ہم کلامی



بہت وقت لگا مجھے خود کو ڈھونڈ لینے میں، اور ”اس“ کی رمز کو سمجھنے میں، لیکن پھر جیسے چیزیں خود بخود مجھ پر ”عیاں“ ہوتی گئی اور اس نے مجھے اندر کے جہان کے در وا کیے۔ درد کا رشتہ بھی عجیب ہوتا ہے اس میں آپ اللہ سے شکایت شکوہ اور غم گساری کی توقع کے ساتھ ساتھ اس بات پر بھی اعتبار کرتے ہیں کہ اس کی رحمت سے مایوسی نہیں مل سکتی بالآخر وہ ہماری سن ہی لے گا۔ ہم جس غم کی گہرائی میں ڈوبتے جا رہے ہیں بالآخر اس میں کوئی تنکا ہمارا سہارا بن کر ہمیں کنارے لگا ہی لے گا۔

یہ بڑی عجیب کیفیت ہے امید اور نا امیدی کے بیچ لڑتے ہوئے صرف اپنے یقین کے سہارے سفر کرنا منزل کے نشان نہ ہونے پر بھی منزل کا گمان رکھنا کبھی کبھی نہایت مشکل امر ہو جاتا ہے۔ اور اسی ڈوبنے ابھرنے میں ہم غم کی مسافت طے کرتے ہوئے خوشی کے استعارے کو ڈھونڈنے کی چاہ لے کر سفر جاری رکھتے ہیں۔ ہمارے گمان ہمیں یہ یقین دلاتا ہے کہ امید سحر بھی ہمارے ایمان کا حصہ ہے اور ہمارے وسوسے دل کے اندر کنڈلی ڈالے بیٹھے ہوتے ہیں۔

اور سوال پوچھتے ہیں کہ کیا یہ یقین کامل ہے یا گمان۔ محض؟ کیا کبھی آپ نے کسی بھٹکے ہوئے مسافر کو دیکھا ہے جو کہ صحرا میں آنے والے طوفان کی زد میں ہو؟ وہ بے چین ہو کر کسی بھی عارضی سہارے کی تلاش میں ادھر ادھر بھٹکتا ہے کہ کچھ وقت کے لئے ہی سہی کوئی سہارا میسر آ سکے۔ اسی طرح انسان بھی غموں کے صحرا میں اپنے لئے کوئی سہارا تلاش کرتا ہے اس کا گمان اسے یقین دلاتا ہے یہ کمزور سہارا بالآخر اس کے غم کا مداوا بن جائے گا۔

بس اس وقت اسے ہر سہارا خدا کی طرف سے دیا گیا کوئی اشارہ لگتا ہے۔ یا خدا کی طرف سے خوشی کا استعارے کے ملنے کی نوید۔ اس وقت ساری عقل تھری کی دھری رہ جاتی ہے اور آپ اپنے یقین کے سہارے خوشی کی تلاش میں نکل پڑتے ہیں۔ اور یہی منزل کا یقین آپ کے لیے زاد راہ بن جاتا ہے۔ اور اس سفر میں ہم پر اندر کی دنیا کے وہ راز افشا ہوتے ہیں جن کے بارے میں شاید ہم نے عام حالات میں کبھی سوچا بھی نہیں ہوتا۔ ہمیں اس سفر میں اپنے پر خلوص رشتوں کی پہچان اور مصنوعی تعلقات کے بارے میں بھی پتہ چلتا ہے۔

ہمیں اللہ آزمائش کے دنوں میں لوگوں کے اصلی رنگ دکھاتا ہے جو کہ کبھی کبھی تو بہت خوشنما اور کبھی اتنے کچے ہوتے ہیں کہ دنیا کی بے ثباتی کا یقین ہونے لگتا ہے۔ یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ ہم جو تعلق عام روٹین میں اللہ تعالی سے کمزور کیے ہوتے ہیں ساری سیٹنگ ایک ہی جھٹکے میں جیسے ری سیٹ ہو جاتی ہے۔ ذہن کے خالی پردوں میں کئی دنوں سے ایک بات ادھوری یاد بن کر ابھرتی ڈوبتی ہے۔ بہت دن ہوئے بے فکری کی سوچ کو دھیان میں لانے کی جتنی بھی کوشش کریں ذہن جیسے خالی ہاتھ رہ جاتا ہے۔

ہم نجانے کس زعم میں اپنے آپ کو عقل کل سمجھتے ہیں آخر میں الف کی ایک چال سے ساری عقل دھری کی دھری رہ جاتی ہے۔ ہم سب انسانوں نے زندگی میں یقیناً ایسے کام کیے ہوں گے جس سے ہمیں تنہائی میں میں ضمیر کی سرزرنش کا سامنا رہتا ہوگا اور بہت سے ایسے کام بھی ہوں گے جن پر شاید سٹانڈنگ اویشن دینے کی ضرورت بھی پڑتی ہو گی۔ اب ان سارے عوامل میں مالک و کل کی مرضی ہے کہ وہ اسپاٹ لائٹ ہمارے کن کاموں پر ڈالتا ہے اور دنیا کو ہمارا مثبت یا منفی چہرہ دکھاتا ہے۔

پس یہاں پر پر الف کا زور ہے اگر اس کی طرف سے راضی نامہ کی سند مل جائے تو آپ نے بظاہر الٹے کیے گئے کاموں کے بھی مثبت نتیجہ ملنے لگتا ہے۔ غرض اس کی رضا نہیں ہے تو چاہے آپ جتنا زور لگا کر اچھا کام کرنے کی کوشش کریں اگر اس کا کن نہیں تو فیکن بھی نہیں ہو سکتا۔ اسی تناظر میں ایک اور پہلو بھی قابل ذکر ہے کہ ہم چاہے اپنے اردگرد کے لوگوں کو جتنا مرضی خوش رکھنے کی کوشش کریں اس سے صرف آپ کا اپنی ذات اور کائنات سے تعلق کمزور ہونے کا خدشہ رہتا ہے جب کہ اگر ہم غلط اور صحیح اقدار کو مد نظر رکھتے ہوئے صرف اپنے سیدھے راستے پر چلتے جائیں، تو عین ممکن ہے کہ اس رب دے کریم کی خوشنودی اور رضا کا حصول ممکن ہو۔

دنیاوی نعمتوں کا لالچ اور لوگوں کو خوش رکھتا ثانوی ہو جاتا ہے۔ ہمارا انتہائی مقصد حیات مالک کل کے بتائے بتائے گئے اصولوں پر چلتے ہوئے زندگی گزارنا ہے۔ ورنہ جیسے کہ بتا دیا گیا ہے کہ ہوگا وہی جو میری چاہت ہے۔ ہمیں اپنے آپ کو اس کی چاہت کی سپرد کرنا ہی پڑے گا۔ اس تناظر میں رہتے ہوئے اگر ہم دنیا میں میں اس کے لئے گئے اصولوں کو مدنظر رکھیں تو بہت سے معاملات ثانوی حیثیت کے لائق ہو جاتے ہیں۔ ہم نے زندگی میں بہت سے ایسے بت تراشے ہیں جن کا حقیقت میں آپ کی زندگی میں کوئی عمل دخل نہیں ہوتا۔ یہ صرف ہماری سوچ کی عکاسی کرتے ہیں۔ ورنہ معاملات میں بہتری اور سیدھی راہ پر چلنے کے لیے ہمیں صرف الف کی رضا اور خوشنودی درکار ہوتی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments