یورپی پارلیمنٹ، ہمارا قانون اور ہم


یورپی پارلیمنٹ نے 6 کے مقابلے میں 681 ووٹوں سے پاکستان میں توہین مذہب کے قوانین اور بنیادی انسانی حقوق کی خلاف ورزی پر ایک قرارداد منظور کی گئی ہے اور اس کے ساتھ یہ مطالبہ بھی کیا کہ پاکستان کے لئے جی ایس پی پلس کی حیثیت پر نظر ثانی کی جائے۔ پارلیمنٹ میں یہ مطالبہ بھی کیا گیا ہے کہ پاکستان اقلیتوں، حقوق انسانی کے لیے سرگرم کارکنوں، مذہبی رواداری کے فروغ کے لیے کام کرنے والی تنظیموں اور صحافیوں پر حملے کرنے والے افراد کے خلاف سخت کارروائی کرے۔

قرارداد میں یورپی کمیشن اور یورپی ایکسٹرنل ایکشن سروس سے بھی مطالبہ کیا گیا ہے کہ پاکستان میں مذکورہ معاملات کا جائزہ لے کر یہ طے کرے کہ کیا پاکستان کا جی ایس پی پلس اسٹیٹس عارضی طور پر معطل کیا جاسکتا ہے؟ قرار داد میں ایک عیسائی جوڑے کی رہائی، فوری علاج اور غیر مشروط طور پر سزائے موت کے خاتمے کا مطالبہ کیا گیا ہے، جو 2014 ء میں گوجرہ کے ایک امام مسجد کی شکایت پر توہین مذہب کے قانون 295 بی کے تحت گرفتار ہوا اور اسے مقدمے کی کارروائی کے بعد سزائے موت سنائی گئی تھی۔ یورپی پارلیمنٹ میں پیش کی گئی یہ قرار داد سویڈن سے تعلق رکھنے والے یورپی پارلیمان کے رکن چارلی ویمرز نے مرتب کی ہے، جن کا تعلق سویڈن ڈیموکریٹ سے ہے جسے سویڈن کے وزیراعظم فاشسٹ پارٹی قرار دیتے ہیں۔

جی ایس پی پلس بنیادی طور پر پاکستان کی معیشت کی بہتری سے متعلق ایک سہولت ہے۔ لیکن اس کو پاکستان میں مزدوروں اور انسانی حقوق کی صورتحال سے بھی منسلک رکھا گیا ہے۔ 2014 ء میں یورپی یونین کے 28 ممالک کی طرف سے دس سال کے لئے پاکستان کو جنرلائیزڈ اسکیم آف پریفرنس پلس (GSP Plus) کا حقدار قرار دیا گیا تھا۔ جس کے نتیجے میں پاکستان کی یورپی یونین کو ایکسپورٹ کی جانے والی 6000 سے زائد اشیاء جن میں ٹیکسٹائل اور ملبوسات سر فہرست ہیں ڈیوٹی فری ہوں گی اور پاکستان کو اپنی ایکسپورٹ میں دیگر ممالک کی جانب سے جس سخت تجارتی مقابلے کا سامنا تھا، اس میں پاکستان کو آسانی ہوگی اور درآمدات میں اضافہ ہوگا۔

پاکستان کو دی جانے والی یہ رعایت اس امر سے مشروط ہے کہ پاکستان 27 عالمی کنونشنز جس کی اس نے توثیق کر رکھی ہے، پر عمل درآمد کو یقینی بنائے گا۔ ان کنونشنز کا تعلق انسانی حقوق، ماحولیات، انسداد منشیات، اچھی حکمرانی، اور بدعنوانی کے خاتمے کے ساتھ مزدوروں کے بارے میں آئی ایل او کے آٹھ بنیادی لیبر معیارات سے ہے۔

جہاں تک جی ایس پلس کے معاشی پہلوؤں کا تعلق ہے اگر یہ سہولت صرف عارضی طور پر بھی معطل ہوتی ہے تو پاکستان کی گرتی ہوئی معیشت کے لیے یہ ایک بڑا دھچکا ہوگا کیونکہ پاکستان کی 25 فیصد ایکسپورٹ یورپین ممالک کو ہوتی ہے اور 2014 ء کے بعد پاکستان اور یورپی ممالک کے درمیان تجارت میں 64 فیصد اضافہ ہو ہے۔ اگرچہ ہمارے وزیر اعظم نے اپنی جماعت کے یوم تاسیس پر اپنے خطاب میں اپنی ڈھائی سالہ حکومتی کارکردگی پر نہایت فخر کا اظہار کیا ہے لیکن ابھی دو روز قبل ہی نئے وفاقی وزیر خزانہ کا بیان تمام اخبارات میں شہ سرخیوں کے ساتھ شائع ہوا کہ معیشت کا پہیہ نہیں چل رہا اگر جی ڈی پی گروتھ جو پچھلے سال منفی 0.4 فیصد تھی اسے پانچ فیصد پر نہ لایا گیا تو چار سال تک ملک کا اللہ حافظ ہے۔ ایسی صورت میں پاکستان کو معاشی اور خارجی سطح پر جو مسائل درپیش ہوں گے وہ نہایت سنگین ہوں گے۔

فرانس کے سفیر کی ملک بدری کے حوالے سے جو مہم جوئی اختیار کی گئی، یورپی پارلیمنٹ کی قرار داد اس کا رد عمل ہے۔ ہمارے سماج میں مذہبی انتہاء پسندی کی شدت سے انکار ممکن نہیں، اقلیتوں کا معاملہ تو ایک طرف رکھیں یہاں تو مسلمان ایک دوسرے پر کفر اور الحاد کے فتوے آئے دن صادر کرتے رہتے ہیں، لیکن اس کے باوجود معاشرہ سست روی کے ساتھ ہی سہی آگے مگر بڑھ رہا ہے۔ ختم نبوت کے قانون کی سزاؤں پر اگرچہ ہمارے علماء کرام میں اختلاف موجود ہے جسے ڈائیلاگ کے ساتھ ایک نکتے پر لایا جاسکتا ہے۔

لیکن فی الحال ہمیں ضرورت اس قانون کے غلط استعمال کو روکنے کی ہے۔ لیکن یورپ نے کبھی اپنے کردار پر بھی غور کیا ہے؟ گستاخانہ خاکوں پر فرانس کا رد عمل کیا تھا؟ اس نے آزادی اظہار کے نام پر کروڑوں مسلمانوں کے جذبات کی توہین کی اور جس ڈھٹائی کا مظاہرہ کیا وہ دنیا کے سامنے ہے۔ آسیہ بی بی کا کیس دیکھ لیں آسیہ بی بی بھی اسی قانون کے تحت 2009 ء میں گرفتار ہوئی تھی اور سیشن کورٹ اور ہائی کورٹ نے اسے سزائے موت سنائی تھی لیکن اکتوبر 2018 ء میں سپریم کورٹ آف پاکستان نے اسے بری کر دیا تھا۔ اسے پاکستان کی عدالتوں ہی نے بری کیا اور وہ پاکستان چھوڑ کر کینیڈا میں سیاسی پناہ لے کر منتقل ہو گئی۔ وہاں اسے جو پروٹوکول دیا گیا اور فرانس کے صدر سے جس خصوصی انداز میں ملوایا گیا اس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ مغرب مسلمانوں کو اشتعال دلانے اور زچ کرنے کی پالیسی پر عمل پیرا ہے۔

یورپی پارلیمنٹ کی جانب سے ایک معاشی معاہدے کو جس طرح پاکستان میں توہین مذہب سے مشروط کیا گیا ہے وہ ایک افسوسناک عمل ہے۔ وزیر اعظم پاکستان نے بہرحال ایک مضبوط رویہ اختیار کیا اور یہ واضح اعلان کر دیا کہ ختم نبوت کے قانون پر سمجھوتا نہیں ہوگا اور ہم یورپی یونین کے تحفظات دور کریں گے۔ اس میں شبہ نہیں کہ وزیراعظم نے جس طرح اقوام متحدہ میں جس طرح اس مسئلے کو اجاگر کیا اور عالمی رہنماؤں کو اس سلسلے میں ہم نوا بنانے کی کوشش کی وہ قابل ستائش ہے۔ لیکن وزیر اعظم کو عالمی سطح پر اس معاملے کو مزید اٹھانے کی ضرورت ہے۔

ختم نبوت کے قانون کے ساتھ وطن عزیز کے عوام کی وابستگی انتہائی حد تک ہے کہ پیغمبر آخر الزماں ﷺ کی ناموس کا تحفظ ہمارے ایمان کا لازمی جز ہے۔ مغرب میں آزادی رائے کے نام پر گستاخانہ خاکوں کا جو سلسلہ شروع ہے، ہر مسلمان کا غم و غصے کا اظہار کرنا فطری عمل ہے۔ ہمیں مغرب سے احتجاج بھی کرنا چاہیے اور ہر وہ حربہ بھی اختیار کرنا چاہیے جس سے اسے احساس ہو کہ مسلمانوں کے جذبات کی حساسیت اس باب میں کیا ہے۔ ایسے میں ضرورت ہے کہ ہم آپ ﷺ کے اسوہ حسنہ کو عام کریں۔ جس کے لیے سب موثر ذریعہ ہمارا عمل ہے۔ ہم نے اپنے عمل سے ثابت کرنا ہے کہ ہم اس پیغمبر کی امت ہیں ہیں جو خدا کی حتمی ہدایت کا قیامت تک آخری ذریعہ ہیں۔ مغرب کے فتنہ باز اور گستاخ لاکھ کوشش کر لیں آپﷺکی سیرت مبارکہ کا سورج قیامت تک روشن رہے گا۔

مرے رسول ﷺ کہ نسبت تجھے اجالوں سے


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments