عامر لیاقت، مفتی عبدالقوی اور ایم ٹی جے


اپنے آپ کو مقبول اور اٹینشن آئیکون بنانا کوئی آسان کام نہیں ہوتا اور خود کو برانڈ اسٹیٹس دلانے کے لیے بہت سے اللے تللے کرنا پڑتے ہیں، اس کے لیے شعبدہ بازی اور چرب زبانی بہت ضروری ہوتی ہے۔ اس کے علاوہ خود کو مقبول بنانے میں مذہبی شباہت یا مذہبی سند ایک پروٹیکٹو شیلڈ کا کام کرتی ہے اس مقدس حفاظتی حصار میں آپ کو بہت کچھ کہنے اور کرنے کی مکمل آزادی حاصل ہوجاتی ہے اور آپ کی مقبولیت کے گراف میں بھی کوئی کمی نہیں آتی بلکہ معاشرہ آپ کو مذہبی شناخت و شباہت کی وجہ سے شک کے فائدہ کی صورت میں خصوصی رعائت سے نوازتا رہتا ہے۔

اسی معاشرتی اسپیس اور قبولیت کی وجہ سے آج کل عامر لیاقت اور ایم۔ ٹی جے برانڈ فیوض و برکات سمیٹ رہیں ہیں، عامر لیاقت کا ناگن ڈانس، تیسری شادی کی شنید اور خواتین کے ساتھ گفتگو کا معیار اس کے علاوہ مولانا طارق جمیل برانڈ کی مہنگی ترین مصنوعات اور خاص طور پر ”ناڑوں“ کا آج کل بہت چرچا ہو رہا ہے۔ مفتی عبدالقوی کی رنگ بازیاں مختلف خواتین کے ساتھ سوشل میڈیا پر اکثر وائرل ہوتی رہتی ہیں۔ سوشل میڈیا کے اس جدید دور میں یہ کلاس بخوبی جانتی ہے کہ پاپولیرٹی اسٹنٹ کیا ہوتا ہے اور اپنے اسٹیٹس گراف کو دنوں میں اوپر کیسے لے جایا جاسکتا ہے، سوشل میڈیا اور مختلف پرائیویٹ چینلز کے اس دور میں یہ وہ ہر کردار نبھا سکتے ہیں جس کی ڈیمانڈ ہوتی ہے۔

عامر لیاقت کو دیکھ لیجیے یہ شخص ڈیمانڈ کے مطابق پرسونا ماسک پہن کر اسٹیج پر پرفارم کرنے آ جاتا ہے، کبھی عالم آن لائن کی صورت میں، کبھی رقت آمیز دعا کی صورت میں، کبھی ذاکر کے روپ میں اور کبھی انٹرٹینر کی صورت میں سامنے آتا رہتا ہے، آل راؤنڈر قسم کی شعبدہ بازی کے باوجود ان کا مذہب خطرے میں نہیں پڑتا اور نہ ہی دائرہ مذہب سے فارغ ہوتے ہیں اور ویسے بھی کون اس کی جراءت کر سکتا ہے کیونکہ مذہب پر تو صرف انہی لوگوں کی اجارہ داری ہے۔

دوسری طرف مفتی عبدالقوی جو اپنی حرکات و سکنات کے اعتبار سے کافی کھلے ڈھلے اور کشادہ ذہن کے آدمی ہیں اور ٹھرکپن کے بادشاہ ہیں اور کبھی کبھار شراب کی چسکی بھی لگا لیتے ہیں لیکن فکر کوئی بات نہیں ہے کیونکہ ان کے اپنے ذاتی دائرہ مذہب میں ایسی حرکتوں کی گنجائش موجود ہے اور ایمان بھی صحیح سلامت رہتا ہے۔ ایم۔ ٹی جے کے بانی طارق جمیل اپنے انداز فکر میں ایک جداگانہ حیثیت کے مالک ہیں ان کی نازیبا حرکات تو کبھی منظر عام پر نہیں آئیں البتہ اپنی تقاریر میں کبھی کبھی حاضرین کو انٹر ٹین بھی کرتے رہتے ہیں، اپنے نام کا برانڈ لانچ کرنے سے پہلے کا پوائنٹ آف ویو آپ مولانا کی تقاریر سن کر جان سکتے ہیں جس میں وہ اکثر مہنگے ترین برانڈز کی مذمت کیا کرتے تھے اور تاجروں کو مہنگی چیزیں بیچنے پر جہنم کی وعید سنایا کرتے تھے اور کہا کرتے تھے کہ ہمارے ملک کے تاجر بڑے ظالم ہیں 16 روپے کی چیز 48 روپے میں فروخت کرتے ہیں اور شرم بھی نہیں آتی۔

اس کے علاوہ مہنگے جوتے، مہنگے ہینڈ بیگ اور مہنگے ڈریس خریدنے والوں کو 2 ٹکے کے لوگ کہا کرتے تھے مگر جلد انہیں حقیقی اور تصوراتی دنیا کے مابین فرق کا پتہ چل گیا اور انہوں نے اسی 2 ٹکے کی دنیا میں اپنے برانڈ کا شیئر ڈال دیا کیونکہ دنیاوی ترقی کے لیے بھی تگ و دو کرنی پڑتی ہے ایویں مفت میں کچھ نہیں ملتا۔ خیر اپنی سابقہ باتوں کو ایک طرف رکھتے ہوئے مولانا نے ایم۔ ٹی جے برانڈ کا اجراء کر دیا اور اس برانڈ کی لانچنگ تقریب میں بھی کروڑوں خرچ کیے گئے تھے جس میں مہنگے ترین گلوکاروں، اداکاروں کو کمپنی کی مشہوری کے لیے پیشہ ورانہ اصولوں کے عین مطابق پرفارم کرنے کے لیے مدعو کیا گیا تھا مگر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اپنے نقطہ نظر میں اتنی بڑی قلا بازی اور یو ٹرن لینے کے باوجود بھی آپ کی آن بان شان اور ٹھاٹ میں کوئی فرق نہیں پڑتا اور مذہبی ہونے کی وجہ سے وہ معاشرتی سہولت اور رعایت مل جاتی ہے جو آپ اوروں کو دینے کے لیے بالکل بھی تیار نہیں ہوتے۔

ایک سیکولر اور آزاد سوچ رکھنے والے بندے کے منہ سے کچھ بھی ایسا نکل جائے جو آپ کے دائرہ ذہن سے مطابقت نہ رکھتا ہوتو اس پر زمین تنگ کردی جاتی ہے اور طرح طرح کے کفریہ ٹیگ لگا کر اسے بدنام کرنے کی ہر ممکنہ کوشش کی جاتی ہے۔ کیا یہ دوہرا معیار اور دوغلا پن نہیں ہے؟ آپ اپنے دائرہ کار میں کچھ بھی کہیں اور کریں تو آپ کی پوزیشن پر کوئی فرق نہیں پڑتا دوسری طرف کوئی مختلف سوچ رکھنے والا شخص کوئی سوال اٹھائے یا اپنے مختلف نقطہ نظر کا اظہار بھی کر دے تو اسے فوری طور پر دائرہ مذہب سے نکالنے کا فتوٰی جاری کر دیا جاتا ہے۔

کیا یہ تنگ نظری اور توہین انسانیت نہیں ہے؟ آپ کو عارضی دنیا سے نفرت بھی انتہا کی ہے اور پیار بھی انتہا کا ہے مگر ہمیں کوئی اعتراض نہیں ہے لیکن مختلف سوچ رکھنے والے انسانوں کے لیے بھی اپنے موقف میں لچک پیدا کریں۔ اگر آپ عارضی دنیا میں تمغہ امتیاز قبول کر سکتے ہیں تو پھر دوسرے مذاہب اور مختلف نقطہ نظر رکھنے والوں کو بھی قبول کرنے میں کوئی قباحت نہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments