مسئلہ چلغوزے کا نہیں، اخروٹ کا ہے!


میں 45 برس کا ہو چکا، اور وطن عزیز میں دین  کی تشریحاتی تماشے دیکھتے دیکھتے عمر بیت چلی۔ عمرعزیز کوئی آٹھ سال ہوگی جب گکھڑمنڈی میں واقع اپنے اکثریتی دیوبندی ننھیالی خاندان میں گرمیوں کی چھٹیاں گزارتے ہوئے عورت کی بھنویں بنوانے کے عظیم موضوع کے بارے میں کانوں میں بات پڑی اور قصہ یہ معلوم ہوا کہ تین چار گھر چھوڑ کر اک صاحب نے اپنی زوجہ محترمہ کا بازو اس بات سے توڑ دیا  کہ انہوں نے اپنی بھنویں بنوا لی تھیں۔ نہ بنواتیں تو شاید  زوجہ محترمہ کی بھنووں سے جو پِینگ (جھولہ) لٹکا  کر خاوند صاحب نے  جھولنا تھی، وہ ضائع چلی گئی تو انہیں غصہ آ گیا۔ ذہن اگر دغا نہیں کر رہا تو تب ہی زندگی میں پہلی مرتبہ اہل حدیث کا لفظ بھی سنا تھا، جو خاوند محترم تھے۔ کچھ ایسا ہی واقعہ اک بار پھر سنہ 2002 میں پیش آیا جب اک کولیگ نے اپنی زوجہ محترمہ کو ہر طرف سے اسی بات پر سینک ڈالا۔ اس مرتبہ بھنووں کے ساتھ خاتون نے “اپر لِپ” کی بھی تھریڈنگ کروا لی تھی۔ مجھ جیسے جاہل مرد چلیں یہ جان لیں کہ گویا بھابھی صاحبہ نے نزاکت والی شیو کروا لی تھی۔ بازو اس مرتبہ بچ گیا، مگر کلائی توڑ ڈالی۔ بعد میں میرے سامنے دکھ کا اظہار کیا، تو میں نے انکا خوب مذاق اڑایا۔ انکا تعلق شیخوپورہ سے تھا، اور انکے تشدد کی وجہ،  انکے اہلحدیث مولوی صاحب کا بیان تھا جس میں بیوٹی پارلر جانے والی خواتین کو نامعلوم کون حوالہ جات سے جہنم کی دھمکی تھی اور اس “گھناؤنے جرم میں شریک” خاوند پر بھی برابر کی لعن طعن تھی۔ تو مردِ محترم نے ستر (یاشاید بہتر) حورین و غلمانان سے اپنے خلوتی حقوق بچانے کی دیوانہ وار کوشش میں، خاتون کو، بقول الطاف حسین لندن والے، “ٹھوک” دیا!

زندگی میں ایسے حقیقی واقعات کی تفصیل کافی دلچسپ اور طویل ہے۔ گاہے بگاہے آپکی خدمت میں لاتا رہتا ہوں، لاتا بھی رہونگا۔

بہت لطف آتا ہے اب پاکستان میں تشریحاتی دین کے نام کے تماشے دیکھ کر۔ پگڑیوں کے رنگ سے اب مسلک پہچانے جا رہے ہیں، کبھی یہ اعزاز ریشِ مبارکہ کے سر تھا کہ موصوف کا مسلک کون سا ہے۔ ہر اک مسلک نے ٹی وی کو حرام اور ریڈیو کو شیطان کی آواز سے تشبیہ دی، ہر اک مسلک کا اب ایک سیٹلائٹ ٹی وی چینل ہے۔  دین تو قرآن مبارکہ میں اکمل ہو چکا، لہذا ٹی وی یا ریڈیو کی بابت تو یہ بدل نہیں سکتا، تو حضرات گرامی سے سوال تو اک بنتا ہے کہ پھر کیا بدلا؟ آپکی مسلکی ضروریات، معاشرے میں نفوذ پذیری کہ جس سے آپکی معاشی مفادات جڑے ہوئے ہیں، آپکی دینی سیاست کے دباؤ یا دوسرے مسلک کا مقابلہ؟ اب تو انٹرنیٹ بھی حال ہی میں حلال ہو گیا، وگرنہ یہ پہلے اغیار کی سازش تھی۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ  تمام مسالک کے رہنمانانِ گرامی، وارثینِ جبہ و دستار، تمام کے تمام، مرد حضرات ہی ہیں۔ عورت عالمہ کئی ہزاروں نوری سال تک دکھائی نہیں دیتیں۔ مؤمنین دوست  بھلے مجھے جاہلیت کا طعنہ ماریں گے،  مگر دینی تشریحات کے پاپولر بیانیہ میں کہیں کوئی خاتون، کم از کم پاکستان میں تو نظر نہیں آتی۔ گویا نیک مؤمن مردوں کی اک ایسی  فولادی دیوار  ہے جو میرے معاشرے کی عورتیں اپنی  مسلسل کوشش  کے پھاوڑوں اور کدالوں سے  کھود کھود کر پتلا کرتی ہیں، اگلے ہی دن وہی دیوار وہیں موجود ہوتی ہے، مگر خدا بھلا کرے چلغوزوں، اوہ معذرت، عورتوں کا کہ پھر اپنی کدالیں اور پھاوڑے لے کر میدان میں اتر آتی ہیں۔

مجھ سوں کو پاکستانی علماء اور تشریحاتی دین کے مسلکی رہنماؤں سے کوئی گلہ نہیں، کہ جیسے چلغوزے والے نے چلغوزے بیچنے ہیں، ویسے ہی اپنے تئیں دین کا علم رکھنے والے، اپنا علم فروخت کریں گے۔ دنیا بھر کے معاشروں میں پائی جانے والی ہر شے کی میرے صاحبو، اک سیاست، اور اک  معیشت ہوتی ہے۔ جیسے کوئی مفت میں چلغوزے نہیں فروخت کرتا، ویسے ہی کوئی مذہبی تشریحات کا علم خداواسطے آپکی بھلائی کےلیے نہ دے گا۔

گلہ مگر اپنے معاشرے میں موجود اک خوفناک اکثریت سے ہے جسکا تعلق “پڑھی لکھی” کلاس سے ہے جو تنقیدی شعور، مطالعہ، گفت اور شنید کے ہنر سے نہ صرف قاصر ہیں، بلکہ مسلسل انکاری بھی ہیں۔ اور کیا ہی عجب کہ اس دین کے پیروکار بھی ہیں کہ جسکا آغاز “اقراء” سے ہوا، اور جو تفکر نہ کرنے والوں کو جانوروں سے بھی بدتر قرار دیتا ہے۔ اور یہ بھی اس دین کے لانے والےؐ نے (اصلی) عالم کے قلم کی روشنائی کو شہید کے خون کے برابر، اور بعض حوالہ جات میں برتر قرار دیا۔ اور اِسی دین کے نام لیواؤں سے پوچھنا یہ ہے کہ وہ آخری مرتبہ کب تھی کہ آپ نے اپنے اپنے مسلک کے “علماء” سے مردوں کے بارے میں قرآنی یا احادیثی احکامات کے بارے میں سنا؟ وہ آخری مرتبہ کب تھی جب آپ نے اپنے اپنے مسلک کے “علماء” سے انکے تشریحاتی بیانیہ کے بارے میں سوال و جواب کیے؟ ایسا آخری مرتبہ کب ہوا جب آپ نے اپنے اپنے مسلک کے “علماء” سے  دنیا، معاشرے اور زندگی میں پیش آنے والے حقیقی اور جدید چیلینجز کے بارے میں کوئی بات سنی؟ وہ آخری مرتبہ کب تھی جب آپ نے اپنے اپنے مسلک کے “علماء” سے اپنی زندگی میں موجود قریب ترین  مسائل پر آواز اٹھاتے ہوئے سنا؟

کوئی آخری مرتبہ کبھی تھی بھی، ویسے؟

تو اکثریتی اخروٹ نہ ہو تو کیا، کشمکش کے میوہ جات ہونگے؟ مسئلہ میرے صاحبو، عورت کے چلغوزے، کیلے یا مالٹے ہونے کا نہیں، مسئلہ اکثریتی مردوں، اور عورتوں کے اخروٹ ہونے کا ہے۔ اور وہ بھی کاغذی نہیں، کاٹھے، اصیل کاٹھے!

ارے بھئی، میرے چلغوزے کہاں گئے؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments