روزہ، ماہواری اور شرم!


گرما کی دوپہر کا سلسلہ یادوں کے دریچوں پہ دستک دیتے ہوئے کچھ ایسا یاد کرواتا ہے کہ منہ پہ بے اختیار مسکراہٹ پھیل جاتی ہے۔ بچپن، تجسس، ہمارے نہ ختم ہونے والے سوال، گرما میں سکول سے چھٹیاں اور طویل دوپہریں! اماں سے گپ شپ کا سلسلہ چلتا تو ماں بیٹی کا رشتہ غائب ہو جاتا۔ یوں لگتا دو سہیلیوں میں نوک جھونک ہو رہی ہے۔ ہمیں باتیں سننے کا شوق، اماں کو سنانے کا سو چقوں کی اوٹ میں رنگین ٹائلوں والے برآمدے میں سورج کی تپش سے اوجھل وہ دوپہریں خوب مزے سے کٹتیں۔

”اماں آپ کو ماہواری کس عمر میں آئی تھی؟“ ہم پوچھتے
”افوہ یہ تم کس قسم کی باتیں پوچھتی ہو؟“ اماں حیرانی سے دیکھتیں

”بتائیے نا“ ہمارا اصرار بڑھتا چلا جاتا،
”ارے بھئی جب میری شادی ہوئی تو اس وقت تک ماہواری نہیں آئی تھی،“
کیا؟ ماہواری کے بغیر شادی ہو گئی، آپ کے ماں باپ اس قدر ظالم؟ ”
ہم چلاتے،

”نہیں ظلم تو نہیں تھا بس اس زمانے کا رواج تھا بیٹیوں کی جلد شادی“
اماں صفائی پیش کرتیں،

”لو اب ایسی بھی کیا تیزی کہ بچی ہی کو بیاہ دیا۔ اچھا پھر شادی کے بعد ماہواری کے سلسلے کا کیا ہوا؟“
”کچھ بھی نہیں؟ کیا ہونا تھا؟ کچھ مدت کے بعد جب ماہواری آئی تو میری مدد میری ساس اور نند نے کی تھی“ اماں دھیرے سے کہتیں۔

”پھر بچے کب پیدا ہوئے؟“ ہمارا اگلا سوال،
”چار سال تک تو کچھ نہیں ہوا، تمہارے ابا نے بھی پروا نہیں کی، مجھے بھی کچھ زندگی کا پتہ چل گیا“
”پھر؟“

”پھر جب مجھے پہلا حمل ٹھہرا تو میری تو جان پہ بن گئی، یا اللہ اب میکے کیسے جاؤں؟ ابا اور بھائیوں کا سامنا کیسے کروں؟“ اماں ہونٹ سکوڑتے ہوئے کہتیں،

”کیا آپ کی شادی نانا نے خود کروائی تھی؟“ ہم کہتے
”لو اور کس نے کروانی تھی؟“

”اچھا میں سمجھی کہ آپ نے گھر سے بھاگ کے کی تھی، اس لئے حمل میں چھپ رہی تھیں“
”کیا اول فول بکتی ہے یہ لڑکی؟“
”لو خود ہی تو آپ کہہ رہی تھیں کہ حمل کے بعد جان پہ بن گئی“ ہم فوراً کہتے،

”ارے وہ تو میں یوں کہہ رہی تھی کہ شرم آتی تھی نا باپ سے“

”کس بات کی شرم؟ کیا انہیں علم نہیں تھا کہ شادی کے بعد شوہر بھی ہو گا اور ازدواجی تعلقات بھی جن کا نتیجہ حمل کی صورت میں نکلے گا۔ کیا ان کی شادی کے بعد نانی کو حمل نہیں ٹھہرا تھا۔ یاد آیا نانیاں بھی دو، دو۔“ ہم تقریر جھاڑتے،

”اف خدایا، لڑکی ہے یا وکیل۔ جان کو آجاتی ہے چلو ہٹو اب میں کچھ اور نہیں سنا رہی“ اماں جھنجھلاتیں،

”اوہ اماں، نہیں پلیز مجھے باقی کا قصہ بھی سننا ہے۔ اچھا اب نہیں بولوں گی، بتائیے پھر حمل کے بعد کیا ہوا“

”خاندان میں رواج یہ تھا کہ پہلا بچہ میکے میں پیدا ہوتا ہے۔“ اماں پھر شروع کرتیں،
”ارے بیٹی کی زچگی کے وقت میکے والوں کی خود ساختہ شرم و حیا کہاں جاتی ہے؟“ ہماری زبان پھر پھسلتی،
اب کے اماں پروا ہی نہ کرتیں،

” لیکن میں زچگی کے لئے تمہارے ابا کے پاس ہی رہی کہ ان کی مرضی یہی تھی۔ پھر جب تمہاری بڑی بہن پیدا ہو گئی اور پہلی دفعہ میں اپنے ماں باپ کو ملنے گئی تو اسے ابا کے سامنے گود میں ہی نہیں لیتی تھی“

”پھر کیا وہ یہ نہیں پوچھتے تھے کہ یہ بچہ کہاں سے آن ٹپکا ہے؟ کیا برابر کے گھر سے آیا ہے؟“
”توبہ ہے اب تمہیں شرم کی سمجھ نہیں آتی تو میں کیا کہوں“
”مگر شرم کس بات کی؟ کیسی شرم؟ اپنے ہی جسم سے شرم؟ جو ہوتا ہے اور جو ہونا ہے، اس سے شرم؟“

کس کو نہیں علم کہ ماہواری ایک طبعی عمل ہے۔ کون نہیں جانتا کہ حمل جنسی تعلق کے نتیجے میں ٹھہرتا ہے۔ کسے خبر نہیں کہ بچہ کیسے پیدا ہوتا ہے؟

تو پھر کس بات کی شرم؟
اور اس جھوٹی شرم کا فائدہ؟

سوائے اس کے کہ عورت کو اس کے اپنے ہی جسم سے شرمندہ کر دیا جائے، وہ اس اضطراب میں ہی تمام عمر مبتلا رہے کہ جسم باعث شرم ہے اور طبعی معاملات مکروہات!

رمضان سے وابستہ بے شمار کہانیاں ہر روز سننے کو ملتی ہیں جس میں ماہواری کے دنوں میں روزہ نہ رکھنا عورت کا ایک ایسا گناہ بن جاتا ہے جسے ہر صورت پوشیدہ رکھنے کی کوشش کی جاتی ہے۔

سحری اور افطار میں شمولیت لازم، نماز پڑھنے کی اداکاری، درد ہونے کی صورت میں چھپ چھپا کر دوا کھانا، ، پیڈ کی خصوصی احتیاط کہ سب کی نظر سے چھپا رہے، اف تک نہ کرنے کی ہدایت کہ ابا کو علم نہ ہو جائے کہ بیٹی کو ماہواری آئی ہے۔

سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ابا سے ماہواری کے معاملات سے اس قدر رازداری برتنے کے کیا معنی؟ کیا ابا نہیں جانتے کہ وہ بھی اپنی اماں کے بطن سے کسی ایسی ہی ماہواری کے نتیجے میں ہی اس دنیا میں تشریف لائے تھے؟ اور ان کی اپنی اولاد بھی بیگم کی اسی ماہواری کے حوالے سے جنم لے چکی ہے۔

یہاں یہ پوچھنا فطری ہے کہ کیا ابا کو تب بھی لاعلم رکھا جائے گا اگر کسی بچی کو اس کے اوائل شباب میں ماہواری شروع ہی نہ ہو اور بچی کی شناخت پہ سوال اٹھ کھڑا ہو؟

دوغلی فطرت رکھنے والا معاشرہ ان سوالات کو سن کر منہ پھیر لیتا ہے کہ خاموشی ہی میں عافیت ہے۔

نہ جانے کیسے مگر ان تمام معاشرتی دباؤ سے نکلنے کا فیصلہ ہم نے بچپن میں ہی کر لیا۔ جب ماہواری کا سلسلہ شروع ہوا تو کسی بھی وقت نماز پڑھنے کی اداکاری نہیں کی۔ رمضان میں سحری اور افطار میں حاضری لگوانے کی بجائے سیدھے سبھاؤ ایک ہی جواب تھا، روزہ رکھنے کی چھٹی ملی ہے ہمیں۔ اب جس کو جو بھی سمجھنا ہو، خود ہی سمجھا کرے۔
ہمیں ناز ہے کہ ایک صوم و صلوات کے پابند گھرانے سے تعلق نے بنیادی انسانی حقوق کی پاسداری اور پرسنل باؤنڈری کی آگہی سے ہمیں محروم نہیں رکھا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments