کیا انسان کی کوئی فطرت ہے؟



اگر آپ اپنے عزیزوں ’دوستوں اور رشتہ داروں سے پوچھیں کہ
’کیا انسان کی کوئی فطرت ہے؟‘
تو امکان اغلب ہے کہ ان میں سے اکثر یہ کہیں گے کہ
’جی ہاں انسان کی ایک مخصوص فطرت ہے‘

اور اگر مزید پوچھیں کہ وہ فطرت کیا ہے؟ تو وہ اپنے عقیدے اور نظریے ’انسانی نفسیات کے علم اور سماجیات کی معلومات کے مطابق اس کا جواب دیں گے۔

کوئی کہے گا انسان کی فطرت میں نیکی ہے
کوئی کہے گا انسان کی فطرت میں بدی ہے
کوئی کہے گا انسان بڑا صبر والا ہے اور کوئی کہے گا وہ بے صبرا ہے۔
کوئی کہے گا انسان جھگڑالو ہے کوئی کہے گا انسان صلح جو ہے

دلچسپ بات یہ ہے کہ اپنے تمام تر اختلافات کے باوجود وہ سب اس بات پر متفق ہوں گے کہ انسان کی ایک فطرت ہے۔ چاہے وہ فطرت اسے خدا نے دی ہو یا ارتقا نے لیکن اس کی فطرت ضرور ہے۔

اس پس منظر میں میرا ایک ایسے دانشور کی تخلیقات سے تعارف ہوا جن کا موقف ہے کہ انسان کی کوئی فطرت نہیں ہے۔

آئیں میں آپ کو ایسے دانشور اور ان کے خیالات سے تعارف کرواؤں۔

ہوزے آرٹیگا  وہ ہسپانوی دانشور تھے جو 1883 میں سپین کے شہر میڈرڈ میں پیدا ہوئے۔ انہوں نے 1904 میں میڈرڈ کی یونیورسٹی سے فلسفے میں پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی۔ پھر وہ اعلیٰ تعلیم کے لیے جرمنی چلے گئے اور کئی یونیورسٹیوں سے منسلک رہے۔ 1908 میں سپین واپس آئے تو یونیورسٹی میں نفسیات اور منطق کے پروفیسر بن گئے۔

1910 میں ایک فیمنسٹ خاتون روزا سپوٹورنو سے شادی کی۔

1917 میں ایک اخبار ایل سول کے لیے مضامین لکھنے شروع کیے اور پھر ان مضامین کو کتابی صورت میں THE REVOLT OF THE MASSES کے نام سے چھپوایا۔ جب اس کتاب کا انگریزی میں ترجمہ ہوا تو اس کو بہت پسند کیا گیا۔ اس کتاب کو سراہنے والوں میں اوسولڈ سپنگلر اور برٹنڈرسل جیسے دانشور شامل تھے۔

جب سپین میں خانہ جنگی شروع ہوئی تو آرٹیگا پہلے ارجنٹینا پھر یورپ چلے گئے۔

1948 میں آرٹیگا واپس مڈریڈ لوٹ آئے۔ انہوں نے زندگی کے آخری چند سال وہیں گزارے اور 1955 میں فوت ہو گئے۔

آرٹیگا ایک وجودیت پسند فلاسفر تھے۔ وہ مارٹن ہائیڈگر ’کارل جاسپرز اور ژاں پال سارتر کی طرح مشہور تو نہ ہوئے لیکن ان کے خیالات کی گونج ہمیں سارتر کے وجودیت کے فلسفے میں سنائی دیتی ہے۔

آرٹیگا اپنی کتاب THE REVOLT OF THE MASSESمیں سیاسی جبر کے خلاف اپنی لبرل سوچ پیش کرتے ہیں اور آزادی اظہار و گفتار و کردار کو سراہتے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ ایک جینون فلاسفر کو ماضی کے تعصبات سے بالاتر ہو کر نئے خطوط پر سوچنا چاہیے۔ انہوں نے مشہور فلاسفر ڈیکارٹ کے مشہور جملے

I THINK THEREFORE I AM
کو الٹ کر اپنا نقطہ نظر پیش کیا
I LIVE THEREFORE I THINK

آرٹیگا کا موقف تھا کہ دنیا میں کوئی بھی سچ ازلی و ابدی و حتمی سچ نہیں ہے۔ انہوں نے انسانی آزادی کے بارے میں بہت سے مضامین لکھے جن میں سے ایک MAN HAS NO NATURE ہے۔ چونکہ وہ مضمون مشکل زبان میں لکھا گیا ہے اس لیے میں اس کا ترجمہ نہیں مفہوم عام فہم اور اپنی زبان میں پیش کرتا ہوں تا کہ ان کے خیالات اور نظریات سے زیادہ سے زیادہ لوگ استفادہ کر سکیں۔ عین ممکن ہے یہ مضمون آپ کو انسان کی فطرت کے بارے میں نئے خطوط پر سوچنے اور غور کرنے کی تحریک دے۔


انسان اس کائنات میں موجود باقی سب چیزوں اور جانداروں سے مختلف اور منفرد ہے۔
کسی پتھر کو یہ ثابت نہیں کرنا پڑتا کہ وہ پتھر ہے
کسی جانور کو بھی یہ ثابت نہیں کرنا پڑتا کہ وہ جانور ہے
لیکن ہر انسان کو اپنی زندگی کے ہر منٹ ’ہر گھنٹے اور ہر دن یہ ثابت کرنا پڑتا ہے کہ وہ انسان ہے۔
انسان ایک امکان کا نام ہے جو اپنے اعمال سے اس امکان کو حقیقت بناتا ہے۔

انسان کو زندگی کے ہر موڑ پر ایک سے زیادہ راستے اور ایک سے زیادہ امکانات نظر آتے ہیں۔ انسان کو ہر لمحہ شعوری اور لاشعوری ’ارادی اور غیر ارادی طور پر کوئی فیصلہ کرنا پڑتا ہے اور وہ فیصلہ اس کا راستہ اور اس کی منزل بدل سکتا ہے۔

اس کائنات میں پرندے ’مچھلیاں اور جانور اپنی فطرت رکھتے ہیں‘ اپنی جبلت رکھتے ہیں اور ساری عمر اسی پر عمل کرتے رہتے ہیں

گائے گھاس کھاتی ہے
شیر گوشت کھاتا ہے
گائے گوشت نہیں کھاتی اور شیر گھاس نہیں کھاتا کیونکہ وہ ان کی فطرت ہے۔

ایک انسان یہ فیصلہ کر سکتا ہے کہ وہ ساری زندگی گوشت کھاتا رہے گا اور دوسرا انسان یہ فیصلہ کر سکتا ہے کہ وہ ساری عمر گوشت نہیں کھائے گا صرف سبزیاں اور دالیں کھاتا رہے گے۔ انسان یہ سب فیصلے اس لیے کر سکتا ہے کیونکہ اس کی کوئی فطرت نہیں ہے۔

انسان اپنے ماضی کے واقعات اور حادثات اپنے ساتھ لیے پھرتا ہے۔ اہم بات یہ ہے کہ وہ واقعات اور حادثات اس کا ماضی اور اس کی تاریخ کا حصہ ہیں۔ لیکن یہ ماضی اور یہ تاریخ اس کی فطرت نہیں ہے کیونکہ وہ جب چاہے اپنی سوچ اپنی فکر اور اپنا طرز زندگی بدل سکتا ہے۔ اگر انسان کی نباتات اور حیوانات ’چرند اور پرند کی طرح فطرت ہوتی تو وہ اپنی زندگی کے راستے اور فیصلے نہ بدل سکتا۔

انسان آدھا اپنے ماحول کا حصہ ہوتا ہے اور آدھا اس سے اوپر اٹھ جاتا ہے۔ وہ ایسے ہی جیسے کوئی کشتی آدھی سمندر کے پانی میں ہو اور آدھی ساحل کی ریت پر۔

انسان آزاد ہے۔ وہ جب چاہے کوئی فیصلہ کر سکتا ہے اور پچھلا فیصلہ بدل سکتا ہے۔ اس کا فیصلہ نہ کرنا بھی ایک فیصلہ ہے۔

انسان کو اپنی زندگی کا مقصد ’اپنا آدرش اور اپنی منزل خود تلاش کرنے پڑتے ہیں۔ اگر اس کی کوئی فطرت ہوتی تو اسے اپنا مقصد اور اپنا آدرش نہ تلاش کرنا پڑتا۔

انسان کو خود جاگتی آنکھوں سے خواب دیکھنا پڑتا ہے اور پھر اس خواب کو شرمندہ تعبیر کرنا پڑتا ہے۔ انسان اس دنیا کے سب نباتات اور حیوانات ’چرند اور پرند سے اس حوالے سے مختلف ہے کہ ان سب کی فطرت ہے لیکن انسان کی کوئی فطرت نہیں ہے۔

وہ چاہے تو دنیا میں سینکڑوں ہزاروں لاکھوں انسانوں کا خون بہا دے اور چاہے تو دنیا میں امن کا پیامبر بن جائے۔ وہ چاہے تو بہت سوں کو دکھی کردے اور چاہے تو بہت سوں کو سکھی کر دے۔ وہ یہ سب کچھ اس لیے کر سکتا ہے کیونکہ اس کی کوئی فطرت نہیں ہے۔

وہ اپنے روزمرہ کے چھوٹے بڑے فیصلوں سے اپنی فطرت اور اپنی شخصیت بناتا ہے۔ کبھی بگاڑتا ہے کبھی سنوارتا ہے۔ انسان ایک امکان کا نام ہے اور وہ ہر روز اپنے اعمال سے اس امکان کو حقیقت کا روپ دیتا ہے۔ انسان ہر روز تعمیر یا تخریب کا ایک نیا خواب دیکھتا ہے اور پھر اس خواب کو شرمندہ تعبیر کرنے کی کوشش کرتا ہے۔

۔

ڈاکٹر خالد سہیل

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

ڈاکٹر خالد سہیل

ڈاکٹر خالد سہیل ایک ماہر نفسیات ہیں۔ وہ کینیڈا میں مقیم ہیں۔ ان کے مضمون میں کسی مریض کا کیس بیان کرنے سے پہلے نام تبدیل کیا جاتا ہے، اور مریض سے تحریری اجازت لی جاتی ہے۔

dr-khalid-sohail has 689 posts and counting.See all posts by dr-khalid-sohail

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments