لیڈر کی تقریر میں تئیس برس کا وقفہ اور شیدائی عوام کی جذباتیت


ہجوم دھاڑیں مار کر رونے لگا۔ اس کے تمام دشمن ششدر رہ گئے۔ وہ تو بلا کو سر سے اتارنا چاہ رہے تھے لیکن محض ایک جملے نے ان کی امیدوں پر پانی پھیر دیا۔ 23 سال پہلے وہ جس ان ہونی سے ڈر رہے تھے۔ وہ ان ہونی محض ایک فقرے کی مار نکلی۔

ہوا یہ کہ یہ ملک بھی انگریزوں کی بہت ساری کالونیوں میں سے ایک تھا۔ یہاں سیاہ فام قوم رہتی تھی۔ انگریز حاکم تو تھے ہی انہیں اپنی گوری چمڑی کا زعم بھی تھا۔ وہ اپنے سے پھیکے رنگ والے تمام لوگوں کو سیاہ فام ہی گردانتے تھے اور پھر یہ تو وہ قوم تھی جس کا رنگ سیاہی کو مات دیتا تھا۔ اور تو اور ان کے بال بھی گھنگریالے تھے۔ وہ بھلا اس قوم کو غلام کیوں نہ سمجھتے۔ لیکن دنیا کے تمام ظالم ظلم کرتے وقت بھول جاتے ہیں کہ کائنات میں جہاں بھی کوئی عمل ہوتا ہے اس کے جواب میں کہیں نہ کہیں کوئی رد عمل ضرور وقوع پذیر ہوتا ہے۔

بہرحال یہ انگریزوں کے ظلم کا آغاز تھا نہ اختتام۔ یہ تو بس روایت کی طرح سالوں سے جاری تھا۔ ہر دوسرے مظلوم ملک کی طرح یہاں بھی آزادی کی تحریکیں شروع ہوئیں۔ پر ہتھیار اٹھانے والے کبھی ان کا مقابلہ نہ کرپائے۔ شاید اس لیے کہ ہتھیار اٹھانے والے جلد باز ہوتے ہیں۔ وہ دہائیوں کی غلطیاں آخری حد تک جا کر لمحوں میں سدھارنا چاہتے ہیں لیکن عشروں میں خامیاں ٹھیک کر لینے کے انتظار کے متحمل نہیں ہوتے۔

ہتھیار بندوں کی جدوجہد جاری تھی کہ ان میں ایک حقیقی لیڈر نے جنم لیا۔ اس نے لڑائی کے بجائے سیاست کا میدان چنا۔ وہ عوام کو ’ورغلانے‘ کے کام پر جت گیا۔ عوام میں سے کچھ نے بات سنی۔ کچھ نے سنی ان سنی کردی۔ اس نے خامیاں سدھارنے کی بات کی۔ طویل لڑائی لڑنے اور اخلاقی مار مارنے کا درس دیا۔ آہستہ آہستہ اس کے ارد گرد ہجوم بڑھنے لگا۔ حاکموں کو خوف محسوس ہونے لگا۔ انہیں لگا کہ ڈر کی جن بنیادوں پر ان کی حاکمیت قائم ہے وہ ٹوٹ گئیں تو ساری سلطنت دھڑام سے زمین بوس ہو جائے گی۔ فیصلہ ہوا کہ غداری کے مقدمے میں لیڈر کو گرفتار کر لیا جائے۔

لیڈر ایک پر ہجوم جلسے میں شریک تھا۔ لوگ لاکھوں نہیں پر ہزاروں ضرور تھے۔ وہ تقریر کر رہا تھا کہ اچانک جلسہ گاہ کو سکیورٹی فورسز نے گھیرے میں لے لیا اور اسے ہزاروں لوگوں کے بیچ سے گرفتار کر لیا گیا۔ غداری کا مقدمہ چلنا شروع ہوا۔ 23 سال سے زیادہ کا عرصہ بیت گیا۔ لیڈر نے جیل میں جا کر بھی عوام کو جگانے کے لیے ’ون لائنر‘ پر مبنی بیانات کا سلسلہ جاری رکھا۔ ہوتے ہوتے بات باقی دنیا تک پہنچنے لگی۔ حاکموں پر لوکل اور بین الاقوامی دباؤ بڑھنے لگا۔

انہوں نے گھبرا کر لیڈر کو محفوظ راستہ دینے کا سوچا۔ لیڈر کو جب 23 سال جیل کاٹنے کے بعد رہائی کا بتایا گیا تو اس نے مطالبہ کیا کہ اگر تو اسی میدان میں ویسا ہی جلسہ ہو اور مجھے جیل سے سیدھا سٹیج پر لے جایا جائے تو ہی میں رہائی کے لیے تیار ہوں گا۔ حاکموں کو قیدی کے اس ’حکم‘ پر تامل تھا لیکن کئی طرفہ دباؤ کے ہاتھوں مجبور تھے۔ سو، اس کی بات ماننے کے سوا کوئی چارہ نہ تھا۔

ایسا ہی ہوا۔ 23 سال بعد اسی گراؤنڈ میں جلسہ سجایا گیا۔ اب کی بار لوگوں کی تعداد ہزاروں کے پیٹے سے کہیں زیادہ تھی۔ لیڈر کو وہیں جلسہ گاہ میں ہی پولیس وین سے نکالا گیا۔ لوگوں نے دیکھا کہ نوجوان لیڈر بوڑھا ہو چکا تھا۔ اس کے گھنگریالے بال سفید ہو چلے تھے۔ وہ دھیمے قدموں سے سٹیج پر پہنچا۔ مائیک پر گیا۔ ایک دم لیا اور پھر بولا۔ ”ہاں تو میں کہہ رہا تھا کہ ۔ ۔ ۔“ بس اس کا اتنا کہنا تھا کہ ہجوم دھاڑیں مار کر رونے لگا۔

حاکموں نے اپنا سر پیٹ لیا۔ تمام دشمن ششدر رہ گئے۔ وہ تو بلا کو سر سے اتارنا چاہ رہے تھے لیکن محض ایک جملے نے ان کی امیدوں پر پانی پھیر دیا۔ ربع صدی پہلے وہ جس ان ہونی سے ڈر رہے تھے۔ وہ ان ہونی محض ایک فقرے کی مار نکلی۔ محض ایک جملے نے سیاہ فام قوم کی آزادی کا اعلان کر دیا۔ لیڈر نے وہیں سے تقریر کا آغاز کیا تھا جہاں 23 برس پہلے اس نے چھوڑی تھی۔

دنیا نے صرف ایک فقرہ یاد رکھا لیکن مت بھولئے کہ ’نیلسن منڈیلا‘ کے اس ایک جملے کے پیچھے اس کی دہائیوں کی ریاضت اور مشقت شامل تھی۔ اسے یہ ایک فقرہ کہنے کے لیے 23 سال جیل سہنا پڑی اور اس سے کہیں زیادہ عرصہ ایک عام شخص کے طور پر حاکموں کا ظلم بھی۔ معجزے دنیا میں ہی ہوتے ہیں لیکن یاد رکھئے معجزے دنوں میں نہیں ہوا کرتے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments