لمحۂ موجود اور جنگلی مرغ


پر امید رہنا خوش رہنے کے لئے لازم ہے اور پر امید رہنے کے لئے لمحۂ موجود میں رہنا ضروری ہے۔ مہاتما بدھ نے کہا تھا؛ ”وہیں رہو جہاں ہو، بصورت دیگر آپ اپنی زندگی کھو دو گے“ ۔ لمحہ موجود میں رہنا بیک وقت سہل بھی ہے مشکل بھی۔ لمحہ موجود میں رہنے کا سیدھا سادہ مطلب یہ ہے کہ اپنے گردوپیش اور اپنی ذات سے گہرے ربط میں جیا جائے۔ ہم اکثر اوقات اپنی پریشانیوں یا اندیشوں میں رہتے ہیں اور اس طرح اپنی ذات اور لمحۂ موجود سے تعلق کھو دیتے ہیں۔ یا تو ماضی میں جو کچھ ہمارے ساتھ ہوا ہوتا ہے، ہم اس میں اپنی سوچ اور فکر کو مقید کر لیتے ہیں یا پھر ہم خود کو مستقبل کے اندیشوں یا سہانے خوابوں میں محصور کر لیتے ہیں۔ چاہے ہم ماضی میں الجھ جائیں یا پھر مستقبل کی فکر میں خود کو غرق کر لیں، دونوں صورتوں میں ہم لمحۂ موجود سے نکل جاتے ہیں۔

ہمارے ارد گرد جو کچھ ہو رہا ہوتا ہے، ہم ان سے بے نیاز ہو کر اپنی زندگی جینا چھوڑ دیتے ہیں۔ اس طرح ہم رو بہ عمل نہیں ہوتے اور ایک قسم کی بیکاری ہمارا محاصرہ کر لیتی ہے۔ نتیجہ اس کا ذہنی تناؤ کی صورت میں نکلتا ہے، ہم اپنے گردوپیش سے نکل کر ایک ایسی دنیا میں چلے جاتے ہیں جہاں ہمارے لئے اضطراب، مایوسی اور احساس رائیگانی کے سوا کچھ نہیں ہوتا۔

آپ ایک کام کریں آپ دو مختلف اوقات کے متعلق سوچیں۔ ایک جب آپ مکمل طور پر لمحۂ موجود میں موجود تھے اور ایک وہ وقت جب آپ لمحۂ موجود سے باہر اپنے تفکرات اور اندیشوں میں گم تھے؟ اب آپ پہلی صورت کے متعلق اپنی یاداشت پر زور ڈالیں، آپ کو اس وقت کی زیادہ تر تفصیلات یاد آ جائیں گی۔ آپ کہاں تھے؟ کس سے ملے؟ کیا دیکھا؟ کیا کہا؟ کیا سنا؟ آپ ان تمام تفصیلات کو اپنے حافظے میں موجود پائیں گے۔ وجہ؟ اس کی سادہ وجہ یہ ہے کہ لمحۂ موجود میں آپ کی موجودگی نے آپ کو اس قابل بنایا کہ آپ زندگی کو ان کی تمام تر خوبصورتی کے ساتھ جی لیں کیونکہ آپ ذہنی طور پر زندہ و بیدار تھے۔

اب آپ وہ وقت یاد کریں جب آپ ذہنی طور پر لمحۂ موجود میں موجود نہیں تھے۔ آپ کو ماضی کی پریشانیوں یا مستقبل کے اندیشوں نے گھیرا تھا۔ شاید آپ مضطرب، ذہنی طور پر برانگیختہ اور اداس تھے یا شاید آپ مستقبل کی منصوبہ بندی میں غرق تھے، آپ شاید خود کو درست ثابت کر رہے تھے یا شاید آپ دوسروں کو الزام دے رہے تھے۔ اب آپ اس وقت کے متعلق وہی سوالات کہ آپ کہاں تھے؟ کس سے ملے؟ کیا دیکھا؟ کیا کہا؟ کیا سنا؟ خود سے پوچھیں تو آپ کو بہ مشکل کچھ یاد آئے گا۔ وجہ؟ ایسا اس لئے ہے کہ آپ جسمانی طور پر لمحۂ موجود میں ہونے کے باوجود ذہنی طور پر کہیں اور تھے، اس لئے آپ اس لمحے کو مکمل طور پر جینے سے قاصر رہے لہذا آپ کو کچھ یاد نہیں آیا۔

پچھلے سال میں اپنے بھائی جیسے دوست زمان اقبال کے وطن شانگلہ میں تھا۔ چاروں طرف سے بلند و بالا اور سر سبز و شاداب پہاڑوں میں گھرا شانگلہ واقعی جنت کا ایک ٹکڑا ہے۔ میں ان دنوں ٹک نا ہاں کی ایک کتاب کا ترجمہ کر رہا تھا۔ کتاب کی سحر انگیز اور تفکر آمیز خیالات اور شانگلہ کی دل موہ لینے والی خوبصورتی نے مجھے اس قابل بنایا کہ لمحۂ موجود میں زیادہ سے زیادہ وقت گزار سکوں۔ آپ یقین کریں میرا اپنے سانسوں پر اعتماد بڑھا۔

زندگی کو اس کی تمام تر بوقلمونیوں کے ساتھ محسوس کیا۔ انہی دنوں ایک دفعہ میں اپنے بیٹے اسید کے ہمراہ پہاڑ کے دامن میں چہل قدمی کر رہا تھا۔ کسی لمحے میں ماضی کے ایک ناخوشگوار واقعے میں کھو کر لمحۂ موجود سے نکل گیا۔ اسید مجھ سے چند قدم آگے جا رہا تھا، اچانک اسید نے پیچھے دیکھا اور خوشگوار حیرت کے ساتھ میرے دائیں جانب اشارہ کرتے ہوئے یک دم بولا ”اللہ بابا“ ۔ میں نے چونک کر اس طرف دیکھا جہاں اسید میری توجہ مبذول کرانا چاہتا تھا۔

کچھ نہ پا کر میں نے اسید کی طرف سوالیہ نظروں سے دیکھا۔ اسید اس طرف بھاگتے ہوئے بولا ”بابا جوڑ زنگلی چرگ وو“ ۔ (بابا شاید جنگلی مرغ تھا) ۔ میں ہر روز اس طرف نکلتا تو خواہش ہوتی کہ کہیں جنگلی مرغ دکھائی دے کیونکہ ایک مقامی بندے نے ہمیں اس جگہ جنگلی مرغوں کی موجودگی کا بتایا تھا۔ لمحۂ موجود میں غیر موجودگی نے مجھے اس منظر سے یکسر محروم کر دیا جس کو دیکھنے کی دلی خواہش آج بھی موجود ہے۔

شانگلہ سے یاد آیا۔ پچھلے سال گرمیوں میں ہم زمان کی دعوت پر وہاں تھے۔ زمان کے بڑے بھائی جنہیں ہم کالج دا کہتے تھے، نے کئی بار ہماری دعوت کی۔ من موہنی صورت، چمکتی آنکھیں اور زندگی سے بھر پور کالج دا کی مسکراہٹ اب نہ رہی کہ مرحوم ایک مہینہ ہو چکا، راہ عدم ہوئے۔ اللہ ان کے درجات بلند کرے، ان کے بچھڑنے کا غم دل کو بری طرح لگا ہے لیکن جب بھی ان کی یاد آتی ہے، اپنے غم پر قابو پا لیتا ہوں کہ لمحہ موجود میں میری موجودگی نے ان کی سہانی یادیں مجھے عطا کی تھیں۔ کالج دا خود بھی لمحۂ موجود میں زندگی گزارنے والے انسان تھے، تب ہی تو پورے شانگلہ نے ان کے بچھڑنے کا غم محسوس کیا تھا۔ کالج دا سے پچھلے سال کی ملاقاتوں میں اگر میں لمحۂ موجود سے ناتا توڑ دیتا تو یقین جانئیے آج میرا غم کئی گنا زیادہ ہوتا کیونکہ میرے پاس ان کی خوشگوار یادیں نہ ہوتیں۔

لمحۂ موجود سے غیر حاضری ہمیں اپنے ارد گرد وقوع پذیر ہونے والے واقعات سے الگ کر لیتی ہے اور اس طرح ہم زندگی سے محروم ہو جاتے ہیں۔ لمحۂ موجود میں ہماری موجودگی سے زندگی ہم پر وہ سب چیزیں آشکار کر لیتی ہے جو اس کے دامن میں ہمہ وقت موجود ہوتی ہیں۔ مجھے شام میں پرندوں کا شور ایک بھرپور طمانیت سے نوازتا ہے۔ بسا اوقات جب میں اپنے کمرے میں بیٹھا ہوتا ہوں اور شام کا وقت گزر جاتا ہے تو ایک احساس محرومی مجھے گھیر لیتا ہے، ہوں لگتا ہے کہ فطرت نے نہایت اہتمام سے جو طمانیت میری طرف روانہ کی تھی میں نے اسے درخور اعتنا نہ سمجھ کر خود کو اس سے محروم کر لیا۔

لمحۂ موجود میں رہنا ہمیں ’میں‘ اور ’میرا‘ جیسے احساسات سے پرے لے جاتا ہے، یہ چیزیں زندگی کی وسعت اور کشادگی میں کہیں کھو جاتی ہیں۔ آپ مادہ پرستی سے دور جا کر روحانیت کی دولت سے آشنا ہوتے ہیں، آپ تقویت پاتے ہیں اور زندگی کے معنی اپنی تمام تر وسعت اور ہمہ جہتی کے ساتھ آپ کے سامنے آ جاتے ہیں۔ آپ کو اپنے وجود کا احساس ہوتا ہے اور رائیگاں جانے کا احساس زائل ہو جاتا ہے اور یوں آپ پر امید رہتے ہیں ؛ زندگی بھلا امید کے سوا اور کیا ہے؟

لمحۂ موجود میں جینے سے آپ اپنے اندر امید کی فصل کاشت کرتے ہیں اور آپ آمادہ عمل رہتے ہیں۔ آپ بہتر طرز عمل کا انتخاب کرتے ہیں جس سے آپ کی افادیت آپ کی اپنی ذات اور گردوپیش کے لئے بڑھ جاتی ہے۔ ماضی کے متعلق آپ فقط یہ سوچتے ہیں جو آپ نے کیا۔ یہ درست کیا یہ غلط ہوا، ایسا نہیں ہونا چاہیے تھا ایسا ہونا چاہیے تھا۔ مستقبل کے بارے میں سوچتے ہوئے آپ صرف یہ سوچ سکتے ہیں کہ آپ کیا کریں گے، یہ کریں گے تو ایسا ہوگا۔ یہ فقط لمحہ موجود ہے جو آپ کو عملی طور پر کچھ کرنے کی فراوانی عطا کرتا ہے اور یوں آپ اپنی پر امیدی کو عمل میں متشکل ہوتے ہوئے دیکھتے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments