ریاست کے سگے کیا ایسے کرتے ہیں؟


مؤرخہ 4 اپریل کو پاکستان کے موجودہ وزیرخزانہ، جناب شوکت ترین نے قومی اسمبلی کی فنانس کمیٹی کو بیان دیتے ہوئے کہا کہ آئی ایم ایف سے 2019 میں کیا جانے والا معاہدہ پاکستان کے ساتھ ”اک بڑا ظلم اور نا انصافی“ ہے۔ قوسین میں الفاظ انہی کے ادا کردہ ہیں۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ آئی ایم ایف کے ساتھ کیے گئے موجودہ معاہدے کے تحت، پاکستان اپنے کسی ترقیاتی پروگرام پر اگلے تین برسوں تک قطعاً کوئی عمل نہیں کر پائے گا، اور اگر یہ معاملات ایسے ہی چلتے رہے اور سالانہ جی ڈی پی 5 فیصد تک نہ آیا تو پھر ملک کا ”اللہ ہی حافظ“ ہے۔

اس کمیٹی میں اپنے بیان میں انہوں نے یہ بھی اک دلچسپ لطیفہ سنایا کہ فیڈرل بورڈ آف ریونیو کے اہلکار انہیں پچھلے دس برسوں سے تنگ کر رہے تھے، اور انہوں نے اک مرتبہ بھرپور فائل بنا کر سرکاری افسران کو دی، تو وہ فائل ان افسران نے ”گما دی۔“

ترین صاحب نے یہ اضافہ کیا کہ بجلی، گیس اور پیٹرولیم کی قیمتوں میں ٹیکسیشن کے اضافے سے کرپشن اور مہنگائی میں اضافہ ہوا ہے، اور مزید کہا کہ مسئلے کا حل، ٹیکسز میں اضافہ نہیں، ٹیکس نیٹ میں اضافہ ہے۔ ترین صاحب کا یہ بھی کہنا تھا کہ انٹرسٹ ریٹس کو 13.25 % پر لانا اس حکومت کی اک بڑی غلطی تھی۔

محترمی جنرل آصف غفور صاحب جب پریس کانفرنسز کیا کرتے تھے کہ معیشت بری نہیں تو اتنی اچھی بھی نہیں اور ساتھ ہی میں محترمی جنرل باجوہ صاحب معیشت پر سیمینارز کروایا کرتے تھے تو اس وقت پاکستان کا جی ڈی پی 5.8 % تھا اور اس بات کی عین امید تھی کہ یہ اگلے دو سے تین سالوں میں 6.5 % تک جا پہنچے گا۔ یہ بات میرے علم میں ہے کہ اسحق ڈار صاحب نے ملفوف و مہذب انداز میں یہ کہا تھا کہ فوجی اخراجات کا بجٹ نہیں، قومی بجٹ بڑھانے کی ضرورت ہے۔ ان سے منسوب اک فقرہ ہے کہ ”کیک کا سائز بڑا ہونے سے، حصے کا سائز بھی خود بخود بڑا ہو جائے گا۔“

مگر پھر جسٹس ثاقب نثار صاحب کے پاس پانامہ کا پاجامہ آیا، اور باقی سب تاریخ ہے۔

شنید تو یہ بھی ہے کہ حفیظ پاشا، جنہیں ان کے چاہنے والے ”چائنہ کا سٹیو جابز“ کہتے ہیں، نے آئی ایم ایف کی شرائط تسلیم کرنے سے انکار کیا تو انہیں ہٹوایا گیا اور ان کی جگہ محترم ڈاکٹر حفیظ شیخ صاحب کو وزیرخزانہ بنایا گیا۔ ساتھ ہی میں ڈاکٹر رضا باقر پاکستان کے قومی دولت بینک کے گورنر بنے اور آئی ایم ایف سے معاہدہ طے پا گیا۔ یہ آئیڈیا بھی ڈاکٹر حفیظ شیخ صاحب کا تھا کہ بینک دولت پاکستان کو ریاست سے الگ، اک آزاد ادارہ بنایا جائے۔

یہ خیال اپنی بنیاد میں غلط نہیں، مگر اس کے لیے مروج کیپٹلزم میں مغربی ریاستوں کی شانداریت کا اک معیار حاصل کرنا ہوتا ہے۔ تب کہیں جا کر اس کی باری کوئی سینس بناتی ہے۔ 1,186 ڈالر کی ”شاندار“ پر کیپیٹا انکم پر یہ کام، خلوص سے زیادہ، سازش محسوس ہوتا ہے۔ جنرل صاحبان اور ان کے چنیدہ حکمرانوں کو ہر دور میں فنانس کی مشاورت فراہم کرنے والے، عظیم پاکستانی محب الوطن، محترم ڈاکٹر حفیظ شیخ صاحب ویسے کہاں ہیں آج کل؟

پاکستان میں اپریل کے مہینے میں مہنگائی کی شرح اوسط 11.10 % ہے۔ یہ سرکاری اعداد و شمار ہیں۔ اصل شاید اس سے زیادہ ہو گی۔ مزید تسلی کے لیے مضمون کے آخر میں وفاقی ادارہ شماریات کا اک لنک دے رہا ہوں، دیکھ کر تسلی پائیں۔

حقائق کسی کے دوست نہیں ہوتے۔ یہ صرف اسی کے دوست ہوتے ہیں جو انہیں تسلیم کرتے ہیں۔ اک حقیقت تو یہ بھی ہے کہ موجودہ عظیم تجربہ نہ کیا جاتا، تو پاکستان کے موجودہ حالات، آج کہیں بہتر ہوتے۔ وہ کہ جنہیں اس بات سے اختلاف ہے، وہ آج کا موازنہ 2017 اور پھر 2018 کے ابتدائی پانچ ماہ کے پاکستان سے ہی کر لیں۔ ماضی سے مستقبل کی جانب سفر کرتے، ترقی کے اشاریے اگر بہتر نہیں ہوئے، تو محترمین، یہ ترقی نہیں، تنزلی ہی ہوئی ہے۔ آپ اگر انصافی ہیں تو آپ کی گئی پرانی تقاریر کو بذریعہ ناک اندر کھینچنے میں آزاد ہیں۔

سوال یہ چھوڑے جاتا ہوں : یارو، کیا وطن، ملک، قوم، ریاست کے سگے اور مخلص ایسے کرتے ہیں؟
وفاقی ادارہ شماریات کا عام اشیا کی قیمت کے بارے میں لنک


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments