واپڈا انجینئر سعودیہ میں



بہت سالوں کے بعد علم الدین مقبول میرے پاس بیٹھے تھے اور گپ شپ چل رہی تھی۔ اچانک انہیں کچھ یاد آیا اور اپنے دفتر فون کرتے بولے میں علیم الدین بول رہا ہوں۔ میں چونک اٹھا۔ یہ تو علم الدین تھا۔ علیم الدین کب ہو گیا۔

علم الدین مقبول جھنگ روڈ کے کسی قریبی گاؤں سے سکول آیا کرتے۔ اور فیصل آباد سکول میں میرے داخلہ کے بعد ابتدائی دوستوں میں سے تھے۔ سکول کالج کے زمانہ کی دوستیاں تو عمر بھر کا سرمایہ ہوتی ہیں۔ ہر موڑ پہ جھلک دکھانے والی۔ الیکٹریکل انجینئرنگ کے بعد بطور ایس ڈی اور نشاط آباد گرڈ میں تعیناتی کے بعد یا کبھی گاؤں آتے جاتے ملاقات ضرور ہو جاتی۔ فون بند کیا تو پوچھا یہ ماجرا کیا ہے تو بتایا کہ فیصل آباد سے لاہور تبادلہ کے چند سال بعد جب ترقی پا کر ایکسیئن کا درجہ پایا تو ساتھ ہی واپڈا کی طرف سے سعودی عرب میں ڈیپوٹیشن پر تعیناتی ہوئی۔

کہنے لگے جیسے ہی وہاں جہاز سے اتر کاغذی کارروائی سے فراغت ہوئی۔ مجھے علیحدہ دفتر میں بلا لیا گیا اور ارشاد ہوا کہ آپ کا تو نام ہی گرامر کے لحاظ سے یا کسی ”اور“ وجہ سے درست نہیں اور یہاں کے قوانین کی وجہ سے قابل اعتراض ہے۔ اور آپ کو واپس بھیجا جا سکتا ہے۔ چنانچہ سعودی عالم کے مشورہ اور منظوری سے سب سے پہلا کام نام کو سرکاری طور پر علم الدین مقبول سے علیم الدین مقبول کرنے کا تھا۔

گپ شپ کرتے کچھ ذکر اذکار وہاں کے دنوں کا ہوا تو بتایا۔ ”ایک روز میں عملہ کی تنخواہوں کے لئے خاصی بڑی رقم نکلوانے بنک گیا۔ کاؤنٹر پہ میں نے نوٹوں کی تمام گڈیاں گنیں۔ تھیلا تھا نہیں ہاتھ میں اٹھا باہر آ گاڑی کھول سیٹ پہ رکھیں اور دفتر آ گیا۔ دفتر آ جب رقم کار سے نکالی تو خاصی کم نکلی۔ ہاتھوں کے طوطے اڑ گئے۔ بنک فون کیا کہ کہیں وہاں تو نہیں گری۔ مگر جواب نہ میں تھا۔ یقین تھا کہ رقم گن کر بنڈل پورے کیے تھے۔

اور گم شدہ رقم اتنی تھی کہ میری ہوش گم ہونے کو تھے۔ کار سٹارٹ کی اور بنک واپس لوٹا۔ کار پارک کر کے گھبراہٹ میں ادھر ادھر دیکھ رہا تھا کہ دور سے کوئی بندہ ہاتھ ہلاتا نظر آیا۔ دیکھا تو شرطہ۔ پولیس مین تھا۔ دور سے پوچھا تم گھبرائے ہوئے کیوں ہو۔ بتایا کہ یوں رقم گم ہو گئی ہے۔ تفصیل پوچھی۔ اور ایک قدم ایک سائڈ پہ ہو گیا۔ دیکھا تو چند گڈیاں نوٹوں کی زمین پر ساتھ ساتھ بکھری پڑی تھیں۔ یاد آیا کہ کار میری یہیں پارک تھی۔

شرطہ نے بتایا کہ کسی گزرتے کار سوار نے یہ رقم یہاں گری دیکھی۔ شاید تم کار کا دروازہ کھول اندر رکھتے گرا گئے تھے۔ اس نے کار وہیں روکی۔ ایک اور کار والے کو روک کہیں فون سے پولیس کو مطلع کرنے کو کہا اور جب تک پولیس نہ پہنچی وہیں موجود رہا۔ اور اب وہ شرطہ پہرہ دے رہا تھا۔ اور کسی نے نہ تو ہلایا تھا نہ چھؤا تھا۔ دو گھنٹے بعد ثبوت دیتے بنک کی گواہی لیتے پولیس کارروائی مکمل ہو اپنی پوری گمشدہ رقم کے ساتھ دفتر آ چکا تھا ”

جب ذکر وہاں گزرے شب و روز اور محکمہ بجلی کی افسری کا چھڑ اٹھا۔ تو یک دم قہقہہ لگاتے بولے۔ لو سنو پاکستان کے واپڈا کے سعودی عرب گئے انجینئر کی افسری۔

” شدید گرم رات کوئی ایک بجے دروازے کی گھنٹی لگاتار اوپر تلے بجنے لگی۔ آنکھیں ملتے باہر آیا تو سامنے دو تین گھر دور کا عرب ہمسایہ کھڑا تھا۔ بولا میرے گھر کی بجلی اچانک چلی گئی ہے۔ شدید گرمی ہے۔ فوراً میری بجلی ٹھیک کروا دو۔ عرض کیا کہ بھائی دفتر شکایت میں فون کر کے شکایت درج کرا دو۔ کوئی آ کے ٹھیک کر جائے گا۔ اور اگر نہ آیا تو میں صبح ہوتے ہی خود جا بندہ بھجوا دوں گا۔ فرمایا جب محکمے کا بڑا افسر میرے سامنے ہے تو میں کیوں شکایت کروں۔ عرض کیا۔ ٹھیک ہے بھائی۔ آپ گھر جائیں میں خود آپ کے لئے شکایت لکھوا دیتا ہوں۔

میں دروازے میں کھڑا تھا اور وہ باہر اور بلب کی روشنی سامنے لگے مین سوچ بورڈ کو دکھا رہی تھی۔ عرب صاحب آگے بڑھے مین سوچ کے نیچے بورڈ پر لگے کٹ کیٹ یا سرکٹ بریکر ( پتہ نہیں کیا کہتے تھے وہ سفید چینی کا اندر باریک فیوز والی تار والے بڑے سے ) دونوں ہاتھ سے کھینچ نکالے۔ گھپ اندھیرا چھا گیا۔ عرب صاحب دروازے سے باہر نکلتے۔ فرما رہے تھے۔ اچھا تو جب میری بجلی ٹھیک ہو جائے گی۔ یہ مجھ سے آ کر لے جانا۔ ”

کورونا کی وجہ سے برامپٹن کینیڈا کی سنسان گلیوں میں سیر کرتے سکول کالج کے دوستوں کے ساتھ گزرے لمحات اداسی کو شگفتگی میں بدلنے کا مصالحہ بھی بنتے ہیں مگر یہ بھی احساس ہوتا ہے کہ میرے سنگی ساتھی ہم عمر ہم عصر اکثر جا چکے۔ پتہ نہیں کون باقی اور کہاں ہے۔ پتہ نہیں پاٹ دار آواز والا یہ انجینئر ابھی ہے تو علیم الدین مقبول ہے یا وہی لمبے قد والا روزانہ دس بارہ کلو میٹر دور سے بس پہ آنے والا نویں دسویں کا طالب علم علم الدین مقبول۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments