قائد اعظم، گیارہ اگست کا خطاب اور قرارداد مقاصد


کم ہی فاتحین نے یہ بات سمجھی ہے، اور جناح ان فاتحین میں شامل ہیں، کہ فتح انتقام کا نہیں، اندمال کا دن ہے ؛ یہ تفخر کی نہیں، تشکر کی گھڑی ہے ؛ یہ استکبار کا نہیں، انکسار کا موقع ہے۔

پاکستان کا قیام دو قومی نظریے کا مرہون منت تھا۔ کسی زمانے میں ہندو مسلم اتحاد کا سفیر رہے محمد علی جناح نے زندگی کی آخری دہائی یہ ثابت کرنے میں گزار دی کہ ہندو اور مسلمان دو الگ قوموں کے باشندے ہیں جو ایک ریاستی بندوبست میں جڑ کر نہیں رہ سکتے۔ ہندوستان کے جمہور مسلمانوں نے جناح کو قائد اعظم کا درجہ دیا، آنکھیں بند کر کے ان کی کہے کی صداقت پر یقین کیا، اور سر جھکا کر ان کے فیصلوں پر عملدرآمد کیا۔ تحریک کی توانا لہر نے جلد ہی پاکستان حاصل کر لیا۔

تحریک پاکستان کے تمام عرصہ کے دوران قائد اعظم ان تصورات کا پرچار کرتے رہے کہ ”مسلمانوں کی قومیت کی بنیاد وطن اور نسل نہیں بلکہ کلمہ توحید ہے ؛ ہندوستان کا جب پہلا فرد مسلمان ہوا تھا تو وہ ایک الگ قوم کا فرد بن گیا تھا؛ اور پاکستان کے مطالبے کا جذبہ محرکہ نہ ہندوؤں کی تنگ نظری ہے، نہ انگریزوں کی چال، بلکہ یہ اسلام کا بنیادی مطالبہ ہے“ ۔ 1940 کے بعد سے جناح کا تمام وقت اور قوت اس مقصد کے لیے وقف تھے کہ وہ برصغیر میں مسلمانوں کی آزاد قومی ریاست کے قیام کو ناگزیر ثابت کر سکیں۔ انہوں نے دو قومی نظریہ کی وضاحت ایسی تفصیل اور صراحت کے ساتھ کی کہ زیادہ تر مسلمان اور حتی کہ بہت سے ہندو بھی اس کو سچ سمجھنے لگے۔

لیکن آزاد پاکستان کی دستور ساز اسمبلی کی صدارت کرتے ہوئے اپنے پہلے خطاب کے دوران قائد اعظم کا موقف ان کے اس بیانیے سے یکسر مختلف نظر آیا جسے آپ گزشتہ سات برسوں سے متواتر دہرا رہے تھے۔ 11 اگست کی تقریر جناح کے الگ مسلم قومیت کے تصور سے بظاہر مطابقت نہیں رکھتی تھی۔ ”آپ کا تعلق کسی بھی مذہب یا ذات یا عقیدے سے ہو سکتا ہے، مگر کاروبار ریاست کو اس سے کوئی سروکار نہیں۔ آپ دیکھیں گے کہ وقت گزرنے کے ساتھ ہندو، ہندو نہیں رہے گا اور مسلمان، مسلمان نہیں رہے گا؛ مذہبی لحاظ سے نہیں کیونکہ یہ فرد کے ذاتی اعتقاد کا معاملہ ہے، بلکہ سیاسی معنوں میں ایک ریاست کے شہری کے طور پر۔ ہم ایک ہی ریاست کے یکساں حیثیت رکھنے والے شہری ہیں ”۔ اب تک تو یہ استدلال تو گاندھی، نہرو اور آزاد کی جانب سے دو قومی نظریہ کی نفی کے لیے پیش کیا جاتا تھا۔“ تو کیا جناح نے اسلامی ریاست کے تصور کو ترک کر دیا تھا؟ ”، قائد اعظم کے 11 اگست کے خطاب کے دوران بعض مسلمان اراکین اسمبلی یہ بھی سوچنے پر مجبور ہو گئے تھے۔

چوہدری نذیر احمد منٹگمری (ساہیوال) سے پہلی دستور ساز اسمبلی کے رکن تھے۔ قائد اعظم کی 11 اگست کی تقریر کے حوالے سے نذیر احمد ایک انٹرویو میں کہتے ہیں : ”اس وقت بعض لوگ کہنے لگے تھے کہ قائداعظم نے جو یہ فرمایا ہے کہ ہندو اپنے مندروں میں جائیں، مسلمان اپنی مسجدوں میں اور عیسائی اپنے گرجوں میں وغیرہ۔ تو کیا یہ بات اسلامی نظریہ کے مطابق ہے؟ قائداعظم کی رائے کی مخالفت کرنا تو قریب قریب گناہ کے مترادف تھا لیکن اتنا مجھے یاد ہے کہ ہم لوگ آپس میں بیٹھ کر یہ باتیں کرتے تھے کہ قائداعظم سے اس کے بارے میں بات چیت کریں گے کہ ان کا صحیح مطلب کیا ہے۔

کوئی کہتا تھا کہ قائداعظم نے اسلامی ریاست کے تصور کو ترک کر دیا ہے۔ جہاں تک مجھے یاد ہے، قائداعظم نے اسلامی ریاست کے تصور کو ترک تو نہیں کیا تھا اور نہ ہی انہوں نے اس رنگ میں پیش کیا جس میں اقبال نے پیش کیا تھا۔ ابھی تو مسلمانوں کے وطن کے سلسلے میں سارا نقشہ ذہن میں نہیں اترا تھا کیونکہ اس وقت گمبھیر مسائل پاکستان کو درپیش تھے۔ جس کا اندازہ لگانا بھی مشکل ہے اور پھر مسلمانوں کا اتنا قتل عام ہو رہا تھا جس کا قائداعظم کے دل اور دماغ پر بڑا اثر تھا۔ تو میرے خیال میں بھی اسلامی ریاست کا نقشہ ان کے ذہن میں ابھرا نہیں تھا یا ان کو موقع نہیں ملا تھا کہ اس کو واضح کریں ”۔

قیام پاکستان کے ایک سال بعد قائد اعظم خالق حقیقی سے جا ملے اور یہ سوال ہمیشگی متناقضہ (پیراڈوکس) بن گیا کہ آیا قائد اعظم پاکستان کو مذہبی ریاست بنانا چاہتے یا سیکولر۔ چھ ماہ بعد مارچ 1949 کو دستور ساز اسمبلی میں قرارداد مقاصد پر مباحثہ کے دوران قائد اعظم کے ”متناقضہ“ ریاستی تصورات پر تفصیلی مگر بے نتیجہ بحث ہوئی۔

بحث کے دوران فریقین (یعنی مسلم اور غیر مسلم اراکین) کی جانب سے اپنے موقف کی تائید کے لیے قائد کے ارشادات کے حوالے فراہم کیے جاتے رہے۔ اس حوالہ جاتی مباحثے میں ایک دلچسپ رجحان یہ دیکھا جا سکتا ہے کہ غیر مسلم اراکین اسمبلی اپنی تقاریر میں تواتر کے ساتھ قائد اعظم کے اس خطاب کا حوالہ دیتے جو انہوں نے گیارہ اگست 1947 ء کو پاکستان کی پہلی دستور ساز اسمبلی سے کیا تھا۔ دوسری طرف مسلم اراکین کی جانب سے قائد اعظم کے اس ایک خطاب کو مکمل طور پر نظر انداز کیا گیا۔ حیرت انگیز طور پر مسلم اراکین اس ایک خطاب کا حوالہ دینے سے، اور اس خطاب کے حوالے سے ہندو اراکین کے دلائل کا جواب دینے سے گریز کرتے رہے۔

قائد اعظم کے اقوال کے حوالے سے مسلم اراکین کے ریفرنس قائد کے ان ارشادات تک محدود رہے جن کا اظہار وہ تحریک پاکستان کے دوران تواتر سے کرتے رہے تھے اور جن کا لب لباب یہ تھا کہ مسلمان ہندوؤں سے الگ قوم ہیں اور وہ اپنی الگ ریاست اس لیے حاصل کرنا چاہتے ہیں تاکہ وہ اپنی زندگیاں اسلام کے مطابق گزار سکیں ؛ اور اسلام کے مطابق سیاست کو مذہب سے جدا کیا ہی نہیں جا سکتا۔

اسی موقف کا اعادہ وزیراعظم لیاقت علی خان نے قرارداد پاکستان کی تحریک اسمبلی میں پیش کرتے ہوئے اپنی افتتاحی تقریر میں کچھ اس طرح کیا: ”قائد اعظم اور مسلم لیگ کے دیگر رہنماؤں نے واضح الفاظ میں بارہا کہا ہے کہ مسلمان پاکستان کا مطالبہ اس حقیقت کی بنیاد پر کرتے ہیں کہ مسلمانوں کا زندگی گزارنے کا اپنا طریقہ اور ضابطۂ کار ہے۔ انہوں نے اس حقیقت کو بھی بارہا دہرایا ہے کہ اسلام محض خدا اور بندے کا ایسا انفرادی تعلق نہیں ہے جسے ریاست کے معاملات سے کچھ لینا دینا نہیں ہو“ ۔

وزیراعظم کے اس موقف کی تائید میں سردار عبدالرب نشتر کا کہنا تھا کہ ”ہم مسلمانوں کے سب سے عظیم رہنما قائد اعظم ہزار ہا پلیٹ فارم سے اس بات کا اعلان کر چکے ہیں کہ زندگی کے بارے میں ہمارا نکتہ نظر ہمارے دوستوں کے نکتہ نظر سے قدرے مختلف ہے۔ ہمارا ماننا ہے کہ ہمارا مذہب نہ صرف خدا سے تعلق میں بلکہ زندگی کے ہر دائرے میں ہماری رہنمائی کرتا ہے“ ۔

دوسری جانب ہندو اراکین اسمبلی نے موقف اختیار کیا کہ قائد اعظم نے اسی ایوان میں ان سے وعدہ کیا تھا کہ پاکستان ایک سیکولر ریاست ہو گا اور اگر قائد اعظم زندہ ہوتے تو یہ قرارداد اسمبلی میں پیش نہ کی جا سکتی۔

سریس چندر چٹوپا دھیائے کا کہنا تھا کہ ”ہمارا خیال تھا کہ سیاست کو مذہب سے جدا رکھا جائے گا۔ اس بات کا اعلان قائد اعظم نے اس ایوان کے سامنے کیا تھا۔ لیکن جو قرارداد ہمارے سامنے پیش کی گئی، اس کی بنیاد مذہب ہے“ ۔

بھوپیندر کمار دتہ کہتے ہیں کہ ”میں محسوس کرتا ہوں، اور میرے پاس اس احساس پر یقین رکھنے کی ہر وجہ موجود ہے، کہ اگر یہ قرارداد پاکستان کے عظیم تخلیق کار قائد اعظم کی زندگی میں اس ایوان میں پیش کی جاتی تو یہ اپنی موجودہ شکل میں نہ ہوتی“ ۔

بی سی منڈل کا کہنا تھا کہ ”دنیا کے نقشے پر موجود ہر ملک کا دستور جمہوریت کی بنیاد پر اور وہاں کے سیاستدانوں کے معاشی فہم کی بنیاد پر قائم کیا گیا ہے۔ لیکن میں دیکھ رہا ہوں کہ ہمارے پیارے پاکستان میں میں اس اصول سے انحراف کیا جا رہا ہے۔ پاکستان ایک نو قائم شدہ ریاست ہے۔ اس ریاست کے بانی نے انتہائی واضح انداز میں کہا تھا کہ پاکستان ایک سیکولر ریاست ہو گا۔ ہمارے عظیم رہنما نے کبھی نہیں کہا تھا کہ ہمارے دستوری اصول اسلام پر مبنی ہوں گے“ ۔

ہندو اراکین کی جانب سے قائد اعظم کی تعلیمات کو فراموش کرنے کے الزامات کا جواب سردار عبد الرب نشتر نے ان الفاظ میں دیا: ”ایک ممبر فرماتے ہیں کہ قائد اعظم کی وفات کے کچھ ہی عرصے بعد آپ ہمارے سامنے یہ قرارداد لے آئے ہیں، گویا کہ ہم کچھ ایسا کرنے جا رہے ہیں جو قائد اعظم کی خواہشات کے برعکس ہے۔ یہ درست ہے کہ قائد اعظم نے اقلیتوں کو عہد دیے تھے، لیکن یہ عہد آپ نے اکثریت کو بھی دیے تھے۔ پاکستان کا مطالبہ ایک نظریے کی بنیاد پر اس خاص مقصد کے لیے کیا گیا تھا اور جو قرارداد پیش کی گئی وہ ان حلفیہ وعدوں کے عین مطابق ہے جو قائد اعظم اور مسلم لیگ کے رہنماؤں نے اکثریت اور اقلیتوں سے کیے۔ ہم نے ایسا کچھ کیا نہ ہم سے کسی کی جرات ہے کہ ایسا کچھ کرے جو قائد اعظم کے اعلانات کے برخلاف ہو“ ۔

علامہ شبیر احمد عثمانی بھی اپنے تفصیلی خطاب کے دوران قائد اعظم کے ارشادات کے حوالے سے یہ ثابت کرنے کی کوشش کرتے رہے کہ قرارداد مقاصد قائد اعظم کے تصور کے عین مطابق ہے۔

عثمانی نے گاندھی کے نام قائد اعظم کے ایک مکتوب کے درج ذیل اقتباس کا حوالہ پیش کیا: ”قرآن ایک مکمل ضابطہ حیات ہے۔ اس میں مذہبی اور مجلسی، دیوانی اور فوجداری، عسکری اور تعزیری، معاشی اور معاشرتی تمام معاملات کے احکام موجود ہیں۔ یہ مذہبی رسوم سے لے کر روزمرہ معمولات تک، روح کی پاکیزگی سے لے کر جسم کی صحت تک، جماعت کے حقوق سے لے کر فرد کے حقوق تک، اخلاق سے لے کر انسداد جرائم تک، زندگی میں سزا و جزا سے لے کر آخرت کی جزا و سزا تک غرض کہ ہر قول و فعل اور ہر حرکت پر مکمل ضابطہ دیتا ہے۔ لہذا جب میں کہتا ہوں کہ مسلمان ایک قوم ہیں تو میں یہ بات تمام طبیعیاتی اور مابعد طبیعیاتی معیارات اور اقدار کو پیش نظر رہ کر کہتا ہوں“ ۔

علاوہ ازیں عثمانی نے قائد اعظم کے عید پیغام 1945 ء کا تذکرہ بھی کیا، جس میں قائد نے ارشاد فرمایا کہ: ”ہر مسلمان یہ بات جانتا ہے کہ قرآن صرف مذہبی اور اخلاقی فرائض تک محدود نہیں ہے۔ قرآن مسلمانوں کی متاع عزیز اور زندگی کا عمومی ضابطہ ہے۔ ایک مکمل مذہبی، سماجی، شہری، تجارتی، فوجی، عدالتی، فوجداری، تعزیراتی ضابطہ۔ اسی لئے نبی اکرم ﷺ نے فرمایا تھا کہ ہر مسلمان کو قرآن کا ایک نسخہ اپنے پاس رکھنا چاہیے اور اس کا تفصیلی مطالعہ کرنا چاہیے تاکہ یہ ہماری مادی اور انفرادی بہبود کو بڑھاوا دے سکے“ ۔

عثمانی کا کہنا تھا کہ قائد بارہا اسی نوعیت کے اسلامی ریاستی تصورات کا اظہار کرتے رہے ہیں اور اس غیر مبہم اور متواتر اظہاریہ کے پیش نظر یہ کہنا درست نہیں ہے کہ مذہب کا سیاست سے کوئی واسطہ نہیں ہے اور یہ کہ اگر قائد اعظم حیات ہوتے تو قرارداد مقاصد اس ایوان میں پیش نہ کی جا سکتی ”۔

اسمبلی سیشن کی آخری تقریر میں کانگریس کی پارلیمانی پارٹی کے لیڈر سریس چندر چٹوپا دھیائے نے اس صورتحال پر شدید مایوسی کا اظہار کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ ”میں افسردگی کے ساتھ خود کو قائد اعظم کے وہ عظیم الفاظ یاد دلاتا ہوں کہ جب انہوں نے کہا تھا کہ ریاستی معاملات میں ہندو ہندو نہیں رہے گا اور مسلمان مسلمان نہیں رہے گا۔ لیکن افسوس ان کی وفات کے کچھ ہی عرصے بعد آپ فی الحقیقت ایک ریاستی مذہب کا اعلان کرنے جا رہے ہیں۔

آپ اکثریت کے استبداد پر مبنی ریاست تخلیق کرنے کا عزم کر چکے ہیں۔ بلکہ شاید آپ ایسا کرنے پر مجبور ہیں کیونکہ قائد اعظم کے برعکس آپ میں وہ جرات نہیں ہے کہ باقی تمام دنیا کی طرح آپ بھی سیاست کو مذہب سے جدا سکیں۔ مجھے اس قرارداد میں جو آواز سنائی دے رہی ہے وہ پاکستان کے عظیم تخلیق کار قائد اعظم کی آواز نہیں ہے۔ نہ ہی وہ وزیر اعظم پاکستان محترم جناب لیاقت علی خان کی آواز ہے۔ بلکہ وہ اس ملک کے علماء کی آواز ہے ”۔

پاکستان کی آئندہ تاریخ میں قائد اعظم کی 11 اگست کی تقریر کا تنازع اسی انداز سے جاری رہا۔ انتہائی دائیں بازو کی جانب سے اس تقریر کے حوالے سے نظر انداذانہ رویہ اختیار کیا گیا۔ مذہبی ریاستی لابی کی جانب سے کوشش کی گئی کہ اس خطاب کے کچھ حصے سینسر کر دیے جائیں۔ باعث نزاع الفاظ کے متن میں تحریف کرنے کی کوشش کی گئی۔ اس تقریر کی آڈیو ریکارڈنگز غائب ہو گئیں۔ کچھ عرصہ پہلے اوریا مقبول جان نے اس تقریر کے وجود سے یکسر انکار کرتے ہوئے اس کو قومی جھوٹ تک قرار دے دیا۔ (تاہم اب اس تقریر کا مکمل متن قومی اسمبلی کی ویب سائٹ پر موجود ہے۔ )

دوسری طرف قدرے معتدل رجعتی مفکرین کی جانب سے اس خطاب کی معذرت خواہانہ وضاحتیں سامنے آتی رہیں۔ یہ کہا گیا قائد اعظم کی یہ باتیں اسلام میں اقلیتوں کے حقوق کے تصور سے مطابقت رکھتی ہیں، یہ وہ امان نامہ تھا جو اسلام نے ہمیشہ اقلیتوں کو عطا کیا اور ان باتوں سے یہ نتیجہ اخذ کرنا بالکل بیجا ہے کہ قائد اعظم پاکستان میں سیکولر نظام نافذ کرنا چاہ رہے تھے۔ اور اگر سیکولر ریاست قائد اعظم کا مقصود ہوتا تو وہ اپنے خطاب میں سیکولرازم کے لفظ کو استعمال کرتے۔

یہ سچ ہے کہ قائد اعظم نے 11 اگست کی تقریر میں سیکولرازم کا لفظ استعمال نہیں کیا تھا۔ لیکن یہ بھی سچ ہے کہ گلاب کو کوئی اور نام دینے سے اس کی خوشبو میں فرق نہیں آتا۔ ”آپ کا تعلق کسی بھی مذہب یا ذات یا عقیدے سے ہو سکتا ہے، مگر کاروبار ریاست کو اس سے کوئی سروکار نہیں“ ۔ ”مذہب فرد کے ذاتی اعتقاد کا معاملہ ہے“ ۔ ”ریاست اپنے شہریوں میں مذہب کی بنیاد پر کوئی فرق روا نہیں رکھے گی“ ، ان باتوں کو سیکولر ازم کہیں یا نہ کہیں، ان کا مطلب یہی ہے کہ قائد اعظم فرما رہے ہیں کہ مملکت پاکستان میں سیاست کو مذہب سے جدا رکھا جائے گا۔ لیکن ساتھ ساتھ اس حقیقت کو بھی نظر انداز نہیں کیا جا سکتا کہ 11 اگست 1947 ء کو دستور ساز اسمبلی میں قائد اعظم نے جو باتیں کیں، وہ بظاہر ان کے اس بیانیے سے یکسر مختلف تھیں جسے آپ گزشتہ سات برسوں سے متواتر دہرا رہے تھے۔

عائشہ جلال قائد اعظم کے مذہبی ریاستی تصورات میں تذبذب کی ایک سیر حاصل وضاحت پیش کرتی ہیں، جس کے حوالے سے معروف مؤرخ وینکت دھولی پالا لکھتے ہیں کہ عائشہ کا نظریہ تاریخ پاکستان میں ایک ”جدید قدامت پرستی“ کا درجہ حاصل کر چکا ہے۔ جسونت سنگھ بھی تقسیم ہند کے حوالے سے اپنی کتاب میں اسی نظریے کو اختیار کرتے ہیں۔ عائشہ کے مطابق دو قومی نظریے کی بنیاد پر مسلمانوں کے لیے الگ مملکت کا قیام جناح کا حقیقی مطالبہ نہیں تھا، بلکہ سودے بازی کا ایک داؤ تھا، تاکہ انگریزوں کے انخلاء کے بعد غیر منقسم ہندوستانی وفاق میں مسلمانوں کو ہندو اکثریت کے مقابلے میں سیاسی برابری دلوائی جا سکے۔

اس سودے بازی میں ہندوستان کے مسلمانوں کو متحد اور متحرک رکھنے کے لیے یوٹوپیائی اسلامی ریاست (ریاست مدینہ) کے خواب کا استعمال کیا گیا، جو اسلامیان ہند کے لیے تخیلاتی کشش کا حامل تھا۔ تاہم اس کی ریاست کی قطعی ماہیت اور نوعیت کو جان بوجھ کے مبہم رکھا گیا تاکہ اس موضوع پر ذیلی مباحث کے اختلافات مسلمانوں کو منقسم کر کے تحریک کو کمزور نہ کر دیں۔ کیبنٹ مشن پلان کی صورت میں جناح نے مرکزی حکومت میں مسلمانوں کے لیے برابری حاصل کر لی تھی۔

لیکن بعد ازاں نہرو اور دیگر کانگریسی رہنماؤں نے کچھ ایسے بیانات دیے جس سے ظاہر ہوتا تھا کہ کانگریس آزادی کے بعد ہندوستان کا دستور بناتے ہوئے کیبنٹ مشن پلان کی پاسداری کی پابند نہ ہو گی۔ یوں معاملات پوائنٹ آف نو ریٹرن پر پہنچ گئے جس کا نتیجہ یوم راست اقدام، فسادات اور بالآخر ہندوستان کی تقسیم کی صورت میں برآمد ہوا۔

عائشہ کے مفروضہ کی اہم ترین بنیاد یہ ہے کہ جناح کی جانب سے ”مرکزی حکومت میں برابری حاصل کرنے کے لیے اسلامی ریاست کے نعرے کا استعمال“ ایک خفیہ لائحہ عمل تھا جیسے جناح نے عوام تو ایک طرف اپنے قریب ترین رفقا سے بھی مخفی رکھا تھا۔ قیام پاکستان کے بعد یہ ابہام اور اخفاء قومی اور ریاستی تشخص کے بحران میں ڈھل گیا۔

دوسری جانب، دیگر مذہبی علماء کے برعکس، ڈاکٹر اسرار احمد قائد اعظم کی 11 اگست کی تقریر کی وضاحت ایک مختلف انداز سے پیش کرتے ہیں۔ ان کے مطابق جناح خالص ”سیکولر جمہوری“ طریقے سے اسلامی ریاست کا قیام چاہتے تھے۔ ڈاکٹر اسرار لکھتے ہیں : ”راقم کے نزدیک قائداعظم کا وہ قول نہ تو ان کے سابقہ موقف سے انحراف کا مظہر تھا۔ اس لئے کہ قائد اعظم مرحوم خواہ ایک ’مذہبی شخصیت‘ نہ تھے تاہم ہرگز دنیا کے عام سیاستدانوں کی مانند جھوٹے اور فریبی نہیں تھے اور ان کے کردار کی مضبوطی، سیرت کی پختگی، ظاہر و باطن کی یکسانیت اور صداقت و امانت کا لوہا ان کے بدترین دشمن بھی مانتے ہیں۔

اسی طرح ان کا وہ متنازعہ جملہ حالات کے وقتی دباؤ کے تحت اعصاب کے متاثر ہو جانے کا بھی مظہر نہیں تھا، اس لئے کہ قائداعظم کے اعصاب ہرگز اتنے کمزور نہ تھے بلکہ وہ واقعتاً فولادی اعصاب کے مالک تھے اور برے سے برے حالات میں بھی ان پر کبھی گھبراہٹ یا سراسیمگی کے طاری ہونے کی کوئی مثال نہیں ملتی۔ راقم کے نزدیک ان کے اس قول کی اصل توجیہ اور ان کے سابق موقف کے ساتھ اس کی مطابقت اور موافقت کی صورت یہ ہے کہ قائد اعظم کے پیش نظر اولاً برصغیر پاک و ہند میں بسنے والے مسلمانوں کے دین و مذہب، تہذیب و ثقافت اور سیاسی و معاشی حقوق کی حفاظت و مدافعت تھی جو قیام پاکستان کی صورت میں ابتمام و کمال حاصل ہو گئی اور ان چیزوں کے ضمن میں ہندوؤں کے نامنصفانہ بلکہ منتقمانہ رویے سے پیدا شدہ خطرات کا سدباب ہو گیا۔

ثانیاً پاکستان میں واقعتاً اسلامی نظام کے بالفعل قیام کے ضمن میں ان کے پیش نظر ایک خالص جمہوری طریقہ تھا۔ یعنی یہ کہ اگر پاکستان کے مسلمانوں میں جو ایک غالب اور فیصلہ کن اکثریت میں ہیں واقعتاً اسلام کے ساتھ حقیقی اور واقعی لگاؤ پیدا ہو جائے اور وہ حقیقتاً اور واقعتاً اسلامی تہذیب و تمدن کے فروغ اور اسلامی قانون و شریعت کے نفاذ و اجراء کے خواہاں بن جائیں تو خالص سیکولر جمہوری نظام بھی ان کے راستے میں ہرگز رکاوٹ نہیں بن سکتا اور ان کے ’اجتماعی ارادے‘ کے بروئے کار لانے میں ہر گز کوئی چیز مانع نہیں ہو سکتی، لہٰذا فوری طور پر دستوری اور قانونی سطح پر مذہبیت کا راگ الاپنے اور پوری دنیا کو خبردار اور چوکنا کر دینے کی ضرورت نہیں ہے۔ ایک جمہوری نظام میں قانون سازی کا سارا دار و مدار کثرت رائے پر ہوتا ہے لہذا اگر بالفرض پاکستان میں ایک سیکولر لیکن حقیقتاً جمہوری نظام قائم ہو جائے تو مسلمانوں کی عظیم اکثریت کو دین و مذہب کی جانب پیش قدمی سے کوئی چیز نہیں روک سکتی ”۔

میری رائے میں، قائد اعظم کا 11 اگست کا خطاب ان کی تاریخ شناسی اور وسعت نظر کا آئینہ دار تھا۔ یہ خطاب ایک نئے موسم کی آمد کا اعلان تھا۔ یہ موسم فتح مندی کا موسم تھا۔ کم ہی فاتحین نے یہ بات سمجھی ہے، اور جناح ان فاتحین میں شامل ہیں، کہ فتح انتقام کا نہیں، اندمال کا دن ہے ؛ یہ تفخر کی نہیں، تشکر کی گھڑی ہے ؛ یہ استکبار کا نہیں، انکسار کا موقع ہے۔ قائد جانتے تھے کہ فرقہ وارانہ اقلیتی سوچ کا کام اور وقت مکمل ہو چکا ہے۔

وہ مذہبی جذبہ جس نے ہندو مسلم کشمکش کے دوران، مسلم قومیت کی صورت میں، مسلمانوں میں یک جہتی اور ہم مقصدیت پیدا کی تھی، قیام پاکستان کی صورت میں اپنا مقصد حاصل کر چکا ہے۔ حصول پاکستان کی جنگ جیتی جا چکی ہے۔ اب مسلمان اقلیت نہیں ہیں۔ بحیثیت اکثریت انہیں اقلیتوں کے لیے اس وسعت قلب کا مظاہرہ کرنا ہے جو متحدہ ہندوستان کی غیر مسلم اکثریت نے مسلم اقلیت کے لیے نہیں کیا تھا۔ یہ وقت ماضی کو بھولنے اور عداوتوں کو دفنانے کا ہے۔

اب قوم کو خوشحالی اور ترقی کا معرکہ درپیش ہے۔ ان نئی منازل تک رسائی کے لیے بھی قومی وحدت درکار ہے۔ اب ضروری ہے کہ تقسیم ہند کا باعث بننے والے ”اکثریتی اقلیتی اختلافات“ کو پاکستان میں کارفرمائی سے روکا جائے۔ اب ضروری ہے کہ ”تنگ نظر“ ہندوؤں کو ”بلند نگاہ“ مسلمان بن کے دکھایا جائے۔ قائد اعظم کو ان نئے چلینجز کا بھرپور ادراک تھا اور وہ اس کے بارے میں تفصیلی سوچ بچار کر چکے تھے۔ دستور ساز اسمبلی سے قائد کے اولین خطاب کے یہ الفاظ ان کے اسی تفکر کا عکس ہیں : ”اگر ہم پاکستان کی اس عظیم ریاست کو خوش و خرم اور ترقی یافتہ بنانا چاہتے ہیں، تو ہمیں مکمل طور پر اپنی توجہ لوگوں کی بھلائی، بالخصوص عوام اور غریبوں کی طرف مرکوز کر دینی چاہیے۔ اگر آپ ماضی کو فراموش کر دیں اور تنازعات اور باہمی اختلاف کو بھلا کر اشتراک اور تعاون سے کام کریں تو آپ کی کامیابی یقینی ہے۔ اگر آپ اپنا ماضی بدل دیں اور اس جذبے کے ساتھ اکٹھے ہو کر کام کریں کہ قطع نظر کہ آپ کا تعلق کس کمیونٹی سے ہے، قطع نظر ماضی میں آپ کے باہمی تعلقات کیسے تھے، قطع نظر آپ کی رنگت، ذات اور عقیدہ کیا ہے، آپ میں سے ہر ایک اول، دوم اور آخر اس ریاست کا شہری ہے، مساوی حقوق، استحقاق اور فرائض کے ساتھ، تو آپ کی ترقی کی کوئی حد نہیں ہو گی ”۔

قائد اعظم کے رفقاء قائد اعظم جیسی تاریخ شناسی کا مظاہرہ نہ کر سکے۔ وہ یہ نہیں سمجھ سکے کہ تفریق اور تقسیم پر مبنی نظریات کا وقت پورا ہو چکا ہے۔ برصغیر میں اسلام کو درپیش ہندو غلبے کے خدشات کا ہمیشہ کے لیے قلع قمع ہو چکا ہے۔ اسلام کو پاکستان میں غیر مسلم اقلیتوں سے کوئی خطرہ لاحق نہیں ہے۔ اب جو مراحل درپیش ہیں ان کے لیے قوم کو اتحاد اور اتفاق کی ضرورت ہے۔ ترقی کے راستے پر گامزن ہونے کے لیے وسیع القلبی، اشتراک فکر و عمل اور سخت محنت کی ضرورت ہے۔

قائد اعظم جانتے تھے کہ عظیم تحاریک کی کامیابی کے استحکام اور دیرپائی کے لیے مفاہمت درکار ہوتی ہے۔ فتح کی پالیسی ”الیوم یوم الملحمہ“ نہیں ”الیوم یوم المرحمہ“ ہوتی ہے۔ لیکن کم نظر اور کم ہمت قائدین نے قائد اعظم کے ویژن کو یکسر فراموش کر دیا۔ قرارداد مقاصد پر بحث کے دوران مسلم اراکین اسمبلی قائد اعظم کے 11 اگست کے خطاب نظر انداز کرتے رہے۔ اصولی طور اس تقریر کو نظر انداز نہیں کیا جانا چاہیے تھا کیونکہ قائد اعظم نے یہ باتیں ایک پالیسی معاملے کے طور پر اسی ایوان میں اور انہی اراکین کے سامنے کہی تھیں۔

اگر اسمبلی ممبران کو قائد اعظم کی کسی بات سے اختلاف تھا تو انہیں جرات اور مضبوط کرداری کا مظاہرہ کرتے ہوئے اس اختلاف کا کھل کر اظہار کرنا چاہیے تھا؛ قائد اعظم کے سامنے نہ سہی، لیکن کم از کم اس وقت ضرور کہ جب قرارداد مقاصد جیسی قومی اہمیت کی قرارداد پر بحث ہو رہی تھی، اور غیر مسلم اراکین کی جانب سے بار بار اس تقریر کا حوالہ دیا جا رہا تھا۔ تاریخ کا سبق یہ ہے کہ اگر ماضی پرستی اور شخصیت پرستی آمنے سامنے آ جائیں تو پست نگاہ اور کم ہمت افراد فرار اور فراموشی کا راستہ اختیار کرتے ہیں۔

لیکن فرار اور فراموشی کی روش درپیش صورتحال کو تو پیچیدہ ہونے سے بچا سکتی ہے، مگر تاریخ کو نہیں۔ قصہ مختصر، قرارداد پاکستان منظور ہوئی، اور پاکستان کے شہریوں کو مذہب کی بنیاد پر اکثریت اور اقلیت میں تقسیم کر دیا گیا، کیونکہ پاکستان کے مسلمان صرف عددی اعتبار سے اکثریت ہوئے تھے، ذہنی طور پر وہ اب بھی اقلیت تھے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments