شمس الرحمن فاروقی کا ناول: کئی چاند تھے سر آسماں



کسی کتاب کو مصنف جس طرح سے تحریر کرتا ہے کیا قاری کبھی اس طرح سے سمجھ بھی پاتا ہے یا نہیں؟ ممکن ہے کبھی ایسا ہوتا ہو کہ جو لکھا گیا وہ من و عن قاری پر اسی طرح سے اتر گیا ہو۔ مگر شاید ایسا خال خال ہی ہوتا ہوگا۔ ہو سکتا ہے کسی کتاب کی بے تحاشا پسندیدگی کا معیار اس کی بے شمار چھپنے والی کاپیاں ہوں۔ مگر کوئی بھی ناول یا کتاب اپنے قارئین پر کس قدر گہرے اور دور رس اثرات چھوڑتی ہے اس امر کا تعین کیسے ہوگا؟

کیا کتاب انسانی سوچ کا وہ معیار جو برسوں سے چلتے آئے سینہ بہ سینہ تصورات پر مبنی ہے، کو یکلخت بدل سکتی ہے؟ اگر ایسا ہو تو ایسی کتاب یقینی طور پر طاقتور ہے اور وقت کے دھاروں کے ساتھ بہتے انسانوں کو مخالف سمت میں چلنے پر مجبور کر سکتی ہے۔ میرے یہ خیالات اس کتاب کے بارے میں ہر گز نہیں آپ لوگ اسے محض ایک خیال تصور کر لیں بالکل ایسے ہی جیسے کسی بھی موضوع پر لکھنے سے پہلے بے ترتیب سی سوچیں دماغ میں آ کر بھونچال سا برپا کر دیتی ہیں اور کچھ سمجھ نہیں آتا کہ آخر آغاز کہاں سے ہو۔

”کئی چاند تھے سر آسمان“ ایسی کتاب ہے یا نہیں اس کا فیصلہ تو اس کو پڑھنے والے ہی کر سکتے ہیں۔ میں تو ایک ادنیٰ قاری کے طور پر اس پر ایک بے معانی سا تبصرہ اور قارئین کے لئے ایک خلاصہ لکھنا چاہتا ہوں۔ اس سے کیا حاصل ہو گا ابھی اس کا اندازہ مجھے نہیں۔ ہو سکتا ہے اس کی کچھ جھلکیاں قارئین کو مجبور کر دیں کہ یہ کتاب پڑھنے سے تعلق رکھتی ہے۔ اگر ایسا ہو تو یہ بذات خود معجزہ کتاب ہو گا، میرے الفاظ چہ معنی؟ ہاں میں جو کچھ لکھ رہا ہوں اس سے کم سے کم یہ تو ہوگا کہ جیسے کبھی کسی سبق کو اچھی طرح یاد کرنے کا ایک مروجہ کلیہ یہ بھی ہوتا تھا کہ اسے لکھ لیا جائے، تو میں یہ سطریں اسی لئے لکھ رہا ہوں کہ مجھے تو اس ضخیم کتاب کا کچھ حصہ یاد رہ جائے۔

کتاب کے لکھنے میں کس قدر محنت صرف ہوئی۔ اس کا اندازہ اس بات سے لگائیے کہ اس کے حوالہ جات میں برصغیر کے تیس یا اس سے زائد مصنفین کی اردو اور عربی کی کتابیں، سوانح عمریاں اور خطوط شامل ہیں جو برصغیر کے اس زمانے کے حالات و واقعات کا احاطہ کرتے ہیں، جو کتاب کا موضوع ہیں۔ مزید یہ کہ وہاں کے لوگوں کی بودوباش، بادشاہت کے احوال، محلاتی سازشوں کا ذکر، عوام کی اس دور میں خوشحالی، فن و ہنر سے دلچسپی، زندگی کے مختلف شعبہ جات کی تفصیل، شعر و سخن کے رسیا اور اس کی پرورش کرتے شعرا، اور اساتذہ الغرض یہ کہ کوئی شعبہ ہائے زندگی ایسا نہیں جس پر مصنف نے تحقیق نہ کی ہو اور پھر اس کو نوک قلم سے قرطاس کی زینت نہ کیا ہو۔

کسی بھی طرح سے لکھا ہوا اس زمانے سے مختلف نہ لگے اس کے لئے انھوں نے صرف برصغیر کے لکھاریوں پر ہی اکتفا نہیں کیا بلکہ درجنوں انگریز مصنفین کے لکھے ہوئے مضامین اور کتابوں کو بھی کھنگالا ہے، جنھوں نے اپنی آنکھوں سے ”سونے کی چڑیا“ کو دیکھا، وہاں وقت گزار اور اپنے تاثرات کو قلمبند کر کے تاریخ کا حصہ کیا۔ کتاب پڑھیے تو زبان وہ ہے جو اس وقت اس خطہ عظیم میں رائج تھی۔ اور یہ یقین کرنے کے لئے کہ کوئی ایک لفظ بھی اس دور سے الگ نہ لگے، بہت سی لغات سے استفادہ کیا۔

کتاب کا نام احمد مشتاق کے ایک مشہور شعر سے بعد از اجازت رکھا گیا۔ شعر کچھ یوں ہے۔
کئی چاند تھے سر آسماں کہ چمک چمک کے پلٹ گئے
نہ لہو میرے ہی جگر میں تھا نہ تمہاری زلف سیاہ تھی

اس کتاب کے عنوان کو پڑھ کر لگتا ہے کہ یہ شاید کچھ مشہور و معروف شخصیات کے خاکوں پر مبنی کوئی کتاب ہوگی۔ مگر ایسا دراصل ہے بھی اور نہیں بھی۔ اس کتاب کی کہانی بنیادی طور پر ایک فرد واحد، اور وہ بھی ایک عورت، کی کہانی ہے جس کی زندگی کے سب سے موثر، خوبصورت، متاثر کن اور دلفریب سالوں میں اس قدر اتار چڑھاؤ ہیں کہ پڑھنے والا دعا کرتا ہے کہ اب کی بار ہونے والا حادثہ اس کردار کی ستم رسیدہ زندگی کا آخری حادثہ ہو۔

یہ داستان ہے ایک ایسی عورت کی جس کا جمال مثالی، جس کی وضع و قطع منفرد، وہ تمدن و تہذیب میں یکتا ہے اور زمانے کے بہاؤ کے مخالف بہنا چاہتی ہے۔ وہ خود پرکھتی ہے اور پھر اپنی زندگی کے فیصلے صادر کرتی ہے۔ اور اتنی جری ہے کہ یہ بار خود ہی اٹھاتی ہے۔ کہیں آپ کے ذہن میں یہ خیال جڑ نہ پکڑ لے کہ یہ کوئی الف لیلویٰ داستان ہے۔ صاحب، ایسا ہرگز نہیں ہے۔ یہ کتاب کثیر الجہت ہے۔ جب ایسی طرح دار اور دبنگ خاتون کا ذکر ہو رہا ہے تو اس کے ساتھ اس زمانے کے روز و شب اور نابغہ روزگار لوگوں کے ذکر کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔

اور اگر ان شہروں، علاقوں اور سلطنت کے رہن سہن، رسوم و روایات، ثقافت، کھیل کود، امور سلطنت، انگریز کی برصغیر کو اپنے قابو میں رکھنے کی حکمت عملی کی تصویر کشی اس کتاب کا حصہ نہ ہو تو ان شاندار زمانوں کا احاطہ کیونکر ممکن ہوگا۔ جہاں مسلمان بادشاہ اب صرف نام کے حکمران رہ گئے تھے۔ اور عملی طور پر سکہ ایسٹ انڈیا کمپنی کا چلتا تھا، ہاں یہ ضرور ہے کہ ڈھلتی سلطنت کا سورج ابھی بھی اپنی آن بان، شان، چمک دمک، جاہ و جلال، استقلال اور تہذیب میں اپنی مثال آپ تھا۔ اور ایسے زمانوں میں وزیر خانم کے حسن و جمال کے چرچے عام تھے اور کیا رؤسا، کیا نواب، بہت سوں کو انہیں اپنانے کی چاہ تھی۔

وزیر خانم عرف چھوٹی بیگم 1811 میں پیدا ہوئیں۔ وہ اپنی تین بہنوں میں سب سے چھوٹی تھیں۔ اور ان کے والد کا نام تھا یوسف سادہ کار۔ یوسف کے باپ، دادا اور پردادا سب ہی اپنے فن میں یکتا تھے۔ پردادا ایک زبردست مصور، دادا نے قالین بافی کے فن میں اس قدر نام پیدا کیا استاد مشہور ہوئے۔ الغرض یہ خاندان ہنر اور فن کی نعمتوں سے لازوال تھا۔ چونکہ ان کے آبا و اجداد کشن گڑھ سے ہجرت کر کے کشمیر جا آباد ہوئے تھے تو سادہ کار کی نسل میں کشمیری رنگ ڈھنگ بھی پوری آن بان سے تھا۔

وزیر خانم کی زندگی میں آنے والا پہلا مرد ایک انگریز مارسٹن بلیک تھا۔ جس نے اتفاق سے انہیں دیکھا تو ان کے حسن کا اثیر ہو گیا اور پھر جب تک وزیر خانم کو اپنے گھر نہ لے آیا چین سے نہ بیٹھا۔ وزیر خانم نے بلیک کو پرکھا اور پھر جب یقین کر لیا کہ انھیں وہ دل سے پسند کرتا ہے تو ساتھ رہنے کی حامی بھری۔ اس وقت وزیر خانم کا سن اٹھارہ یا انیس کا تھا۔ مارسٹن بلیک کپتان ہونے کے ساتھ ساتھ اسسٹنٹ پولیٹیکل ایجنٹ بن گیا تھا۔

جو ایک طاقتور عہدہ تھا۔ وزیر اپنے انگریز صاحب کی توجہ اور پیار سے بہت خوش رہتی۔ بہت ہی وسیع گھر میں نوکروں کی ریل پیل تھی۔ پیشے کے حساب سے ان میں خانساماں، بکاول، آبدار، باورچی، خدمت گار، مشعلچی، دھوبی، استری والا، درزی، آیا، دائی کھلائی، ماما اصیل، ڈوریا، حلال خورنی، خاکروب، بیرا، سردار بیرا، گوالا، بھیڑی والا، مرغی بٹیر والا، مزدور، بہل بان، سائیس، چرکٹا، بہشتی، بڑھئی، مشال بردار، چوکیدار، دربان، چپراسی، نائن، چمپی، عصابردار، وغیرہ شامل تھے۔

کل اٹھاون نوکر تھے جن پر واحد حکمران وزیر بیگم تھیں۔ خوشحالی تھی، بلیک پرواہ کرتا تھا۔ مگر اس رشتے کا کوئی نام نہ تھا۔ جیسے کہ اس زمانے میں کئی بیبیاں انگریزوں اور نوابوں کے ساتھ بن بیاہی رہتی تھیں۔ وزیر خانم اور بلیک صاحب بھی بس ساتھ رہتے تھے۔ وزیر خانم اور معاشرے کی نظر میں اس ساتھ کی کوئی قانونی اور شرعی حیثیت نہ تھی۔ باوجود اس کے وزیر خانم نے مارسٹن بلیک کے دو بچوں کو جنم دیا۔ قریب تھا کہ مارسٹن بلیک انھیں اپنی منکوحہ بنا لیتا کہ جے پور جہاں یہ خاندان رہائش پذیر تھا، وہاں ایک بلوا ہوا اور انگریز صاحب نگران ریزیڈنٹ بہادر اس میں مارے گئے۔ وزیر خانم کی زندگی میں اندھیرا چھا گیا۔

سوگ کے پورے ہوتے ہی مارسٹن بلیک کے رشتہ داروں نے وزیر خانم کو گھر اور بچوں سے بے دخل کیا اور کہا کہ بچوں کی پرورش وہ خود کر لیں گے۔ اس کے بدلے میں وزیر گھر سے جو اثاثے و سامان لے جانا چاہے لے جائے۔ چونکہ اس رشتے کی بابت کوئی قانونی یا شرعی دعوٰی ممکن نہ تھا سو وزیر خانم اپنے بچوں کو چھوڑ کر چھلنی کلیجے سے جے پور سے دہلی آ گئی اور (اپنے باپ کے ہاں نہ آئی، جو وزیر کے بلیک کو پسند کرنے پر تھوڑا شاقی تھے ) اپنی ایک بہن کے انتظام کردہ گھر میں ٹھہریں جو دلی کے سرکی والاں، علاقے میں تھا۔

پوری دلی میں وزیر خانم کی واپسی کی خبر ہو گئی۔ دلی والے انھیں بے پناہ اعتماد، انوکھی سوچ، بے انتہا خوبصورتی، الہڑ پن، حاضر جوابی اور شعر و شاعری کی گہری سمجھ (وزیر، شاہ نصیر کی باقاعدہ شاگرد تھیں ) کی بدولت ڈومنی سمجھتے مگر وہ اپنے آپ میں کسی بیگم سے کم نہ تھیں۔ وزیر کی دلی میں آمد کے دس بارہ دن کے اندر ہی ان کے دروازے پر ان کے مشتاق لوگوں کے پیغامات آنے لگے۔ مگر وزیر خانم ہی کیا جو کسی کے محض اشارے پر ہی، قبول ہے، کہ لیں۔

یہ 1830 ہے اور دلی علماء، صلحا، صوفیا، شعرا، حسن پرست، چھیلے، بانکے، کلانوت، شطرنج باز، قادرانداز، تیغ زن، منجم جیسوں سے بھری پڑی تھی۔ دلی میں شعرا کی ایک کثیر تعداد تھی۔ اصلاح لینے کے لئے اسد اللہ خان غالب تھے، ابراہیم ذوق، حکیم مومن خان مومن، امام بخش صہبائی اور دوسرے بہت سے تھے۔ اسی زمانہ میں وزیر خانم کو ریزیڈنٹ بہادر، ولیم فریزر کی طرف سے محفل شعر و سخن میں شمولیت کا دعوت نامہ موصول ہوا۔ وزیر خانم نے وہ دعوت قبول کی۔

مشاعرے میں جہاں بہت سے معززین شہر بھی مدعو تھے وہیں نواب شمس الدین، والئی ریاست لوہارو تھے۔ ان کی عمر اس وقت اکیس برس کی تھی۔ اسداللہ خان غالب نے اپنی شاعری سے اس محفل کو چار چاند لگائے جس سے حاضرین نے لطف اٹھایا۔ مگر یہ وزیر خانم کے حسن، گفتگو، نازکی اور انداز کا آفتاب تھا جس کے آگے نواب شمس الدین اور ولیم فریزر دونوں ہی خیرہ ہوئے اور پھر ڈھیر ہو گئے۔ نواب صاحب سے غالب کی رشتہ داری تھی اور تھوڑی سی رقابت بھی۔ وجہ اس کی انگریز سرکار کی طرف سے مقر ر کیے جانے والے وظیفہ کی وہ مقدار تھی جس کو غالب نا مناسب سمجھتے تھے مزید یہ کہ وہ نواب شمس الدین کو بوجوہ ریاست کے انتظام و انصرام کا دوسرے بھائیوں کی نسبت اہل اور جائز وارث نہ سمجھتے تھے۔

نواب صاحب نے چند ہی روز میں وزیر خانم سے ان کے گھر آ کر ملاقات کی اور اپنے دل کا حال کہ ڈالا۔ نواب صاحب کی خاندانی نجابت و شرافت تھی۔ ایک شاہانہ طرز زندگی تھا مگر جو کچھ وزیر خانم نے ایک دو سال کے عرصے میں دیکھا تھا ان حالات نے انھیں شش و پنج میں مبتلا کر دیا تھا۔ کبھی وہ استخارہ چاہتیں اور کبھی دیوان حافظ سے فال نکلوانے کا سوچتیں۔ ایسے ہی انھیں پنڈت نند کشور کا خیال آیا اور ان سے ملاقات طے پا گئی۔ حال دل ان سے کہا اور رائے پوچھی۔ ان کا جواب مثبت آ گیا۔ اس پر انہوں نے ایک خط نواب صاحب کے نام لکھا جس میں قبولیت کا اشارہ تھا۔ اور اپنے شعر اپنے ہاتھوں سے لکھ کر نواب صاحب کو بھجوائے تو وہ نہال ہو گئے۔ نواب صاحب نے ایک اور ملاقات میں وزیر خانم کو ایک انگوٹھی دی جو ان کے اور وزیر خانم کے مستقبل کی واضح نشاندہی تھی۔

دلی میں نواب صاحب اور وزیر خانم کی ملاقاتیں اور ایک دوسرے کے لئے پسندیدگی پوشیدہ نہ رہ سکیں اور ولیم فریزر جو چالیس، پینتالیس کا بھی ہو کر وزیر خانم کے سحر میں مبتلا تھا، اس سے یہ برداشت نہ ہوا۔ اس نے کمپنی بہادر کی خدمت میں ریاست لوہارو جس کے موجودہ فرمانروا نواب شمس الدین تھے، ان کی قابلیت اور ریاست کے بٹوارے کو صحیح نہ جانتے ہوئے یہ سفارش کی کہ ان کے بقیہ رشتہ داروں کو اس میں شامل کیا جائے اور حق حقدار تک پہنچایا جائے۔

اس وقت گورنر جنرل لارڈ ولیم بینٹینک تھے۔ مزید یہ کہ اس نے اس وقت کے ایک با اثر شخص حکیم احسن اللہ خان جو کہ شاہی دربار سے منسلک تھے اور حکیم مومن خان مومن کے پھوپھی زاد بھائی بھی تھے، کے ہاتھ ایک پیغام نواب شمس الدین کے ہاں پہنچانے کا کہا کہ ”وزیر خانم سے دور رہیں“ ۔ حکیم صاحب جو اعلی مقام رکھتے تھے انھوں نے یہ کہ کر انکار کر دیا کہ وہ کمپنی کے نہیں بلکہ بادشاہ وقت کے نمک خوار ہیں اور یہ پیغام نواب شمس الدین تک نہیں پہنچائیں گے۔

اس واقعے کی پرخاش ولیم کے دل میں ہمیشہ رہی۔ اس نے حکیم صاحب سے ایک سرد جنگ شروع کردی اور احکامات جاری کر دیے کہ ان سے کمپنی کے معاملات میں کبھی نرمی کا سلوک روا نہ رکھا جائے۔ حکیم صاحب نے بادشاہ وقت کو ولیم کی دیدہ دلیری کی داستان من و عن سنا دی۔ مگر بادشاہی وہ نہ رہی تھی کہ اس ہٹ دھرمی کا کوئی نوٹس لیا جاتا۔ بادشاہ کو تو اپنے اقتدار کے لئے بھی کمپنی پر اکتفا کرنا پڑ رہا تھا۔ سو اس ضمن میں کچھ نہ ہوا۔

ولیم فریزر ایک عیار انگریز افسر تھا اس کی نہ صرف یہ کہ برصغیر کے موجو دہ حالات سے با خبر تھا بلکہ وہ یہاں کی تاریخ پر بھی گہری نظر رکھتا تھا۔ مزید یہ کہ وہ دلی اور لکھنوؤ کی تہذیب اور یہاں کے لوگوں کا شاعری کی طرف رجحان جان کر شعر و شاعری کے رموز کو بھی ایسے ہی سمجھتا تھا جیسے کوئی مقامی باشندہ۔ اب جو حالات اس نہج پر پہنچے کہ نواب شمس الدین، وزیر خانم کے معاملے میں فریزر کے سامنے آن کھڑے ہوئے تو انھیں بے عزت کرنے کے لئے اسے ایک قبیح حرکت سوجھی۔

اسے معلوم تھا کہ محی الدین اورنگ زیب عالمگیر موسم کے اعتبار سے تاکی یا ہوادار پر سوار ہو کر گشت کے لئے نکلتا تھا تاکہ رعایا کی خبر گیری ہو سکے اور حالات کا بھی معائنہ ہو سکے۔ ایسے میں اس کے ساتھ ایک پورا قافلہ ہوتا سو گشت کی تکمیل میں ایک سے دو گھنٹے لگ جاتے۔ اورنگ زیب کے ہاتھ میں ایک کتاب ہوتی اور وہ سارا وقت اپنی آنکھ اس کتاب پر لگائے رکھتا۔ ورق الٹنے میں انگلیوں یا ہاتھ کی تھوڑی کی حرکت کے سوا اس کے بدن میں کوئی حرکت باوجود اس کے کہ قافلہ رواں دواں رہتا، نہ ہوتی، اس کی سواری جہاں جہاں سے گزرتی، کیا مہاجن، تاجر، جوہری، کیا غلہ فروش، کیا چوبدار، کیا خدمتگارہ، جو جس کام میں مصروف ہوتا، دور ہی سے کام چھوڑ کر سیدھا کھڑا ہو جاتا اور جب سواری سامنے آجاتی تو تین سلام کرتا، لیکن عالم گیر کی آنکھ کتاب ہی پر رہتی۔

اس کے چہرے پر کسی قسم کا تاثر بھی نہ پیدا ہوتا۔ وہی بارعب متانت، شاہانہ جلال کہ گویا کسی غیر ملک کے ایلچی دربار میں ہیں اور یہ گردن ایک اعتماد کے ساتھ تنی ہوئی ہے۔ اس گشت اور نشت میں یہ راز بھی پنہاں تھا کہ گو بادشاہ وقت اپنے تئیں استغراق میں ہیں مگر امور سلطنت پھر بھی سر انجام دیے جا رہے ہیں۔ پچاسی برس کا اورنگزیب بادشاہی لباس میں دبلا پتلا، کشیدہ قامت، عقابی آنکھ اور لمبی خمیدہ ناک اور براق داڑھی میں ایک عجب تمکنت اور جاہ جلال کا نمونہ تھا، اور صحیح معنوں میں عالمگیر تھا۔

فریزر سوچتا تھا کوئی دن جاتا ہے کہ وہ بھی اسی منصب پر فائز ہوگا کہ جس پر رہتے ہوئے عالمگیر نے ملک ہند، بنگالہ و کامروپ اور دکن کو اپنے زیر نگین رکھا تھا۔ فریزر کے خیالوں میں اب یہی کام کمپنی کر رہی تھی۔ وہ اس سے جاہ و جلال میں چاہے کم ہو مگر ایک وسیع و عریض سلطنت کے انتطام و انصرام کا کام بہرحال اس وقت کمپنی بہادر کر رہی تھی۔ ساری دنیا کی دولت کھنچ کر برطانیہ میں چلی آ رہی تھی۔ علم و حکمت، فلسفہ و ریاضی، منطق، طب وہیئت کے سرچشمے اب برطانیہ سے ابل ابل کر چہار عالم میں پھیل رہے تھے اور سارے عالم کو سیراب کر رہے تھے۔ فریزر کو یقین تھا کہ جلد وہ بھی اس شان و تمکنت سے سرفراز ہوگا۔

عالمگیر کی اس روایت کو استعمال کر کے فریزر نے اپنے لئے ایسے ہی جلوس کا بندوبست کیا اور سرکی والاں کے محلے میں موجود وزیر خانم کے ہاں جا دھمکا۔ وزیر خانم سے کچھ مثبت اشارے نہ پا کر فریزر وہاں سے نامراد لوٹا۔ ادھر وزیر خانم نے نواب شمس الدین کو بلا نے کی فریاد کی اور فریزر کی ملاقات کا حال حرف بہ حرف ان سے کہ دیا۔ اثر اس واقعے کا یہ ہوا کہ وزیر خانم کو نواب صاحب 1830 میں اپنے حصار میں لے آئے۔ اب وہ ان کی رعیت تھیں اپنے منہ سے نکاح کی طالب ہونے پر انھیں یہ گمان ہوتا کہ نواب صاحب کہیں اس کو جاہ و حشمت اور حکومت کی خواہش نہ سمجھ لیں۔

سو ان کی خوشنودی میں ان کے سنگ ان کا مطلوب ہو کر رہنا قبول کر لیا۔ نواب صاحب نے چاندنی چوک میں ایک سہ منزلہ مکان وزیر خانم کے نام کر دیا۔ مکان کیا تھا ایک چھوٹا محل تھا۔ ہر طرح کی آسائش مہیا تھی۔ خدام اور خادمائیں تھیں۔ حجرے میں کتابوں کی بہتات تھی۔ دیوان حافظ، کلیات میر و انشا، تاریخ فیروز شاہی، آئین اکبری اور انگریزی کتابیں یہ سب نواب صاحب کے شوق اور فن سے رغبت کا ثبوت تھیں۔ وزیر خانم ہمہ وقت نواب صاحب کی خوشنودی کے لئے تیار رہتیں اور نواب صاحب ان پر صدقے واری جاتے۔

گو کہ نکاح کی خواہش وزیر خانم کے دل میں تھی مگر وہ نواب صاحب کی محبت کے بار تلے دبتی تو یہ خواہش ماند پڑ جاتی۔ ایسے ہی سال گزر گیا اور پھر وزیر خانم نے نواب صاحب کے ایک بیٹے کو جنم دیا جس کا نام نواب مرزا رکھا گیا۔ نواب صاحب نے خادماؤں، نوکروں چاکروں، دائیوں پلائیوں میں دل کھول کر انعام و اکرام بانٹا۔ ان کی خوشیوں میں وزیر کی بہنیں اور نواب صاحب کی بہنیں بھی شریک ہوئیں۔ نواب مرزا تین سال کے ہو گئے اس دوران نواب صاحب نے سلطنت کے انتظام کو خوب نبھایا۔ ان کے والد کے زمانے میں ریاست کے محاصل پانچ سے سات لاکھ سالانہ تھے جو اب سات سے دس لاکھ سالانہ پر پہنچ گئے تھے۔

باوجود اس سب کے فریزر کے گورنر جنرل کو ارسال کردہ خطوط اور مرزا غالب (جو کہ نواب صاحب کے عم زاد بہنوئی بھی تھے ) کی نواب صاحب کے دوسرے بھائی کے حق میں کلکتے میں بھیجی گئی سفارشیں نواب صاحب کو دلگیر کیے رکھتیں۔ انھیں یہ ڈر رہتا کہ ریاست کی وراثت کا وہ فیصلہ جو ان کے حق میں کمپنی بہادر کر چکی ہے الٹ نہ ہو جائے۔ انھیں یہ بھی قلق تھا کہ اگر ایسا فیصلہ ہو بھی جائے تو مرزا غالب کو کیا اپنے وظیفہ میں اضافے کی توقع رہے گی؟

بہرحال ایسے ہی سوچوں کے سمندر میں غرق رہتے رہتے وہ دن آ گیا، جب فریزر دوبارہ جلوس لے کر بلی ماراں اور حویلی قاسم جان کی طرف آ نکلا۔ نواب صاحب سے سامنا ہونے پر اس نے ان کی ایک کنواری بہن کے خلاف کچھ بد تہذیبی پر مبنی بات کر دی جس سے نواب صاحب کی آنکھوں میں خون اتر آیا۔ اس وقت تو وہ برداشت کر گئے۔ مگر نواب صاحب کو مجمع میں اپنے خاندان کی عورت کے بارے میں فریزر کی طرف سے استعمال کیے گئے لفظ کانٹوں پر گھسیٹ رہے تھے۔ ایسے میں وہ ایک دن فریزر کی رہائش پر جا دھمکے کہ اس کی جان لے لیں گے۔ مگر نواب صاحب اکیلے اور فریزر مع اپنے خدمتگار اور سپاہیوں کے ساتھ تھا۔ نواب صاحب کو ہزیمت اٹھانا پڑی۔ ناکام اور خجالت سے بھرے لوٹ آئے۔

ظاہر ہے یہ وہ برصغیر تھا جہاں بادشاہ اور ریاستوں کے نوابین کمپنی کی طاقت اور اثر و رسوخ کے آگے بے بس تھے۔ لیکن انہوں نے دل ہی دل میں اس سے چھٹکارا پانے کا تہیہ کر لیا تھا۔ کچھ مہینے گزرے تھے کہ نواب صاحب کے ایک خدمتگار و دوست نے فریزر کو نواب صاحب کے کہنے پر قتل کر دیا۔ دلی جو افواہوں کا بازار تھا، وہاں چہار سو، چہ میگوئیاں شروع ہوں گئیں کہ نواب صاحب نے حساب چکتا کر دیا۔ اس پر طرفہ تماشا یہ ہوا کہ نواب صاحب کے وہ عزیز جو ریاست پر اپنا حق سمجھتے تھے اور نواب صاحب کو ریاست کے جائز فرمانروا نہ جانتے تھے، انہوں نے فریزر کی میت پر افسوس کرتے ہوئے یہ چنگاری اڑا دی کہ ہائے شمس الدین نے فریزر صاحب جیسے قابل شخص کو قتل کر دیا۔

اس وقت موقع پر موجود اعلی انگریز افسران جن میں چارلس مٹکاف، سائمن فریزر وغیرہ نے یہ سنا تو ان کی تیوریاں چڑھ گئیں۔ انہوں نے آخری رسومات کی ادائیگی سے فارغ ہوتے ہی تحقیقات شروع کر دیں اور پہلے نواب صاحب کے دوست جس نے فریزر کو قتل کیا تھا، اور پھر خود نواب صاحب کو گرفتار کر لیا۔ ان پر مقدمہ چلا اور جیسا کہ ہوتا ہے جس کی لاٹھی اس کی بھینس، نواب صاحب کہ جن کے خلاف بظاہر کوئی ثبوت نہ تھا اور نہ ہی قاتل نے یہ اعتراف کیا تھا کہ فریزر کے قتل میں اس کا یا نواب صاحب کا کوئی ہاتھ ہے۔

کمپنی بہادر نے اعلی عدالت سے دونوں کو پھانسی دلوا دی اور اس موقع کو عوام الناس کی عبرت کے لئے استعمال کیا تاکہ کمپنی کا خوف لوگوں پر قائم رہے اور یہ پیغام جائے کہ جو کوئی اس کے خلاف جائے گا اس کا انجام کیا ہوگا، اب چاہے کوئی عام آدمی ہو یا نواب۔ یہ 1835 کا واقعہ تھا، نواب صاحب کو دلی کے لوگوں نے شہید جانا، ان میں ہر مذہب کے لوگ تھے۔ تاریخ گواہ ہے کہ پھانسی کے وقت ان کی تمکنت، لاپروائی اور غیر جذباتی برتاو پر انگریز پھڑک اٹھے۔

ایک افسر ٹامس بیکن نے کہا، ”واللہ یوں لگتا ہے کہ پھانسی پر چڑھنا ہر صبح اس بدمعاش کی تفریح رہی ہے“ ۔ نواب صاحب کی موت پر ایک سوگ کا سماں تھا۔ آٹھ ہزار کے مجمع میں جنازہ کی نماز ادا ہوئی۔ انھیں قدم شریف کی درگاہ میں دفنایا گیا۔ جہاں ہر مذہب کے لوگ دلی کے اس شہید کے لئے، جس نے انگریز سے ٹکر لی، ایک عرصے تک چڑھاوے چڑھاتے اور منتیں مانگتے رہے۔

وزیر خانم کا گھر دوسری بار اجڑ گیا۔ انگریز نے ریاست لوہارو اور جھروکہ کا قبضہ لے لیا۔ نواب صاحب کے اہل و عیال دعوی کے باوجود کچھ نہ لے سکے۔ ساتھ ہی یہ خبر اڑ گئی کے انگریز سرکار نواب صاحب کے ممکنہ وارث کو مارنے کے بھی درپے ہیں۔ وزیر خانم، جو پہلے ہی اپنے دو بچوں کو زندگی کے انہونے طوفانوں میں کھو چکی تھیں، کملا کر رہ گئیں۔ ان کا سکون ان خبروں نے غارت کر دیا۔ انہوں نے یہ سنتے ہی نواب مرزا کو اپنی بڑی بہن اور بہنوئی نواب یوسف کے ہاں 1836 میں، رامپور روانہ کیا اور تاکید کی کہ وہ نواب یوسف کے منہ بولے بیٹے کہلوائیں۔

ایک غم کا پہاڑ اور کچھ یوں ٹوٹا کہ وزیر خانم کو ایک مراسلہ مارسٹن بلیک کے رشتہ داروں کی طرف سے موصول ہوا جس میں یہ لکھا تھا کہ چونکہ وزیر خانم ایک خونی داشتہ کے طور پر مشہور ہو چکی ہیں اس لیے انھیں یہ منظور نہیں کہ ان کے بھائی کے بچوں کو وزیر خانم جیسی گری ہوئی عورت سے منسوب کیا جائے۔ مزید یہ کہ دونوں بچوں کو عیسوی مذہب میں داخل کر لیا گیا ہے۔ اور اب انہیں ان کی ماں یعنی وزیر خانم سے ملنے کی اجازت نہ ہوگی اور وہ اپنی بقیہ زندگی کے فیصلوں میں آزاد ہیں اور ان کا قیام انگلستان میں ہوگا۔

وزیر خانم کے دونوں بچے صرف اس سے دور تھے لیکن دل میں ان کے بڑے ہونے پر ملنے کی چاہ ہر دم تھی، یہ سن کر اسے لگا سارے جہاں کے درد و الم اس کے حصے میں آ گئے۔ حالات اس کے حق میں نہ تھے کہ وہ کوئی دعوی کرتی اور بچوں کو اپنے پاس لے آتی سو یہ ستم بھی چپ کر کے سہ گئیں۔ انہوں نے اس شرط پر ہی تو بچوں کو بلیک صاحب کے رشتہ داروں کے حوالے کیا تھا کہ بچوں کو مذہب اسلام پر ہی پروان چڑھایا جائے، اب یہ بھی نہ ہو سکے گا یہ سوچ کر وزیر خانم کو تو بالکل چپ ہی لگ گئی۔

وہ اپنے بیٹے نواب مرزا سے ملنے کبھی کبھار رامپور جاتی رہتیں۔ دونوں میں اس قدر الفت تھی کہ ایک دوسرے کو دیکھ کر جیا کرتے۔ وزیر خانم کا دل نواب مرزا کو پھلتا پھولتا دیکھ کر اور اس کی عقلمندانہ باتوں سے سکون پاتا۔ نواب مرزا دس سال کے ہو چکے تھے اور ان کی تعلیم و تربیت میں نواب یوسف نے کوئی کسر نہ اٹھا رکھی تھی۔ اور نواب مرزا بھی ہونہار بروا کے چکنے چکنے پات کے مصداق، صحیح معنوں میں، اپنا آپ ثابت کر رہے تھے۔

(جاری ہے )


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments