ممتا بینرجی: مغربی بنگال کی ’دیدی‘ جن کے مخالفین بھی ان کی سادگی کے معترف ہیں

مرزا اے بی بیگ - بی بی سی اردو ڈاٹ کام، دہلی


ممتا بینرجی
بی بی سی کے ہمارے ایک ساتھی حال ہی میں منعقدہ مغربی بنگال کے اسمبلی انتخابات کی رپورٹنگ کے لیے نندی گرام انتخابی حلقے کا دورہ کر رہے تھے جب انھوں نے ایک بوڑھے شخص سے یہ سنا کہ ’ممتا بینرجی تو مسلمان ہیں‘۔

ہمارے ساتھی نے اس بات کی تردید کی تو اس بوڑھے شخص نے کہا کہ انھوں نے ’اپنی آنکھوں سے واٹس ایپ پر دیکھا ہے کہ وہ کلمہ پڑھ رہی ہیں‘۔

ہمارے ساتھی حیرت زدہ تھے کہ بی جے پی نے اس انتخابی حلقے کو مذہب کے نام پر کس قدر تقسیم کر دیا ہے۔

سیاسی اور مذہبی تقسیم کا یہ حال تھا کہ ممتا بینرجی نے خود ہی نندی گرام کی ایک انتخابی ریلی میں بی جے پی کے اپنے مدمقابل سوویندھو ادھیکاری سے کہا کہ ہندو مسلم کارڈ کھیلنا بند کریں۔

انھوں نے کہا ‘میں ان سے کہنا چاہتی ہوں کہ میں خود برہمن خاندان سے ہوں اور وہ میرے ساتھ مذہب کا کارڈ نہ کھیلیں۔ مجھے ہندو دھرم نہ سمجھائیں۔’

بہر حال ممتا بینرجی اپنی سیٹ تو ہار گئیں لیکن ان کی جماعت نے 292 میں سے 213 سیٹیں جیت کر نئی تاریخ رقم کر دی ہے اور آج بدھ کو انھوں نے تیسری بار ریاست کی وزیر اعلیٰ کے طور پر حلف لیا ہے۔

یہ بھی پڑھیے

ممتا بینرجی کی واحد ’غیر متوقع‘ شکست اور بی جے پی کی انا کی جنگ

ممتا بینرجی بھارتیہ جنتا پارٹی کو بھاری شکست دینے میں کامیاب

جس کا نام لینا گوارا نہیں تھا ’وہ عورت‘ مغربی بنگال کی وزیر اعلیٰ کیسے بنی؟

ممتا کی مقبولیت

ممتا بینرجی کی زندگی

کولکتہ کے سماجی اور معاشی مبصر امیتابھ آکاش نے ٹیلفون پر مجھ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ممتا بینرجی کی زندگی کو ’جہد مسلسل سے تعبیر کیا جا سکتا ہے جو سادگی پسند ہیں اور اعلیٰ انسانی اقدار کی علمبردار ہیں‘۔

انھوں نے ممتا بینرجی کو حزب اختلاف کی آواز بھی کہا اور بتایا کہ کس طرح انھوں نے انڈیا کے معروف رہنما جے پرکاش نارائن کی کانگریس کے خلاف سماجی اور سیاسی جدوجہد کے سامنے مزاحمت کی تھی۔

سٹوڈنٹ رہنما کے طور پر اپنا کریئر شروع کرنے والی ممتا نے ایک زمانے بعد کانگریس کو خیرباد کہا اور 34 سال سے مغربی بنگال میں برسراقتدار بائیں بازو کی پارٹی سے ایسی سخت ٹکر لی کہ اسے وہاں سے چلتا کیا۔ حالیہ انتخابات میں اسے ایک سیٹ بھی نہ مل سکی ہے۔

آئیے ممتا بینرجی کی زندگی کے نشیب و فراز پر نظر ڈالتے ہیں جنھیں ’غریبوں کی مسیحا‘ کہا جاتا ہے اور وہ بیک وقت ذہین سیاست داں کے ساتھ پینٹر اور شاعرہ بھی رہی ہیں۔

ممتا بینرجی کو عرف عام میں ‘دیدی’ یعنی بڑی بہن کہا جاتا ہے اور حالیہ انتخابی حلقے میں وزیراعظم نریندر مودی کی جانب سے جس انداز میں ‘دیدی او دیدی’ کہا گیا شاید وہ مغربی بنگال کی عوام کو پسند نہیں آیا اور تمام تر کوششوں کے باوجود بی جے پی تین کا ہندسہ بھی نہ چھو سکی۔

ممتا

ابتدائی زندگی

ممتا بینرجی 5 جنوری سنہ 1955 کو کولکتہ کے ہندو برہمن خاندان میں پروملیشور بینرجی اور گایتری دیوی کے گھر پیدا ہوئیں۔ جب وہ 17 سال کی تھیں تو ان کے والد کا انتقال ہو گیا۔ کہا جاتا ہے کہ طبی سہولیات کی کمی کے سبب ان کا انتقال ہوا اور گھر کا بوجھ ان کی والدہ اور ان کے جوان کندھوں پر آ گیا۔

انھوں نے سنہ 1970 میں ہائر سیکنڈری کا امتحان پاس کیا جبکہ جوگ مایا دیوی کالج سے انھوں تاریخ کے مضمون میں گریجویشن کی ڈگری حاصل کی۔ اس کے بعد انھوں نے کولکتہ یونیورسٹی سے اسلامی تاریخ میں ایم اے کی ڈگری حاصل کی اور پھر ایجوکیشن اور لا یعنی قانون کے مضامین میں بھی ڈگریاں حاصل کیں۔ انھیں کولکتہ یونیورسٹی کی جانب سے ڈی لٹ کی اعزازی ڈگری بھی دی گئی ہے۔

کولکتہ سے ایک شخص نے نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر بتایا کہ ممتا بینرجی کے مخالفین نے اسلامی تاریخ میں ماسٹرز کی ڈگری حاصل کرنے کے حوالے سے ان کے بارے میں یہ خبر گرم کر دی تھی کہ وہ مسلمان ہو گئی ہیں۔ چنانچہ ایسے بہت سے کلپس سوشل میڈیا پر دیکھے جا سکتے ہیں جس میں وہ مذہب اسلام کے متعلق اپنے علم کے اظہار کے لیے ‘اللہ اکبر’ کہتی یا پھر کلمہ توحید پڑھتی نظر آتی ہیں۔ لیکن ان کے اسلام قبول کرنے کے متعلق اڑائی جانے والی باتوں میں کوئی سچائی نہیں ہے۔

انڈیا کے ایوان بالا یعنی راجہ سبھا میں رکن پارلیمان ندیم الحق نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ وہ ایک ’دس فٹ لمبے اور دس فٹ چوڑے کمرے میں رہتی ہیں جہاں ان کی چارپائی کے علاوہ ان کا ایک چھوٹا سا مندر بھی ہے‘۔

سیاسی سفر کی ابتدا

ممتا بینرجی نے اپنے کالج میں کانگریس پارٹی کی طلبہ جماعت کے قیام میں کلیدی کردار ادا کیا اور وہاں سے ہی ان کے سیاسی کریئر کا آغاز ہوا۔ لیکن عوام کی نگاہ ان پر اس وقت گئی جب انھوں نے جے پرکاش کی مخالفت کی۔

ممتا بینرجی سے متعلق اپنی پہلی یادداشت کا ذکر کرتے ہوئے رکن پارلیمان ندیم الحق نے بتایا کہ جب وہ کولکتہ سے نکلنے والے ایک روزنامہ سے منسلک تھے تو پہلی بار سنہ 1984-85 میں ان لوگوں کی نظر ایک ایسی لڑکی پر پڑی تھی جو کہ کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا کے قد آور رہنما سومناتھ چیٹرجی کے خلاف انتخابی میدان میں تھیں اور وہ اپنا پوسٹر خود ہی دیواروں پر چسپاں کر رہی تھیں۔

انھوں نے اس انتخاب میں جادوپور پارلیمانی حلقے سے نہ صرف سومناتھ چیٹرجی کو شکست دی بلکہ وہ انڈیا کی سب سے کم عمر اراکینِ پارلیمان میں سے ایک بنیں جبکہ سوم ناتھ چیٹرجی بعد میں لوک سبھا کے سپیکر بھی مقرر ہوئے۔

اس سے قبل وہ چار سال تک مغربی بنگال میں مہیلا (ویمن) کانگریس کی جنرل سیکریٹری رہیں اور پھر سنہ 1984 میں وہ آل انڈیا یوتھ کانگریس کی جنرل سیکریٹری بنیں۔

سنہ 1989 کی کانگریس مخالف لہر میں وہ شکست سے دوچار ہوئیں لیکن اس کے بعد انھوں نے سنہ 1991 کے انتخابات میں کامیابی حاصل کی اور پھر کولکتہ ساؤتھ کو اپنا انتخابی میدان بنایا جہاں سے وہ سنہ 1996، 1998، 1999، 2004 اور 2009 کے پارلیمانی انتخابات میں کامیاب ہوئیں۔

ممتا بینرجی

ممتا بینرجی یوتھ اور کھیل کے شعبے کی بھی وزیر رہ چکی ہیں

کانگریس سے علیحدگی اور نئی پارٹی کا قیام

انھوں نے کانگریس میں شفافیت کے لیے آواز اٹھائی اور پارٹی پر الزام لگایا کہ وہ ریاست مغربی بنگال میں کمیونسٹ پارٹی کی درپردہ حلیف ہے۔ مغربی بنگال میں کانگریس کے رہنما سومیندرناتھ مترا کے ساتھ اختلافات کے بعد انھوں نے پارٹی چھوڑنے کا فیصلہ کیا اور پھر ایک سال بعد سنہ 1998 میں مکل رائے کے ساتھ ترنمول کانگریس کی بنیاد ڈالی اور اس کی پہلی چیئرپرسن بنیں۔

وہ پہلی خاتون وزیر برائے ریلویز ہنیں اور محمد ندیم الحق کے مطابق انھوں نے اپنے دور میں عوام کے لیے ریل کے کرائے میں ایک روپے کا بھی اضافہ نہیں کیا۔ انھوں نے بغیر ٹکٹ چلنے والوں کے لیے ایک ‘عزت سکیم’ چلائی جس میں غریب طبقے کے عوام کے لیے کولکتہ کی لوکل ٹرین میں 25 روپے ماہانہ کا پاس جاری کیا گیا جو کہ پہلے ڈیڑھ سو روپے ہوا کرتا تھا۔

ترنمول کانگریس کو ریاست میں تقریباً ایک دہائی تک کوئی نمایاں کامیابی نہیں ملی لیکن وہ تن تنہا اپنے بل بوتے پر پارٹی کو آگے لے کر چلتی رہیں یہاں تک کہ دس سال قبل سنہ 2011 میں فیصلہ کن گھڑی آئی جب ان کی پارٹی نے ریاست میں اکثریت حاصل کی اور وہ وزیر اعلی بنیں۔

‘وہ عورت’

ممتا سے قبل سی پی آئی ایم کے رہنما اور مسلسل پانچ بار وزیر اعلیٰ رہنے والے جیوتی باسو کو ‘بھدرلوک’ یعنی جینٹل مین یا اشرافیہ کا نمائندہ کہا جاتا تھا، وہ ممتا بینرجی سے اس قدر خائف رہے کہ انھوں نے کبھی اپنی زبان سے ممتا بینرجی کا نام نہیں لیا بلکہ اس کی جگہ وہ ان کا ذکر ‘وہ عورت’ کہہ کر کرتے رہے۔

لیکن ممتا نے اپنی جیت کے بعد اپنی جیت کو ‘ماں، مٹی اور مانش (انسانیت)’ کی جیت بتایا۔ وہ ہر لمحے عوام کے ساتھ کھڑی رہیں۔ امیتابھ آکاش نے بتایا کہ آج جو بھی ترقی نظر آ رہی ہے وہ عوام کی بنیادی ضرورتوں کو پورا کرنے والی ہے جیسے سڑک، بجلی، پانی، ٹوائلٹ وغیرہ۔

انھوں نے کہا کہ ‘یہ بات درست ہے کہ ان کے دور میں بنگال میں انڈسٹریز نہیں آئیں جیسا کہ دوسری ریاستوں میں صنعتی ترقی ہوئی اور اس کی بنیادی وجہ ان کا بنگال کی غریب عوام کی طرف خیال ہے۔’

جولائی سنہ 1993 میں جب وہ یوتھ کانگریس کی صدر تھیں تب ایک تحریک کے دوران 13 نوجوان پولیس کی جانب سے فائر کی جانے والی گولیوں کا شکار ہو گئے تھے۔

ممتا بینرجی

اس مہم کے دوران ممتا کو بھی چوٹیں آئیں لیکن اس سے پہلے اسی سال سات جنوری کو وہ ریپ کی شکار ایک قوت گویائی اور سماعت سے محروم لڑکی کے ساتھ اس وقت کے وزیر اعلیٰ جیوتی باسو سے ملنے ان کے چیمبر کے دروازے کے سامنے دھرنا دے کر بیٹھ گئیں اور الزام لگایا کہ ’مجرموں کو سیاسی پناہ حاصل ہے‘۔

اس وقت وہ مرکزی وزیر مملکت تھیں لیکن وزیر اعلیٰ باسو سے ان کی ملاقات نہیں ہو سکی۔ جب وزیر اعلیٰ باسو کی آمد کا وقت ہوا اور ممتا وہاں سے ٹس سے مس نہ ہوئیں تو پولیس نے انھیں زبردستی گھسیٹ کر سیڑھیوں سے نیچے اتار دیا۔ اس دوران ان کے کپڑے تک پھٹ گئے تھے۔

ممتا نے اسی دن قسم کھائی تھی کہ اب وہ ریاست کی وزیر اعلیٰ بننے کے بعد ہی دوبارہ اس عمارت میں قدم رکھیں گی۔ انھوں نے اپنی قسم کو پورا کیا اور 20 مئی 2011 کو تقریباً 18 سال بعد انھوں نے وزیر اعلیٰ کی حیثیت سے اس تاریخی سرخ عمارت میں دوبارہ قدم رکھا۔

حالیہ انتخابات میں پاؤں میں چوٹ لگنے سے لے کر لالو عالم کے جان لیوا حملے تک متعدد ایسے واقعات رونما ہوئے جس نے ممتا بینرجی کو مضبوط سے مضبوط تر کیا۔

ممتا بینرجی

مخالفین بھی سادگی کے معترف

ممتا بینرجی کی زندگی بہت سادہ رہی ہے اور ان کی ذاتی زندگی اور رہن سہن میں کوئی تبدیلی نظر نہیں آتی ہے۔

ان کا ایک پرانا انٹرویو ان دنوں سوشل میڈیا پر وائرل ہے جس میں وہ خود بتاتی ہیں کہ وہ حکومت سے ایک پیسہ بھی نہیں لیتیں۔

وہ کہتی ہیں کہ انھوں نے رکن پارلمیان کی حیثیت سے اپنی واجب پینشن کا ایک پیسہ بھی نہیں لیا۔ وہ ایک وزیر اعلی کی حیثیت سے کوئی تنخواہ نہیں لیتی ہیں۔ وہ کوئی دوسری سرکاری سہولیات بھی نہیں لیتی ہیں۔ وہ اکانومی کلاس میں سفر کرتی ہیں اور اپنے اخراجات خود اٹھاتی ہیں۔

انھوں نے سنہ 2020 میں اپنے آفیشل ٹوئٹر اکاؤنٹ سے بھی یہ بات کہی تھی کہ سات بار وہ رکن پارلیمان رہیں اور انھوں نے اپنی پینشن کو بھی معاف کر دیا۔ انھوں نے لکھا کہ ‘میں بہت ہی محدود ذرائع والے گھر سے آتی ہوں اور اسی طرح زندگی گزارتی ہوں۔’

تو ایسے میں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ان کے اخراجات کہاں سے پورے ہوتے ہیں۔ اس کے جواب میں ان کا کہنا ہے کہ وہ اپنی کتابوں اور میوزک کی رائلٹی سے ملنے والی رقم سے اپنے اخراجات پورے کرتی ہیں۔ انھوں نے یہ بھی کہا کہ وہ اپنی پینٹگ سے آنے والے پیسے بھی خود پر خرچ نہیں کرتی ہیں۔ بنگالی زبان میں ان کی نظموں اور کہانیوں کی کئی درجن کتابیں ہیں جن میں کئی بیسٹ سیلرز کے شمار میں آتی ہیں۔

آل انڈیا ترنمول کانگریس پارٹی سے ایوان بالا کے رکن محمد ندیم نے بتایا کہ ’ان کا گھر ابھی بھی کھپریل والا ہے اور ان کے پاس چار سوتی ساڑھیاں اور دو جوڑی ہوائی چپلیں ہیں اور آج بھی اپنی سینٹرو گاڑی میں سفر کرتی ہیں۔’

مودی

مودی اور ممتا کے طرز زندگی کا فرق

جبکہ امیتابھ آکاش نے بتایا کہ ‘آج ہی صبح ہم لوگ مودی جی کے پراجیکٹ وسٹا اور ان کی اور نائب صدر جمہوریہ کی رہائش پر حیرت کا اظہار کر رہے تھے اور سوچ رہے تھے کہ ممتا بینرجی کی زندگی کتنی سادہ ہے۔ وہ چاہتیں تو کہیں بھی اپنے لیے محل تیار کروا سکتی تھیں لیکن انھوں نے ایسا نہیں کیا اور شاید عوام کے ساتھ ان کے لگاؤ نے ہی ان کو بی جے پی کی تمام مشینری کے خلاف سرخرو کیا ہے۔’

انھوں نے بتایا کہ گھر سے متصل ایک دو منزلہ عمارت ضرور بنی ہے جہاں چار چھ سنتری اور پارٹی کے دوسرے لوگ رہتے ہیں۔

دی سٹیس مین اخبار کے مطابق ترنمول کانگریس یوتھ ونگ کے ابھیشیک بینرجی نے کہا کہ ’اگر آپ نریندر مودی اور ممتا بینرجی کے طرز زندگی کا موازنہ کریں گے تو آپ کو فرق پتا چل جائے گا۔ اتنے برسوں میں ممتا بینرجی کے طرز زندگی میں تبدیلی نہیں آئی۔ وہ اب بھی کالی گھاٹ کے علاقے میں اپنے چھوٹے سے کھپریل کے مکان میں رہتی ہیں۔‘

انھوں نے مزید کہا کہ ‘عوامی لیڈر وہ ہے جو سادہ اور ایماندار زندگی جیتا ہے اور اسے سی بی آئی یا آئی ڈی کے بھوت سے ڈرایا نہیں جا سکتا ہے۔’

دوسری جانب وزیر اعظم کا پرتعیش طرز زندگی کسی سے پوشیدہ نہیں ہے اور اب یہ خبریں بھی ہیں کہ ان کی نئی رہائش گاہ سنہ 2022 تک مکمل ہونے جا رہی ہے۔

ممتا کی مقبولیت

عوام کی لیڈر

سنہ 2011 میں وزیر اعلی بننے سے قبل وہ دوسری بار ریلویز کی وزیر تھیں اور ان پر یہ الزامات لگائے گئے کہ عوام کے مفاد کی خاطر انھوں نے ریلویز کو مقروض کر دیا۔

محمد ندیم الحق نے بتایا کہ جب ریلویز میں ان کے جانشین دینیش ترویدی نے مسافروں کے کرائے میں ایک روپے کا اضافہ کیا تو انھوں نے اس اضافے کو برداشت نہیں کیا اور انھیں اس ذمہ داری سے سبکدوش کر دیا۔

سنگور میں ٹاٹا موٹر کا پراجیکٹ ہو یا پھر نندی گرام میں انڈونیشیا کے سلیم گروپ کا پراجیکٹ، ممتا بینرجی نے دیہی عوام کے حق میں آواز اٹھائی اور ان کی مخالفت کی۔

ذاتی زندگی

ممتا بینرجی اپنی صحت کا خیال رکھتی ہیں اور زیادہ سے زیادہ پیدل چلنے میں یقین رکھتی ہیں۔ اکانومک ٹائمز کے مطابق وہ مصالحہ دار اور روغن دار کھانوں سے پرہیز کرتی ہیں۔ ان کی پسند کے کھانے ابلے ہوئے چاول اور سبزیاں ہیں۔ وہ چائے اور چاکلیٹ پسند کرتی ہیں اور پانی پینے پر زیادہ دھیان دیتی ہیں۔

ایک رپورٹ کے مطابق وہ روزانہ پانچ سے چھ کلومیٹر چلتی ہیں جبکہ ایک ساتھ وہ دس کلومیٹر چل سکتی ہیں۔

ان کے لباس میں سفید ساڑھی ہے جس میں کنارے مختلف ہلکے رنگوں کے ہوتے ہیں جبکہ بعض ساڑھیوں میں ہلکی دھاریاں بھی دیکھی جا سکتی ہیں۔

ان کے گھر کے بارے میں کہا جاتا ہے برسات میں بارش سے دالان بھر جاتا اور کھپریل کی چھت بھی ٹپکتی ہے۔ وہ اپنے گھر میں جانے کے لیے کبھی پانی سے بھرے دالان میں اینٹ ڈال کر جایا کرتی تھیں۔ ایک بار سابق وزیر اعظم اٹل بہاری واجپئی جب ان کے گھر گئے تو اسے دیکھ کر حیرت زدہ رہ گئے۔

ممتا بینرجی موسیقی کی دلدادہ ہیں اور انھوں نے کولکتہ کی ٹریفک لائٹس پر ’رابندر سنگیت‘ یعنی نوبل انعامہ یافتہ رابندر ناتھ ٹیگور کے گیتوں کو بجائے جانے کا انتظام کیا۔ اسی طرح وہ بنگلہ دیش کے قومی شاعر قاضی نذرالاسلام کی بھی مداح ہیں۔

امیتابھ آکاش کا کہنا ہے کہ ان کی سادگی بناوٹی نہیں ہے اور نہ ہی ان میں دکھاوا ہے۔ ان کی سب سے بڑی بات عوام سے ان کا تعلق ہے اور عوام میں ان کی پہنچ ہے۔

انھوں نے کہا کہ وہ ’بہت سے ایسے لوگوں کو جانتے ہیں جنھوں نے حالیہ اسمبلی انتخابات میں بی جے پی کو ووٹ دیا ہے لیکن جس طرح سے بی جے پی کے ریاست سے باہر سے آنے والے رہنماؤں نے دیدی پر یلغار کی وہ انھیں پسند نہیں آیا اور وہ اسمبلی انتخابات کے حالیہ نتیجے سے بہت مطمئن نظر آ رہے ہیں۔‘

ترنمول کانگریس کی رہنما اور پارلیمنٹ میں اپنی شعلہ بیان تقاریر کے لیے معروف رکن پارلیمان مہوا موئترا نے دو مئی کو بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’لوگ پوچھتے ہیں کہ انڈیا میں حزب اختلاف کہاں ہے تو بنگال کی عوام نے دیدی کے روپ میں دکھا دیا ہے کہ حزب اختلاف یہاں ہے، یہاں ہے۔۔۔ یہ ایک شیرنی کی دہاڑ ہے جو پورے ملک میں سنی جا سکتی ہے۔‘


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32296 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp