تنقید برائے تنقید اور فادر گیپون کی کہانی


چند دن پہلے گلگت میں وزیر اعظم پاکستان کے میگا ترقیاتی منصوبہ کا اعلان کے ساتھ ہی گلگت بلتستان کے ضلع غذر میں احتجاج شروع ہوا اس کے بعد سوشل میڈیا پر ایک لاحاصل بحث و تکرار شروع ہوئی ہے دلیل کی بجائے دشنام طرازی کا بازار گرم ہے اور بہت سارے تعلیم یافتہ نوجوان تنقید برائے تنقید کے اس شیطانی دائرے کا شکار بن رہے ہیں۔

عوامی رائے یا موقف پر اثر انداز ہونے کے لئے افراد کے خلاف منظم تشہیری مہم چلائی جا رہی ہے جو کہ ہمارے معاشرے میں سرایت شدہ منفی سوچ اور غیر سیاسی اپروچ کا منہ بولتا ثبوت ہے جو کہ انتہائی افسوسناک نتائج کا باعث ہو سکتی ہے۔

اس طرح کی سوچ کے اپنے محرکات ہیں جس طرح درخت اپنے جڑوں سے نمی کشید کرتے ہیں اس طرح ایک فرد معاشرے کی معاشی اور سماجی جڑوں سے اپنے جذبے اور خیال کشید کرتا ہے اور معاشرہ افراد سے ہی وجود میں آتا ہے۔

اگرچہ شگفتہ امیدوں اور ہولناکیوں کی موجودگی میں بے یقینی ایک تکلیف دہ بات ہے مگر یہ بات بھی سچ ہے کہ مدتوں بعد گلگت بلتستان کے ضلع غذر میں روحانی غلامی سے آزادی کا صحت مند عمل ظاہر ہوا ہے لیکن دھیرے دھیرے اس نے ایک ایسی تنہائی کی صورت اختیار کر لی ہے جو معاشرتی فراست کے لیے موزوں نہیں اور قومی سطح پر اس سماجی اجنبیت کے نتائج پوری طرح خوشگوار نہیں۔

لہذا گلگت بلتستان میں قومی سیاست کے لیے ایسا قوی اصول طے کرنے کی اشد ضرورت ہے جو معاشرتی اتحاد پیدا کرسکے نہ کہ انتشار چونکہ اس وقت دنیا کے شورش زدہ ممالک کی صورتحال ہمارے سامنے ہے۔

گلگت بلتستان کے موجودہ معروضی حالات میں وقوع پذیر ہونے والے نئے سیاسی اور سماجی مسائل کا سامنا کرنے کے لیے قومی رہنماؤں کو سیاسی بصیرت کا مظاہرہ کرنا ہوگا ورنہ انتشار ناقابل برداشت ہوگا اور خاص کر وہ انتشار جو تقسیم کرو اور حکومت کرو والی نوآبادیاتی پالیسی کے تحت عوام پر ٹھونسا گیا ہو۔

سچ بات تو یہ ہے کہ کسی رہنما اصول کی عدم موجودگی میں سیاست اقتدار کی ہوس اور جابر و ظالمانہ جدوجہد بن جاتی ہے اور یہی کچھ گلگت بلتستان میں ہوتا ہوا صاف نظر آ رہا ہے

دلیل اور ثبوت کے ساتھ اختلاف رائے کرنے کے بجائے سیاسی مخالفین پر الزامات لگانے کی روایت گلگت بلتستان میں بہت پرانی ہے۔

پہلے یہ کام سرکار کرتی تھی اب سیاسی کارکن بھی اسی نقش قدم پر عمل پیرا ہیں جو کہ ایک قابل افسوس بات ہے اور اتنا بدصورت عمل ہے جیسے خوبصورت ترین بندر انسان کے مقابلے میں بدصورت ہے۔

بقول جارج ارویل
The further a society drifts from truth
The more it will hate those who speak it.

گزشتہ دنوں گلگت بلتستان کے لیے پانچ سالہ ترقیاتی میگا پروجیکٹ کے اعلان اور عین اسی وقت ضلع غذر میں اس میگا منصوبہ کے خلاف ایک سیاسی احتجاج شروع ہوا۔

اس موضوع پر دو روز قبل میں نے ایک مضمون لکھا جس کے شائع ہونے کے بعد حسب توقع کچھ سوشل میڈیا ایکٹوسٹ حضرات نے میرے مضمون پر نظریاتی اختلاف کرنے کی بجائے ذاتیات پر رائے زنی شروع کی حالانکہ میں نے اس مضمون میں غیر جمہوری یا غیر اخلاقی ایک لفظ بھی نہیں لکھا تھا نہ ہی کسی کی ذات پر تنقید کیا تھا بلکہ عوام کے سامنے ان اہم ایشوز پر اپنا موقف رکھا تھا جو گلگت بلتستان میگا پراجیکٹ اور اس پر شروع ہونے والے احتجاج سے تعلق رکھتے تھے۔

مضمون میں صلع غذر کے مسائل کی نشاندہی کی تھی اور ریکارڈ کی درستی کے لیے ان ترقیاتی منصوبوں کا تصدیق کرنے کے بعد ذکر کیا تھا جو سرکاری کاغذات میں موجود ہیں جن کا آرٹیکل میں حوالہ دیا تھا۔

گلگت بلتستان کے ان اہم مسائل کو بالائے طاق رکھتے ہوئے کچھ افراد نے ذاتیات پر رائے زنی کرنی شروع کی۔ عام طور پر میرے نقطہ نظر سے ان لوگوں کو ضرور تکلیف ہوتی ہے جو وائسرائے بن کر اس خطہ بے آئین پر حکومت کرتے چلے آرہے ہیں۔

یہاں اس بات کی بھی وضاحت لازمی ہے کہ گزشتہ کئی سالوں سے مسئلہ کشمیر اور گلگت بلتستان کے قومی سوال پر میرا ایک واضح نقطہ نظر ہے۔

اپنے نقطہ نظر کے تحت گزشتہ کئی سالوں سے گلگت بلتستان کی تاریخ سیاست اور مسئلہ کشمیر پر مضامین لکھ رہا ہوں تب سے آج تک دشنام تراشیوں کا سلسلہ جاری ہے اور کچھ لوگوں نے میرے ذاتی نقط نظر کو دربار اور سرکار سے جوڑنے کی ناکام کوشش کی ہے۔

لہذا ریکارڈ کی درستی کے لیے یہ وضاحت لازمی ہے کہ کبھی کسی دربار سے میرا کوئی تعلق نہیں رہا ہے نہ ہی میرا مزاج اس طرح کا ہے کہ جی حضوری کرتا پھروں۔

نہ ہی آج تک ذاتی مفاد کے لیے کسی دربار کا چکر لگایا ہے۔ البتہ یہ بات سب اچھی طرح جانتے ہیں کہ گلگت بلتستان میں وہ کون سے لوگ ہیں جنہوں نے یہ کام بہت سال پہلے سے سنبھالا ہوا ہے اور بے شرمی کے ساتھ دوسروں پر انگلیاں بھی اٹھاتے ہیں۔

دراصل اس طرح کے لوگ قوم کو آپس میں لڑانے کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں کیونکہ وہ یہ پسند ہی نہیں کرتے کہ تمام افتادگان خاک آپس میں دوست بنیں اور متحدہ ہو کر اپنے قومی حقوق کا دفاع کریں بلکہ وہ چاہتے ہیں کہ نفرت بو کر قوم کو تقسیم کریں تاکہ دوسروں کا کام آسان ہو۔

Fr. Gapon

ایسے لوگوں کی حرکتوں سے مجھے زار روس کے عہد کے ایک اہم کردار فادر گیپون کی کہانی یاد آتی ہے جس کا ذکر مشہور کمیونسٹ انقلابی نظریہ دان لیون ٹراٹسکی نے اپنی اب بیتی My Life: An Attempt at an Autobiography میں کیا ہے۔ وہ لکھتے ہیں کہ فادر گیپون نے لینن کی جلاوطنی کے زمانے میں بیرون ملک جاکر ان سے ملاقات کی تھی جس کے متعلق ایک بار لینن نے کہا تھا کہ یہ بیچارہ فادر ہمارا ہمدرد ہے۔

واضع رہے کہ 22 جنوری 1905 کو، فادر گیپون نے زار روس کو ایک عوامی درخواست پیش کرنے کے لئے کی گئی مارچ کی قیادت کی تھی اور اس پرامن احتجاج میں ہزاروں کارکنوں نے حصہ لیا تھا البتہ یہ کارکن زار کی حکومت اکھاڑنے کی کوشش نہیں کر رہے تھے لیکن اس کے باوجود زار روس کی پولیس نے فائرنگ کر کے بہت لوگوں کا قتل عام کیا۔ تاریخ میں یہ واقعہ خونی اتوار کے نام سے مشہور ہوا۔ بالشویک پارٹی نے لینن کی قیادت میں ایک طویل جدوجہد کے بعد سال 1917 میں زار روس کی حکومت کا تختہ الٹ دیا اور پھر ان تمام افراد کا ریکارڈ چیک کیا جو انقلابیوں کے روپ میں درحقیقت رد انقلاب کے لیے زار روس کی پولیس کے لیے مخبری کرتے تھے۔

بقول ٹراٹسکی یہ جان کر حیرت ہوئی کہ ان میں فادر گیپون کا نام سر فہرست تھا درحقیقت وہ زار روس کی خفیہ پولیس کا چیف تھا۔

گلگت بلتستان میں بھی اس طرح کی صورتحال جنم لے چکی ہے۔ وطن کا دکھ درد رکھنے والے حقیقی سیاسی کارکنوں کے درمیان ایسے لوگ بھی متحرک نظر آتے ہیں اور آنکھ مچولی کا وہی پرانا کھیل کھیلے جا رہے ہیں۔ ان کا کام فادر کیپون جیسا ہے لہذا ہمارے نوجوانوں کو ان سے محتاط اور ہوشیار رہنے کی ضرورت ہے۔

نو آبادیاتی نظام کی ایک بنیادی خصوصیت یہ بھی ہوتی ہے کہ اس میں سرکاری بیانیہ سے متصادم نقط نظر رکھنے والے قوم پرستوں، انقلابیوں اور رد انقلابیوں کے ساتھ ساتھ تمام درباریوں کا بھی ریکارڈ رکھا جاتا ہے اور جب تاریخ کا رخ بدل جاتا ہے تو ہر فادر گیپون بے نقاب ہوتا ہے۔

Gapon crowd 1905

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments