسا ہوا کور چاہتا ہے۔ یہاں بھی ایک بندے کی سنی جائے گی دوسرا چاہے لوٹتا رہے۔

عام طور پہ ہر ڈبل بیڈ کی وہ سائیڈ افضل سمجھی جاتی ہے جو کمرے میں دروازے سے قریب ہو۔ وہ لازماً اس کی ہو گی جو فریق طاقتور ہے، یہ بھی ایک رولا ہے۔ جو بے چارہ کمزور ہے وہ پورے بیڈ کا طواف کر کے باہر نکلے کا اور انشااللہ پندرہ بیس سال ٹھڈے کھانے کے بعد بھی اسے بیڈ کے کونے نہیں یاد ہونے والے، اور یہ بات وہ بالکل نہیں سمجھے گا جس نے دروازے والی سائیڈ ملی ہوئی ہے۔

پرائیویسی۔ یہ کانچ جیسا نازک سوال آ گیا۔ بھئی جوڑا ہے، پرائیویسی کیا؟ لیکن آخر آپ کتنی چیزیں شیئر کر سکتے ہیں؟ آپ کیا لکھ رہے ہیں، کیا پڑھ رہے ہیں، اونچی آواز میں کون سا دفتری وائس نوٹ سن رہے ہیں، کہاں تک؟ اور ایک ہی بیڈ پہ ایک انسان کو گانے سننے ہیں، دوسرا فلم دیکھنا چاہتا ہے اپنے موبائل پر تو کون کب تک کمپرومائز کرے گا؟ کہا جا سکتا ہے کہ یہ مسئلہ تو الگ الگ دو پلنگوں پر بھی ہو گا؟ نہیں ہو گا، کبھی چیک کریں۔ خالی چوڑائی ناپ لیں تو دو معزز انسان سکون سے اپنی زندگی گزار سکتے ہیں۔

بعض لوگ ہاتھ پیر کھلے چھوڑ کے سوتے ہیں بعض کو سمٹ کے سونے کی عادت ہے، جو سمٹنے والا ہے وہ غریب صبح تک ایک کونے پہ پایا جانا ہے، پورے بیڈ پہ ناچنے والا ساڑھے پانچ فٹ بھی ہو تو چار فٹ چوڑائی لے جاتا ہے آرام سے۔ تو کوئی بھی ایک فریق آخر کیوں سوئے بے آرامی سے اور وہ بھی ساری زندگی؟

پھر سب سے بڑی چیز کہ جو انسان نوکری کر کے آئے گا وہ چاہے گا کپڑے جوتے بھی نہ اتارے بس ڈھیر ہو جائے، ہاں وہ جرابیں ضرور اتارے گا۔ اس کے بعد بھی حالات بعض اوقات تکلیف دہ ہوتے ہیں۔ اپنے بیڈ روم میں اپنے بستر پہ آپ پاؤں دھو کے یا خوشبو لگا کے آخر کیوں جائیں گے؟ لیکن یار، دوسرا غریب کیا کرے جو ہو سکتا ہے آپ کی خاطر پوری تیاری سے اسی بیڈ پہ براجمان ہو۔ اسے کس چیز کی سزا ملتی ہے؟ بستر دونوں کا ہے، ایک کو صاف چاہیے دوسرے کو بس جگہ چاہیے۔

ایک انسان نخرے والا ہوتا ہے، چادر سرہانے کی طرف سے نکلی ہوئی کیوں ہے، ٹھیک سے کیوں نہیں بچھی۔ دوسرا نارمل ہے، وہ آرام سے لیٹ جائے گا اور وہ ٹھیک ہے، قصور نخروں والے کا ہے لیکن اب ہو گا کیا، موڈ بھی اس کا خراب ہو گا جس کا نخرہ ہے۔ بھائی تم خود ٹھیک کر لو پورا بیڈ، ٹینشن کیوں مچاتے ہو؟ تو اس طرح سزا پورا گھر بھگتے گا۔

اس سب دھندے سے جان چھڑانی ہے تو کمرے میں دو بیڈز والا سین واپس لانا ہو گا۔ بھلے ساتھ ملا کے رکھیں بھائی، کوئی دو ہنسوں کے جوڑے کو نہیں چھیڑ رہا لیکن دیکھیں کہ زندگی کیسے سکون ڈاٹ کام بنتی ہے۔

سوچیں، نہ پلنگ ہلے جلے، نہ چادر بے سری ہو، نہ کمبل موٹے پتلے کی پریشانی ہو، فوم ڈالنا ہے ڈالیں ورنہ روئی کا گدا زندہ باد، پورا لیپ ٹاپ بستر پہ رکھیں، کھانا بھی وہیں کھائیں، میلے کپڑے بھی پائنتی پہ ڈالیں، موزے اتار کے ویسے ہی گھس جائیں بستر میں، اگر بیڈز میں فاصلہ زیادہ ہے تو دروازہ اور واش روم بھی اچھی رسائی میں آ جائے گا۔ مطلب ہر وہ کام جس کا تصور آپ نے جشن آزادی سے جوڑا ہو ہے وہ صرف ایک الگ بیڈ کی دوری پہ ہے۔

شرط یہ ہے کہ دونوں فریقین راضی ہوں۔ ڈبل بیڈ والا ہر کام آپ سنگل بیڈ پہ کر سکتے ہیں لیکن اس میں ہو گا کیا کہ تاحیات جو خواہ مخواہ کے آپ کمپرومائز کرتے ہیں ان میں سے کچھ چیزیں کم ہو جائیں گی۔ ایک دوسرے کی شاید قدر تھوڑی زیادہ ہو جائے اور نیند اچھی آئی تو پھڈے بھی کم ہوں گے۔

جس نے ماننا ہے اس نے ابھی سے دماغ میں نقشے بنا لیے ہوں گے جسے سمجھ نہیں آئی وہ بھی مجبور ہے۔
خیر ہو سب کی، باوا جی سیالکوٹ!

یہ کالم سب سے پہلے انڈی پینڈنٹ اردو کی ویب سائٹ پر شائع ہوا تھا۔

حسنین جمال

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

حسنین جمال

حسنین جمال کسی شعبے کی مہارت کا دعویٰ نہیں رکھتے۔ بس ویسے ہی لکھتے رہتے ہیں۔ ان سے رابطے میں کوئی رکاوٹ حائل نہیں۔ آپ جب چاہے رابطہ کیجیے۔

husnain has 496 posts and counting.See all posts by husnain

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments