ماحولیاتی آلودگی کے انسانی نفسیات پر اثرات


انسان اور اس کے گرد و نواح میں موجود ہر اک چیز کا آپس میں گٹھ بندھن ہی ماحول ہے۔ کائنات کے کسی ایک جز کو ماحول نہیں کہہ سکتے۔ تمام کیمیائی، حیاتیاتی اور طبیعیاتی عناصر مل کر ماحول کو تشکیل دیتے ہیں۔ ماحول اور حیات، ان دو لفظوں کو جب ہم ایک دوسرے کے ساتھ ملا کر پڑھتے ہیں تو ہمیں ”ماحولیاتی“ کی سی ترکیب ملتی ہے۔ یعنی کہ ماحول کی حیات میں تمام دوسرے اجزاء کے ساتھ سب سے جو اہم جز ہے وہ انسان ہے۔ انسان میں روح کا عنصر اس کی زندگی کی ضمانت ہوتا ہے۔

ماحول میں سے انسان کی نفی کر دی جائے تو باقی تمام اجزائے تراکیبی جو اس کائنات کی تخلیق میں پیش رفت کے حامل ہیں، سب مل کر بھی ماحول کی تعریف مکمل نہیں کر پاتے۔ گویا انسان ماحول کی روح ہے۔ ”ایک صحت مند جسم میں ہی ایک صحت مند دماغ نمو پاتا ہے“ کے مصداق ایک صحت مند ماحول میں ہی انسان کی صحت مندی کا تصور کیا جا سکتا ہے کیوں کہ انسانی جسم کی تکلیف روح تک پہنچتی ہے اور ماحول میں ناموافق اجزا کا اثر بھی انسان پر براہ راست ہوتا ہے۔

قدرتی ماحول میں غیر ضروری اجزاء کا شامل ہو جانا آلودگی کہلاتا ہے۔ یہ ایسے اجزاء ہوتے ہیں جو ماحول کو ناخوش گوار بنا دیتے ہیں۔ آلودگی کی بہت سی اقسام ہیں جن میں، صوتی آلودگی، فضائی آلودگی، آبی آلودگی، برقی آلودگی، غذائی آلودگی، زمینی آلودگی اور بحری آلودگی نمایاں ہیں۔ ان کے ناموں سے ہی ان کی پہچان ہو رہی ہے کہ ناموافق اور غیر ضروری اجزا کا ان میں شامل ہونا اس قسم کی آلودگی کا باعث بنتا ہے۔

ماحول انسانی نفسیات پر ان مٹ نقوش چھوڑ جاتا ہے۔ آج کے اس افراتفری کے دور میں انسانی نفسیات پان دان بن چکی ہے۔ جس میں مختلف اقسام کے پان رکھے جاتے ہیں اور رکھا جانے والا ہر پان اپنی ایک مخصوص بو اس میں چھوڑ جاتا ہے۔ ماحول کے اس بے ڈھنگے پن سے انسان ذہنی مریض بنتا جا رہا ہے۔ انسانی زندگی کے مختلف روپ اور بالترتیب مراحل، بچپن، جوانی اور بڑھاپا ہیں۔ مختلف مراحل میں ماحول کی آلودگی کے انسانی نفسیات پر مختلف قسم کے اثرات ہوتے ہیں۔

گاڑیوں کے بے جا شور، فضول قسم کے لاؤڈ اسپیکر، کارہائے ترتیب دینے کے لئے استعمال ہونے والی مشینری سی پیدا ہونے والی بے ہنگم آوازوں کے ساتھ ساتھ ہوا میں موجود زہریلے مادے، گاڑیوں سے خارج شدہ زہریلے دھوئیں، پانی میں سیوریج کے نظام کی تباہی کی وجہ سے موجود جراثیم غرض یہ کہ ہر طرح کی آلودگی نہ صرف انسانی صحت کو متاثر کرتی ہے بلکہ انسان کے سوچنے سمجھنے والے دماغی خلیوں پر بھی گہرا اثر ڈالتی ہیں۔ انسان ڈپریشن کا شکار ہو جاتا ہے۔ طبعیت میں کاہلی آ جاتی ہے اور کام میں جی نہیں لگتا ہے۔ یہی کاہلی اور سستی انسان کو ڈپریشن کی انتہا تک لے جاتی ہے۔ بات بے بات جھگڑا اور ہر چھوٹے سے چھوٹے مسئلہ پر حسی تناؤ (ٹینشن) کا شکار ہو جانا عام سی بات ہے۔

ماہرین کے مطابق پاکستان میں 34 فیصد آبادی ڈپریشن کا شکار ہے۔ اور 90 فیصد کے قریب لوگ جو خود کشی کرتے ہیں وہ ڈپریشن کا شکار ہوتے ہیں۔ ڈپریشن میں ماحولیاتی آلودگی کا بڑا عمل دخل ہے۔ نہ صرف ڈپریشن بلکہ اور بھی بہت سی موذی امراض جو مہلک خصوصیات کی حامل ہیں اسی ماحول کی آلودگی سے پیدا ہوتی ہیں۔ جس علاقے کا ماحول آلودگی سے پاک صاف ہو گا اس علاقے کے لوگ ملنسار ہوں گے۔ وہاں کے لوگوں کی فطری جبلت باقی علاقوں سے مختلف ہو گی۔

وہاں رہنے والے لوگوں کی ظاہری شکل و صورت تو عمدہ ہوتی ہی ہے لیکن اس کے ساتھ ساتھ ان کے اندر روح کا پر سکون ہونا بھی پایا جاتا ہے۔ روح کی شائستگی ہی انسان کو اچھے برے اور صحیح غلط کی تمیز سکھاتی ہے۔ ماہرین کے مطابق جس علاقے میں ماحولیاتی آلودگی کی شرح کم ہوتی ہے وہاں جرائم کی شرح بھی کم ہوتی ہے۔ لوگوں کی طبیعتوں کا اچاٹ ہو جانا ہی انہیں گمراہی اور غلط رستے کی طرف پیش قدمی کی دعوت دیتا ہے۔ انسان ترقی کی منازل طے کرنے کے ساتھ ساتھ خود کو مشینوں میں ڈھالتا جا رہا ہے۔

ایک بے حس نسل کی پیدائش کا دور آن پہنچا ہے۔ چوبیس گھنٹوں میں سے آٹھ گھنٹے جب ایک مزدور فیکٹری میں مشینوں کے شور میں گزارتا ہے تو اس کی بے حسی اور اکتاہٹ کا یہ عالم ہوتا ہے کے واپسی پر وہ جس بس میں سفر کرتا ہے اس بس کے کنڈکٹر یا ڈرائیور سے جھگڑا کر لیتا ہے۔ گھر آ کر بیوی بچوں کا لاڈ پیار اسے مشینوں سے نکلنے والی آوازیں محسوس ہوتا ہے۔ اس کا اپنا نفس، اس کے اندر کا ضمیر جواب دے چکا ہوتا ہے۔ اس کی زندگی کی رنگینیاں اسی ماحول کی آلودگی کی نظر ہو چکی ہوتی ہیں۔

ماحول کی آلودگی کا انسانی زندگی پر اثر ہوتا ہے تو صاف ظاہر ہے کہ ماحول کی آلودگی کا انسانی نفسیات پر بھی اثر ہوتا ہے۔ اس روبوٹک اور مشینی دور میں آلودگی کو بالکل ختم کرنا تو ناممکن سی بات ہے مگر اس کو کم کرنے کے سد باب کے بارے میں سوچا جا سکتا ہے۔ ہماری قوم ڈنڈوں کی عادی ہے چاہے وہ کسی پولیس والے کے ہاتھ میں ہو یا کسی فوجی آمر کے ہاتھ میں۔ ماحول کی آلودگی صرف اور صرف سخت قوانین کی تشکیل، اور پھر ان قوانین پر عمل در آمد کروانے سے ہی ممکن ہے۔

حکومت، پاکستان کی طرف سے وفاقی اور صوبائی سطح پر انوائرنمنٹل لاز تشکیل دیے گئے ہیں جن میں ”پاکستان انوائرنمنٹل پروٹیکشن ایکٹ 1997“ نمایاں ہے۔ مگر اس قانون سے آگاہی بہت ہی کم لوگوں کو ہے۔ اسی وجہ سے لوگ اس پر عمل پیرا ہوتے دکھائی نہیں دیتے۔ اس میں کچھ حد تک ہاتھ ہماری انتظامیہ کا بھی ہے جو خاموشی سے ماحول کو تباہ ہوتا دیکھ رہی ہے۔ اس خاموشی کے بہت سے اسباب ہیں جن میں سب سے ایک سبب یہ بھی ہے کہ ہمارے اعلی حکام میں سے ہی کچھ لوگ ان فیکٹریوں، ملوں اور کمپنیوں کے مالک ہیں جن سے ہر طرح کی، بالخصوص فضائی، آبی اور صوتی آلودگی پھیل رہی ہے اور اردگرد کے لوگوں کی جسمانی صحت کے ساتھ ساتھ ان کے نفسیاتی پہلو پر بھی بے حد گہرے اور تشویش ناک اثرات مرتب کر رہی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments