کووڈ کے دور میں آخری رسومات کے نت نئے طریقے: آپ مرنے کے بعد خلا میں جانا پسند کریں گے یا سمندر میں؟

برنڈ ڈیبوسمین جونیئر - بزنس رپورٹر


ایٹرنل ریفس

Eternal Reefs
ایٹرنل ریفس کی بنائی گئی چٹانیں امریکہ کے مشرقی ساحل کے پاس سمندر میں رکھی گئی ہیں

فلوریڈا کی ایک کمپنی ’ایٹرنل ریفس‘ کا کہنا ہے کہ اس کی غیر معمولی سروس کی مانگ میں وبا کے باعث اضافہ ہوا ہے۔

سنہ 1998 سے یہ کمپنی مرنے والوں کی باقیات کو مونگے کی مصنوعی چٹان بنا کر انھیں سمندر کی تہہ میں پہنچانے میں مدد دیتی ہے، جس کے لیے اُن کی راکھ کو ماحول دوست کنکریٹ میں ملایا جاتا ہے۔

‘ہمارے پاس ایسے لوگ آتے ہیں جن کا سمندر میں کوئی نہ کوئی مفاد ہوتا ہے لیکن ہمارے پاس اکثر ایسے لوگ بھی آتے ہیں جنھیں زمین کے لیے کچھ کرنے کا شوق ہوتا ہے۔’

گذشتہ سال تک کمپنی کے 2000 ریف امریکہ کے مشرقی ساحل کے ساتھ 25 مقامات پر لگائے جا چکے ہیں۔

ایٹرنل ریفس

Eternal Reefs
لواحقین ان چٹانوں کو سمندر میں رکھے جاتے ہوئے دیکھ سکتے ہیں

کووڈ 19 کی عالمی وبا کے باعث دنیا بھر میں لاکھوں لوگوں کو اپنے پیاروں کو کھو دینے کی وجہ سے تکلیف کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ اور اس نے ہم سب کو یہ بھی یاد دلایا ہے کہ زندگی فانی ہے۔

چنانچہ اب پہلے سے زیادہ لوگ اس حوالے سے تخلیقی انداز میں سوچ رہے ہیں کہ وہ مرنے کے بعد اپنے جسم یا اپنی راکھ کے ساتھ کیا کروانا چاہتے ہیں۔

جو لوگ چاہتے ہیں کہ اُن کی باقیات زمین پر ہی رہیں، اُن کے لیے سی ایٹل میں قائم کمپنی ‘ری کمپوز’ نے ایک ایسی ٹیکنالوجی تیار کی ہے جو لاش کو زرخیز مٹی کا حصہ بنا دیتی ہے۔

جسم کو سٹیل کے ایک سیل بند سلنڈر میں لکڑی کے ٹکڑوں، بانس کی ڈنڈیوں اور لوسن کے پتوں کے ساتھ رکھا جاتا ہے۔ اس کے بعد ’ری کمپوز‘ اس سلنڈر میں کاربن ڈائی آکسائیڈ، نائٹروجن، آکسیجن، گرمی اور نمی کی مقدار کو کنٹرول کیے رکھتا ہے تاکہ بیکٹیریا اور دیگر جراثیم پنپ سکیں۔

یہ بھی پڑھیے

مرتے وقت دماغ میں کیا ہوتا ہے؟

اپنے پیاروں کی آخری رسومات میں شرکت نہ کرنے والوں کا دکھ

انسانی روح کا کیا وزن ہے؟ ایک عجیب و غریب تجربے کی کہانی

تقریباً 30 دن کے بعد یہ مرحلہ مکمل ہو جاتا ہے اور تین کیوبک فٹ مٹی کو سلنڈر سے نکالا جاتا ہے، پھر کچھ ہفتوں تک اسے مزید کچھ مراحل سے گزارا جاتا ہے جس کے بعد اسے واشنگٹن کے ایک جنگل میں پھیلا دیا جاتا ہے، یا پھر رشتے دار اسے ساتھ لے جا سکتے ہیں۔ اس کے علاوہ یہ دونوں کام بھی کیے جا سکتے ہیں۔

سنہ 2017 میں یہ کاروبار شروع کرنے والی کترینہ سپیڈ کہتی ہیں کہ اُنھوں نے وبا کے آغاز سے اپنے ماہانہ پری پیمنٹ پروگرام میں شمولیت کی درخواستوں میں اضافہ دیکھا ہے۔

‘یہ ایک طرح سے اپنے آپ اور اپنے خاندان سے ہم کلام ہونے کا طریقہ تو ہے ہی، مگر ساتھ ہی ساتھ زمین کے لیے اپنا حصہ ڈالنے کا طریقہ بھی ہے کہ جب میں مر جاؤں تو میرے ساتھ کچھ ایسا کیا جائے جو اس زمین کے لیے بہتر ہو۔

‘ہم نے لوگوں سے سنا ہے جو کہتے ہیں کہ اس سے اُنھیں امید اور دلاسا ملتا ہے۔’

ری کمپوز

Recompose
ری کمپوز کا سسٹم ایسے کام کرتا ہے (اس تصویر میں کوئی حقیقی مردہ نہیں ہے)

دی بزنس ریسرچ کمپنی کے مطابق رواں سال عالمی سطح پر اموات سے متعلق خدمات فراہم کرنے والے شعبے کا حجم 110 ارب ڈالر رہے گا اور اس کی پیشگوئی ہے کہ سنہ 2025 تک یہ بڑھ کر 148 ارب ڈالر ہو جائے گا۔

اپنے پیاروں کی باقیات کے لیے دستیاب آپشنز میں اضافہ اور متعلقہ ٹیکنالوجی میں ترقی ایسے وقت میں ہو رہا ہے جب حالیہ دہائیوں میں میتوں کو جلائے جانے میں اضافہ ہوا ہے۔

صرف امریکہ میں ہی گذشتہ سال ہلاک ہونے والے افراد کا 56 فیصد جلایا جانا ہے جبکہ توقع کی جا رہی ہے کہ اگلے 20 سالوں میں یہ تعداد 78 فیصد تک ہوجائے گی۔ سنہ 1960 کی دہائی میں یہ عدد صرف چار فیصد تھا۔

برطانیہ میں بھی یہی صورتحال ہے جہاں سنہ 2019 میں 78 فیصد ہلاک شدہ افراد کو جلایا گیا اور وہاں 1960 میں یہ تعداد 35 فیصد تھی۔

مردوں کی آخری رسومات کی صنعت کے برطانوی ماہر پیٹر بلنگھم ایک پوڈکاسٹ ڈیتھ گوز ڈیجیٹل کی میزبانی بھی کرتے ہیں۔ اُن کا کہنا ہے کہ عالمی وبا نے اس شعبے میں ٹیکنالوجی کے استعمال اور اس کی قبولیت میں اضافہ کیا ہے۔ ‘کووڈ کی وجہ سے ان تبدیلیوں میں تیزی اُس سے کہیں زیادہ آئی ہے جو ویسے معمول کے حالات میں آتی۔’

اس کے علاوہ کووڈ کی پابندیوں کے باعث آخری رسومات کی لائیو سٹریمنگ میں بھی اضافہ ہوا ہے۔

جب رواں سال کے اوائل میں نیویارک کے رہائشی مائیکل بیرن کے والد ہلاک ہوئے تو اُنھوں نے یہی کیا۔ ٹریبیوکاسٹ نامی کمپنی کی خدمات حاصل کر کے اُنھوں نے آخری رسومات کو امریکہ، کینیڈا، انڈیا، اسرائیل، پانامہ، سویڈن اور برطانیہ میں لوگوں تک ہائی ریزولوشن ویڈیو اور ساؤنڈ کے ساتھ دکھایا۔

بیرن کہتے ہیں کہ ‘ہر کسی کو ایسے محسوس ہوا جیسے وہ جسمانی طور پر وہاں موجود نہ ہوتے ہوئے بھی آخری رسومات میں شریک تھے۔’

کنیکٹیکٹ میں قائم ٹریبیوکاسٹ کے شریک بانی بروس لِکلی کہتے ہیں کہ گذشتہ پورے سال اُن کی کمپنی کے ‘فون بجتے رہے۔’

‘ہمارے کاروبار میں ڈرامائی طور پر اضافہ ہوا۔ ہم اسے ایسے رجحان کے طور پر دیکھتے ہیں جو آ رہا تھا مگر عالمی وبا کے باعث اس میں تیزی آئی۔’

ٹریبیوکاسٹ

Tribucast
ٹریبیوکاسٹ کا سٹاف یہ یقینی بناتا ہے کہ آخری رسومات سے قبل کیمرے اور سٹریمنگ کام کر رہی ہو

ٹریبیوکاسٹ کو 2017 میں لانچ کیا گیا تھا اور یہ آخری رسومات کی فلمنگ بھی کرتی ہے۔

بروس کہتے ہیں کہ اس کی ریموٹ اٹینڈنس ٹیکنالوجی پہلے ہی خاندانوں اور دوستوں کے گروہوں کی بدلتی نوعیت کی وجہ سے فروغ پا رہی تھی۔

جہاں پہلے خاندان اور سماجی گروہ مخصوص جغرافیائی علاقوں تک محدود اور ایک دوسرے کے قریب ہوتے تھے، وہاں اب وہ ملک بھر میں اور یہاں تک کہ ملک سے باہر تک پھیلے ہوئے ہوتے ہیں۔

چنانچہ کسی کے جنازے میں شریک ہونا اکثر مشکل ہوجاتا ہے، خاص طور پر یہودیوں یا مسلمانوں کے لیے، جن کے عقیدے کے مطابق مردے کو 24 گھنٹوں میں دفنانا ہوتا ہے۔

بروس کہتے ہیں کہ ‘تین سے چار سال پہلے تک بھی ہم ہر جنازے میں 40 سے 60 لوگوں کو انٹرنیٹ کے ذریعے شریک ہوتے ہوئے دیکھ رہے تھے۔ یہ عجیب ہے کیونکہ امریکہ میں کسی جنازے میں جسمانی طور پر بھی اتنے ہی لوگ شریک ہوتے ہیں۔’

‘اور ہم لوگوں کو آخری رسومات میں ڈیجیٹل طریقے سے شمولیت کا موقع فراہم کر کے جنازوں میں لوگوں کی شرکت کو دو گنا کر رہے تھے۔’

ناسا

John Krause
سیلیسٹس نے سنہ 2006 میں ناسا کے اس راکٹ پر انسانی باقیات لاد کر خلا میں بھیجیں

جہاں چند لوگ چاہتے ہیں کہ اُن کے خاندان اور دوستوں میں سے زیادہ سے زیادہ لوگ اپنے پیاروں کی آخری رسومات دیکھیں اور کچھ لوگ چاہتے ہیں کہ اُن کی باقیات کا اچھا استعمال ہو، وہیں کچھ لوگ ہیں جو چاہتے ہیں کہ اُن کی راکھ کے ساتھ کچھ ڈرامائی کیا جائے۔

اور امریکی فرم سیلیسٹس یہی پیشکش کرتی ہے۔ یہ کمپنی گذشتہ 20 سالوں سے انسانی باقیات خلا میں بھیج رہی ہے۔

خلائی مشن میں جگہ حاصل کر کے یہ لوگوں کی راکھ کو مدار اور اس سے بھی آگے بھیجنے میں مدد کرتی ہے۔

سیلیسٹس کے شریک بانی اور چیف ایگزیکٹیو چارلس شیفر کہتے ہیں کہ کمرشل خلائی کمپنیوں مثلاً سپیس ایکس کی وجہ سے ‘ہم اب سال میں دو سے تین مرتبہ لانچ کر رہے ہیں اور اگلے پانچ سالوں میں میرا اندازہ ہے کہ ہم ہر سہ ماہی میں ایسا کر سکیں گے۔’


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32502 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp