کیا مرد ماضی کی ذہنی زنجیروں سے آزاد ہو سکتے ہیں؟


میں نے رابعہ الربا ’تحریم عظیم اور لبنیٰ مرزا کے گولڈن گرلز کے کالم پڑھے تو مجھے اپنی وہ تقریر یاد آ گئی جو میں نے 30 جنوری 2008 کو کینیڈا کے ایک سیمینار میں کی تھی۔ اس تقریر میں عورتوں کی آزادی کے ہمراہ مردوں کی آزادی کے حوالے سے میں نے اپنی گزارشات پیش کی تھیں۔‘ ہم سب ’کے قارئین کے لیے اس تقریر کا ترجمہ اور تلخیص حاضر ہے۔

خواتین و حضرات!

میں آپ سب کا شکریہ ادا کرنا چاہتا ہوں کہ آپ نے مجھے اپنے سیمینار میں اپنے خیالات و نظریات پیش کرنے کی دعوت دی۔ میں اس حقیقت سے بخوبی آگاہ ہوں کہ اس سیمینار کا مقصد عوام و خواص میں سماجی شعور کو بڑھاوا دینا ہے اور عورتوں کی آزادی و خود مختاری کی جدوجہد میں مردوں کو شریک کرنا ہے تا کہ مرد اور عورتیں مل کر ایک عادلانہ و منصفانہ معاشرہ قائم کر سکیں۔

میری نگاہ میں عورتوں کی آزادی کی تحریک
WOMEN ’S LIBERATION MOVEMENT

بیسویں صدی کی ایک اہم سماجی تحریک تھی۔ اس تحریک میں جرمین گرئیر ’بے ٹی فریڈین‘ ورجینیا وولف ’اینائس نن اور سیمون دی بووا جیسی مغربی دانشور خواتین اور عصمت چغتائی‘ کشور ناہید ’فہمیدہ ریاض‘ عشرت آفرین اور فروغ فرح زاد جیسی مشرقی شاعر اور ادیب خواتین نے اہم کردار ادا کیا۔ ان لکھاریوں اور سماجی کارکن خواتین کی کوششوں اور قربانیوں کی وجہ سے بہت سی خواتین میں خود اعتمادی پیدا ہوئی اور انہوں نے بہت سے حقوق و مراعات حاصل کر کے اپنی زندگی کو بہتر بنایا۔

ہم سب جانتے ہیں کہ مرد اور عورت انسانی زندگی کی گاڑی کے دو پہیے ہیں اس لیے انسانی ارتقا کے لیے ضروری ہے کہ عورتوں کی آزادی کے ساتھ مردوں کی آزادی پر بھی توجہ مرکوز کی جائے تا کہ دونوں مل کر ترقی کی راہ پر گامزن ہو سکیں۔ بد قسمتی سے بہت سے مرد آزادی کے اس سفر میں عورتوں سے بہت پیچھے رہ گئے ہیں۔ اس لیے اب وقت آ گیا ہے کہ مرد بھی خود احتسابی کے عمل سے گزریں اور اپنی شخصیت میں وہ تبدیلیاں پیدا کریں جو اس جدید دور کا تقاضا ہیں۔

ایک ماہر نفسیات ہونے کے ناتے میں بہت سے ایسے مردوں کو جانتا ہوں جنہوں نے اپنی سوچ ’اپنی فکر اور اپنے طرز زندگی میں بہت مثبت تبدیلیاں پیدا کیں اور اپنی زندگی میں شامل عورتوں کے قدم کے ساتھ قدم ملایا اور عورتوں نے ان تبدیلیوں کو بہت سراہا۔

دنیا کے ہر ملک اور معاشرے میں نجانے کتنے مرد اور عورتیں خود سے اور ایک دوسرے سے پوچھتے ہیں
مرد تبدیلی سے کیوں گھبراتے ہیں؟
مرد عورتوں کا استحصال کیوں کرتے ہیں؟
مرد ان عورتوں سے جارحیت سے کیوں پیش آتے ہیں جن سے وہ محبت کا دعویٰ کرتے ہیں؟
مرد عورتوں کو اپنے برابر کا انسان کیوں نہیں سمجھتے؟

یہ اتنے اہم سوال ہیں کہ ان پر ماہرین نفسیات اور سماجیات نے ضخیم کتابیں لکھی ہیں۔ وقت کی کمی کی وجہ سے میں یہاں نہایت اختصار سے ان سوالوں کے حوالے سے چند معروضات پیش کرنے کی کوشش کروں گا۔

ہمارے دور کے بہت سے مرد ایسے خاندانوں ’سکولوں اور معاشروں میں پلے بڑھے ہیں جہاں پدر سری نظام نسلوں اور صدیوں سے چلا آ رہا ہے۔ اس نظام میں عورتیں دوسرے درجے کی شہری سمجھی جاتی ہیں۔ ان مردوں کے بچپن کے جو رول ماڈل تھے جن میں ان کے باپ‘ دادا ’ماموں اور چچا سب شامل تھے ان میں سے اکثر عورت کا دل کی گہرائیوں سے احترام نہ کرتے تھے بلکہ انہیں مردوں سے کمتر اور کہتر سمجھتے تھے۔ اگر ان کی زندگی میں عورتیں برابر کے حقوق کا مطالبہ کرتی تھیں تو یا یہ مرد ان کا مذاق اڑاتے تھے اور یا انہیں دبانے کی کوشش کرتے تھے۔ جب وہ عورتیں ایسے مردوں کو چیلنج کرتی تھیں تو وہ مرد اپنی بالادستی قائم کرنے کے حق میں مختلف مذاہب اور روایات پیش کرتے تھے۔

ایک ماہر نفسیات اور ایک انسان دوست لکھاری ہونے کے ناتے جب میں نے اس موضوع پر سنجیدگی سے غور کیا تو مجھے اندازہ ہوا کہ مرد کی آزادی عورت کی آزادی سے مختلف ہے۔

ان دونوں کی آزادی میں ایک بنیادی فرق یہ ہے کہ جب عورت آزاد ہوتی ہے تو اس کے حقوق و مراعات میں اضافہ ہوتا ہے۔ اس کے مقابلے میں جب مرد آزاد ہوتا ہے تو اس کی طاقت میں کمی آتی ہے۔ اسے اندازہ ہوتا ہے کہ جن چیزوں کو وہ حقوق سمجھتا آیا تھا وہ دراصل مراعات تھیں اور وہ بھی غیر منصفانہ مراعات اور اب اسے وہ مراعات واپس کرنی ہوں گی۔ اس لیے انہیں ماضی کی اس طاقت سے دستبردار ہونا ہوگا۔ بہت سے مرد ان مراعات کے اتنے عادی ہو گئے ہوتے ہیں کہ یہ جاننے کے بعد بھی کہ وہ غیرمنصفانہ ہیں ان سے دستبردار ہونے کے لیے تیار نہیں ہوتے۔

بعض مردوں کو تو ایسی طرز زندگی کی اتنی عادت ہو گئی ہوتی ہے کہ انہیں اندازہ ہی نہیں ہوتا کہ وہ ایک پدر سری نظام کا حصہ ہیں۔ جب میں ایسے مردوں سے ملتا ہوں تو ان کی توجہ اس طرف مبذول کرواتا ہوں کہ

عیسائی حلقوں اور معاشروں میں خدا کو ماں کہنے کی بجائے۔ آسمانی باپ۔ کہہ کر بلایا جاتا ہے
ماں کے نام کی بجائے لڑکی شادی سے پہلے باپ کے نام سے اور شادی کے بعد شوہر کے نام سے جانی جاتی ہے۔

انگریزی زبان میں جب ہم HE کا صیٖغہ استعمال کرتے ہیں تو اس میں عورتیں بھی شامل ہوتی ہیں۔ بعد فیمینسٹوں کا کہنا ہے کہ

HISTORY IS HIS STORY NOW WE NEED TO WRITE HERSTORY

میں نے جن مردوں کو ذہنی طور پر آزاد ہوتے دیکھا ہے میں انہیں دو گروہوں میں بانٹ سکتا ہوں

پہلا گروہ ان مردوں کا ہے جن کی زندگی میں عورتوں نے جب آزادی و خود مختاری کا سفر شروع کیا تو یہ مرد ان کے شریک سفر بن گئے۔ ایسے مردوں کی کوششوں کو جہاں کچھ لوگوں نے سراہا وہیں ایسے لوگ بھی تھے جنہوں نے ایسے مردوں کو ’زن مرید‘ WIMP AND SISSY کہہ کر ان کا مذاق اڑایا اور ان کی مردانہ غیرت اور مردانگی کو للکارا۔

دوسرا گروہ ان مردوں کا ہے جنہوں نے جب خود کو انسان کی حیثیت سے آزاد کیا تو وہ مرد کی حیثیت سے بھی آزاد ہو گئے۔ انہوں نے اپنے خود احتسابی کے عمل سے صدیوں کی ذہنی زنجیروں کو جانا ’پہچانا اور پھر انہیں کاٹ کر پھینک دیا۔ اس طرح ان کی مردانہ آزادی ان کی انسانی آزادی کا حصہ تھی۔ میں نے جب ایک امریکی دانشور ARTHUR SCHLESINGER

کے مقالے THE CRISIS OF AMERICAN MASCULINITY
کا مطالعہ کیا تو مجھے مندرجہ ذیل جملے پڑھنے کا اتفاق ہوا۔ وہ لکھتے ہیں

’مردانگی یہ نہیں کہ ہم اپنی زندگی میں آئی ہوئی عورتوں کی تذلیل کریں۔ مردوں کا عورتوں سے احساس برتری گوروں کے کالوں سے احساس برتری کی طرح قصہ پارینہ ہو گیا ہے۔ وہ انسانی تاریخ کے تاریک دور کا حصہ بن چکا ہے۔ عورتوں کی آزادی و خود مختاری عورتوں کے لیے ہی نہیں مردوں کے لیے بھی ایک اچھا شگون اور خوش خبری ہے۔ مردوں کو اپنی شناخت بدلنی ہوگی جب وہ عورتوں کو بھی اپنی طرح برابر کا انسان سمجھیں گے تو دونوں اصناف ماضی کی بوسیدہ زنجیروں کو توڑ کر آزاد ہوں گی اور ایک نئی زندگی کا آغاز کریں گی‘

بہت سے مردوں کے لیے بدلنا اگر آسان نہیں تو دشوار بھی نہیں۔

میں نے تھراپی میں جب ایک شوہر کو تبدیل ہونے میں مدد کی تو بدلنے کے بعد اس نے لکھا

’ میرا والد میری ماں کو مارا پیٹا کرتا تھا میں نے اپنے آپ سے وعدہ کیا تھا کہ میں کبھی کسی عورت پر ہاتھ نہیں اٹھاؤں گا لیکن شادی کے بعد میں اپنی بیوی کو مارتا تو نہ تھا لیکن اس کو بے عزت کرتا تھا۔ لیکن پھر ایک دن میری بیوی نے کہا کہ اگر اس نے مجھے چھوڑ دیا تو وہ کچھ چیزیں کھو دے گی

’وہ کیا؟‘ میں نے پوچھا
’روز روز کا رونا اور صبح و شام کی ذلت‘

اس کے اس جواب سے میں اتنا دکھی ہوا کہ میں آپ کے پاس تھراپی کے لیے چلا آیا تا کہ اپنے لہجے اور رویے کو بدلوں اور ایک بہتر انسان ’بہتر مرد اور بہتر شوہر بنوں۔ آپ نے میری مدد کی اور اب ہم دونوں محبت پیار سے رہتے ہیں۔‘

اس کی بیوی نے کہا

’تھیرپی کے بعد میرا شوہر ایک نیا انسان بن گیا ہے۔ اب وہ میرا خیال رکھتا ہے اور میری دل کی گہرائیوں سے عزت کرتا ہے۔

میں آپ کا شکریہ ادا کرنا چاہتی ہوں کہ آپ نے ہمیں ایک نئی ازدواجی زندگی دی۔ محبت بھری زندگی۔ ’

میرا خیال ہے کہ ہم انسانی تاریخ اور ارتقا کے اس موڑ پر آ پہنچے ہیں جہاں ہمیں احساس ہو رہا ہے کہ ہم نے مردوں اور عورتوں کو روایتی خانوں کے قید خانوں میں مقید کر رکھا ہے۔ جب ہم کہتے ہیں کہ۔ اس عورت نے مردانہ وار مقابلہ کیا۔ یا۔ وہ مرد ایک عورت کی طرح شرمایا۔ تو ہم صدیوں کے سماجی تعصبات کی گرفت میں آ جاتے ہین۔

اب ہم جاننے لگے ہیں کہ نفسیاتی طور پر ہر مرد کے اندر ایک عورت اور ہر عورت کے اندر ایک مرد مخفی ہے۔ ہمیں اس چھپے شخص سے ملنا ہے جو ہمارا ہی ہمزاد ہے۔

اس طرح ہم سب اپنی جسمانی حدود سے بالاتر ہو کر نفسیاتی اور سماجی طور پر بہتر انسان بن سکیں گے اور مردوں اور عورتوں کی جنسی اور صنفی تضادات سے بالاتر ہو کر ایک دوسری سے انسانی بنیادوں پر برابر کی دوستی کر سکیں گے۔

یہ میری خوش بختی کہ مجھے اپنی زندگی میں اپنی نانی ’اپنی بہن‘ اپنی بھانجی ’اپنی دوست اور اپنی محبوبہ کی حیثیت سے کئی ایسی محبت کرنے والی خواتین ملیں جنہوں نے میری ایک بہتر انسان اور بہتر دوست بننے میں مدد کی۔ میں ان سب خواتین کا تہہ دل سے شکریہ ادا کرتا ہوں۔

بڑے صبر و تحمل سے میری گزارشات سننے کا شکریہ۔

ڈاکٹر خالد سہیل

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

ڈاکٹر خالد سہیل

ڈاکٹر خالد سہیل ایک ماہر نفسیات ہیں۔ وہ کینیڈا میں مقیم ہیں۔ ان کے مضمون میں کسی مریض کا کیس بیان کرنے سے پہلے نام تبدیل کیا جاتا ہے، اور مریض سے تحریری اجازت لی جاتی ہے۔

dr-khalid-sohail has 683 posts and counting.See all posts by dr-khalid-sohail

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments