شہباز شریف: قائدِ حزبِ اختلاف کو ’نام بلیک لسٹ میں ہونے کے باعث‘ لاہور ایئرپورٹ پر بیرونِ ملک روانگی سے روک دیا گیا


شہباز

لاہور ایئرپورٹ پر امیگریشن حکام نے پاکستان مسلم لیگ ن کے صدر اور قائد حزبِ اختلاف شہباز شریف کو ‘نام تاحال بلیک لسٹ’ میں ہونے کے سبب بیرونِ ملک سفر کرنے سے روک دیا ہے۔

پاکستان مسلم لیگ ن کے رہنما عطا اللہ تارڑ کے مطابق سنیچر کے صبح چار بجے کے قریب ایئرپورٹ پہنچنے پر حکام نے شہباز شریف کو آگاہ کیا کہ سسٹم میں ان کا نام تاحال بلیک لسٹ میں ہے اس لیے انھیں سفر کی اجازت نہیں دی جا سکتی۔

سوشل میڈیا پر جاری کی گئی ایک ویڈیو میں دیکھا جا سکتا ہے کہ شہباز شریف کی جانب سے حکام کو لاہور ہائی کورٹ کا فیصلہ بھی دکھایا جا رہا ہے اور وہ کہہ رہے ہیں کہ ‘میں آپ سے بحث نہیں کر رہا، لیکن عدالت نے مجھے بیرونِ ملک جانے کی (مشروط) اجازت دی ہے۔’

خیال رہے کہ گذشتہ روز لاہور ہائی کورٹ نے شہباز شریف کی علاج کی غرض سے بیرون ملک جانے کے لیے نام بلیک لسٹ سے نکلوانے کی درخواست منظور کرتے ہوئے انھیں بیرونِ ملک سفر کرنے کی مشروط اجازت دی تھی۔

یہ بھی پڑھیے

’شہباز شریف کی غیر موجودگی میں سخت بیانیہ رکھنے والوں کو جگہ ملے گی‘

نواز شریف کا ’ماسٹر سٹروک‘ لیکن شہباز شریف کی پھر ’مصالحت کاری‘

شہباز شریف کی ’ٹوپیاں‘

شہباز شریف واپس کیوں آئے؟

لاہور ہائی کورٹ کے جسٹس علی باقر نجفی نے اپنے تحریری فیصلے میں لکھا کہ ‘ماضی کے رویے اور سفری معلومات کے پیش نظر درخواست گزار کا نام اس وقت ایگزٹ کنٹرول لسٹ (ای سی ایل) پر نہیں ہے، درخواست گزار کا نام بلیک لسٹ میں ہے اور موجود ہو تو بھی انھیں آٹھ مئی 2021 سے تین جولائی 2021 کے درمیان ایک مرتبہ اپنے طبی معائنے کے لیے عدالت کے سامنے کیے گئے وعدے کے تحت برطانیہ جانے سے نہیں روکا جاسکتا۔’

اس تحریری حکام نامے کے مطابق فیصلے کے وقت عدالت میں ایف آئی اے کے حکام بھی موجود تھے اور ان کی حاضری لگائی گئی تھی۔

تاہم امیگریشن حکام نے مؤقف اختیار کیا کہ کیونکہ ان کے سسٹم کو اب تک اس فیصلے کے مطابق اپ ڈیٹ نہیں کیا گیا ہے اس لیے شہباز شریف کو آف لوڈ کیا جا رہا ہے۔ شہباز شریف جہاز کی روانگی تک ایئرپورٹ پر موجود رہے جس کے بعد جب انھیں تحریری طور پر آف لوڈ فارم فراہم کیا گیا تو وہ اپنی رہائش گاہ کے لیے روانہ ہو گئے۔

یاد رہے کہ شہباز شریف کا نام پہلی مرتبہ فروری سنہ 2019 میں ای سی ایل میں شامل کیا گیا تھا اور مارچ 2019 میں لاہور ہائی کورٹ نے ان کا نام ای سی ایل سے نکالنے کا فیصلہ دیا تھا۔ تاہم حکومت کی جانب سے کچھ عرصے بعد شہباز شریف کا نام بلیک لسٹ میں رکھ دیا گیا تھا۔

نیب کی جانب سے ستمبر 2020 میں بھی شہباز شریف کو منی لانڈرنگ اور آمدن سے زائد اثاثہ کیس میں گرفتار کیا گیا تھا، تاہم انھیں احتساب عدالت نے گذشتہ ماہ ہی ضمانت پر رہا کیا تھا۔

گذشتہ روز دورانِ سماعت جسٹس علی باقر نجفی نے شہباز شریف سے استفسار کیا تھا کہ آپ کو باہر جانے کی کیا ایمرجنسی ہے؟ جس پر شہباز شریف نے جواب دیا کہ وہ کینسر کے مریض رہے ہیں اور مرض کا علاج نیو یارک اور لندن میں ہوا ہے اور وہ ڈاکٹر مارٹن سے مسلسل چیک اپ کراتے رہے ہیں جبکہ جیل میں قید ہونے کے باعث ان کے علاج میں تعطل آیا تھا۔

شہباز شریف نے کہا کہ جیل میں ہونے والے میڈیکل ٹیسٹ کی رپورٹ کی روشنی میں انھیں فوری علاج کی ضرورت ہے۔

عدالت نے جب شہباز شریف سے استفسار کیا کہ آپ کا وطن واپس آنے کا کب تک کا ارادہ ہے تو انھوں نے کہا کہ ’جیسے ہی ڈاکٹرز نے علاج کے بعد جانے کا کہا میں فوراً واپس آجاؤں گا، میں پہلے بھی عدالت سے نہیں بھاگا تھا۔‘


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32541 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp