ستیہ جیت رے: انڈیا کا وہ فنکار جس کے پاس ’تیسری آنکھ‘ تھی

ریحان فضل - بی بی سی ہندی، دہلی


 

ستیہ جیت رے

انڈیا کے معروف فلمساز اور ہدایت کار ستیہ جیت رےسو سال قبل دو مئی سنہ 1921 کو مغربی بنگال کے شہر کلکتہ میں پیدا ہوئے تھے اور انھوں نے انڈین سنیما کو عالمی سطح پر پہنچانے میں اہم کردار ادا کیا جس کے اعتراف میں ہالی وڈ کے گرانقدر خصوصی آسکر ایوارڈ سے انھیں نوازا گیا۔

ستیہ جیت رے کی صد سالہ جشن ولادت کے موقعے پر بی بی سی کے ریحان فضل کی خصوصی رپورٹ پڑھیے۔

یہ اکتوبر سنہ 1976 کی بات ہے۔ اس زمانے میں اپنا کریئر شروع کرنے والے جاوید صدیقی کے فون کی گھنٹی بجی۔

دوسری طرف مشہور سکرین پلے رائٹر شمع زیدی تھیں۔ انھوں نے جاوید سے کہا کہ ستیہ جیت رے آپ سے ملنا چاہتے ہیں۔ اس وقت تک ستیہ جیت رے عالمی سنیما کی بلندیوں کو چھو چکے تھے۔

جب جاوید ان سے ملنے گئے تو انھیں اندازہ نہیں تھا کہ ستیہ جیت رے حقیقی زندگی میں بھی اتنے ہی دراز قد ہیں جتنے قداور وہ فلمی دنیا میں تھے۔

ستیہ جیت رے کو ان کے چاہنے والے ‘مانک دا’ کے نام سے بھی پکارتے تھے۔ رے نے جاوید کو کرسی پر بٹھا کر کہا: ‘میں نے سنا ہے آپ اچھی کہانیاں لکھتے ہیں۔’

جاوید نے انکساری کے ساتھ کہا: ‘میں کہانیوں سے زیادہ کالم لکھتا رہا ہوں۔ مجھے نہیں معلوم کہ میں اچھی کہانیاں لکھتا بھی ہوں یا نہیں۔’

ستیہ جیت رے اپنی جگہ سے اٹھے اور تکیے پر رکھی ہوئی ایک پلاسٹک کی فائل کو ان کی طرف بڑھاتے ہوئے کہا کہ یہ پریم چند کی کہانی ‘شطرنج کے کھلاڑی’ ہے اور آپ اس کے مکالمے لکھ رہے ہیں۔

جاوید صدیقی سے پہلے رے کو مشورہ دیا گیا تھا کہ وہ ‘شطرنج کے کھلاڑی’ کا مکالمہ راجندر سنگھ بیدی سے لکھوائیں۔

جبکہ فلم کے ہیرو سنجیو کمار کی رائے تھی کہ اس کا مکالمہ گلزار سے لکھوایا جائے۔ شبانہ اعظمی کا مشورہ تھا کہ اس کام کے لیے ان کے والد کیفی اعظمی سے بہتر کوئی نہیں ہوسکتا ہے۔

رے کا خیال تھا کہ بیدی اور گلزار بلاشبہ اچھے مصنف ہیں لیکن یہ دونوں پنجاب سے آتے ہیں اور لکھنؤ کے پس منظر پر مبنی فلم کے ساتھ شاید انصاف نہ کرسکیں۔

مانک دا نے کیفی اعظمی سے بھی ملاقات کی۔ لیکن کیفی نے کبھی بھی اردو کے علاوہ کسی دوسری زبان کو ترجیح نہیں دی جبکہ ستیہ جیت رے کو انگریزی اور بنگالی کے علاوہ کوئی زبان نہیں آتی تھی۔

ایسے میں یہ تجویز بھی آئی کہ شبانہ مترجم کی حیثیت سے کام کر سکتی ہیں لیکن رے کو یہ بات پسند نہیں آئی۔ انھوں نے اعلان کیا: ‘مجھے بڑے ناموں کی ضرورت نہیں ہے۔ میں کسی نئے شخص کے خلاف نہیں ہوں بشرطیکہ اسے اردو اور انگریزی پر مساوی دسترس حاصل ہو۔’

مانک دا نے ‘شطرنج کے کھلاڑی’ کا ہر مکالمہ بنگالی میں لکھا تھا۔

جاوید صدیقی بتاتے ہیں: ‘مانک دا نے سب سے پہلے سارے مکالمے کا انگریزی میں ترجمہ کرایا تاکہ وہ اصل سکرین پلے اور میرے لکھے مکالموں کے فرق کو سمجھ سکیں۔ پھر انھوں نے تمام مکالمے کا بنگالی میں ترجمہ کرا کر اسے دیکھا۔

‘جب میں نے اس سے اس کی وجہ پوچھی تو انھوں نے کہا ‘زبان کوئی ہو الفاظ کی اپنی لے ہوتی ہے۔ یہ لے درست ہونی چاہیے۔ اگر ایک سر غلط لگ جائے تو پورا منظر بے معنی ہوجاتا ہے۔’

ستیہ جیت رے

اس فلم میں مانک دا نے سنجیو کمار، امجد خان اور سعید جعفری کے علاوہ وکٹر بینرجی کو بھی اپنے ساتھ لیا۔

ستیہ جیت رے کی اہلیہ بیجویا رے اپنی سوانح عمری ‘مانک اور آئی مائی لائف ود ستیہ جیت رے’ میں لکھتی ہیں: ‘ان دنوں وکٹر ستیہ جیت رے سے ملنے آئے۔ وہ دیکھنے میں اچھے تھے اور تعلیم یافتہ بھی تھے۔ مانک کو وہ بہت پسند آئے۔ انھوں نے وکٹر سے یوں ہی پوچھ لیا ‘کیا آپ اردو بول سکتے ہیں؟’ وکٹر نے بغیر کسی ہچکچاہٹ کے ‘ہاں’ کہا۔ مانک نے انھیں فوری طور پر واجد علی شاہ کے وزیر اعظم کا کردار دے دیا۔’

“جب شوٹنگ ختم ہوئی تو وکٹر نے مجھے یہ راز بتایا کہ وہ اس وقت اردو کا ایک لفظ تک نہیں جانتے تھے۔ لیکن اگلے ہی دن سے انھوں نے اردو کا ایک اچھا استاد رکھا اور زبان سیکھنا شروع کردی۔ انھوں نے رے کے ساتھ کام کرنے کا موقع نہیں جانے دیا اور زبان سے واقفیت نہ ہونے کے بعد بھی بہترین اردو بولی۔’

پرانے زمانے کے بہی کھاتوں جیسی سکرپٹ

جاوید صدیقی بتاتے ہیں: ‘ستیہ جیت رے کی سکرپٹ کسی بہی کھاتے کی طرح ہوتی تھی جو کسی زمانے میں پنساری رکھتے تھے۔ ہلکے بادای کاغذ پر سرخ رنگ کی جلد ہوتی تھی اور اس میں اردو کے تمام مکالمے اور اس کے انگریزی اور بنگالی ترجمے صاف ستھرے انداز میں تحریر ہوتے تھے۔

‘سیٹ پر مانک دا کی آواز کبھی اونچی نہیں ہوتی تھی۔ وہ فنکار کو اتنی مدھم آواز میں ہدایت دیتے کہ متعدد بار پاس بیٹھے ہونے کے باوجود میں ان کی باتیں سن نہیں پاتا تھا۔

‘وہ اداکار سے کتنا ہی دور کیوں نہ کھڑے ہوں کبھی بھی چیخ کر بات نہیں کرتے تھے۔ وہ اس کے پاس جاتے، کان میں کچھ کہتے اور پھر چلے جاتے۔’

واجد علی شاہ کی بلی کھو گئی

‘شطرنج کے کھلاڑی’ ایک تاریخی فلم تھی جس میں بہت سی پرانی چیزیں استعمال ہوئی تھیں۔ ان کے ایک دوست کیجریوال نے انھیں پرانی جمع وار شالین دیں جن کا فلم میں خوب استعمال ہوا۔

واجد علی شاہ کو اپنے پاس بلی رکھنے کا بہت شوق تھا۔

بیجویا رے اپنی سوانح عمری میں لکھتی ہیں: ‘ہم اس فلم کے لیے بلی کی تلاش کر رہے تھے۔ ہماری پرانی دوست جہاں آرا چودھری نے ہمیں اپنی بلی دے کر یہ پریشانی دور کردی۔ لیکن اس بلے کی وجہ سے ہمیں شرمندگی کا بھی سامنا کرنا پڑا۔

‘یہ ہوا کہ پہلے دن کی شوٹنگ کے بعد اچانک یہ بلا غائب ہوگیا۔ ہم نے اسے ہر جگہ تلاش کیا لیکن ہمیں یہ نہیں مل سکا۔ اپنا پیارا بلا کھو کر جہاں آرا کی آنکھوں میں آنسو آ گیا۔

‘مانک دا کو بھی شوٹنگ روکنا پڑی کیونکہ اس بلے کو ہمیشہ واجد علی شاہ کے ساتھ رہنا تھا۔ اگلے دن جب ہمیں معلوم ہوا کہ بلا مل گیا ہے تو ہماری جان میں جان آئی۔’

ستیہ جیت رے

دن میں صرف ایک چکن سینڈویچ اور میشٹی دہی

ستیہ جیت رے کی ایک اور عادت تھی۔ سیٹ پر پہنچنے کے بعد وہ شام کو پیک اپ کے بعد ہی باہر نکلتے تھے۔

جاوید صدیقی بتاتے ہیں: ‘وہ ایک ہاتھ میں قلم اور دوسرے میں چکن سینڈویچ لے کر اپنی کرسی پر بیٹھتے تھے۔ ان کی گود میں سکرپٹ بک کھلی ہوئی تھی اور ان کی نظر صفحات پر ہوتی تھی۔ آٹھ گھنٹے کی شفٹ میں وہ صرف ایک چکن سینڈویچ اورکلہڑ میں جمائی گئی مشٹی دہی کھاتے تھے۔

‘اس کے بعد ذائقہ بدلنے کے لیے سگریٹ پیتے تھے۔ کیمرہ مین ہونے کے باوجود وہ خود کیمرہ چلانے کو ترجیح دیتے۔ چاہے جتنے بھی شاٹس ہوں وہ کیمرہ مین ہاتھ نہیں لگانے دیتے۔ وہ اپنی فلمیں خود ہی ایڈٹ کرتے تھے۔’

ستیہ جیت رے

خواتین کی بہت عزت کرتے تھے

اداکار سعید جعفری نے اپنی سوانح عمری ‘سعید’ میں بھی اس فلم کا تذکرہ کیا ہے۔

سعید جعفری لکھتے ہیں: ‘مانک دا اپنی سرخ کتاب میں تمام شاٹس کے خاکے بناکر رکھتے تھے۔ ان کا زور کیمرے کے پیچھے کی روشنی کی باریکیوں پر ہوتا تھا۔ میں اور سنجیو شوٹنگ کے لیے پوری طرح تیار کرکے آتے تھے، لہذا تمام شاٹس ایک ہی بار میں اوکے ہوجاتے تھے۔

‘مانک دا شراب نہیں پیتے تھے۔ لہذا وہ شوٹنگ ختم ہونے کے بعد سیدھے اپنے گھر جاتے اور اگلے دن ہونے والی شوٹنگ کے خاکے بناتے۔

‘ایک دن ہم لکھنؤ کے ایک گاؤں میں شوٹنگ کر رہے تھے۔ کسی نے میری اہلیہ جینیفر کو مانک دا کا سٹول بیٹھنے کے لیے دے دیا۔ جینیفر کو اندازہ نہیں تھا کہ اسی اسٹول پر بیٹھ کر ماندک دا اپنا کیمرا چلاتے ہیں۔ خواتین کی عزت کا اتنا خیال تھا کہ انھوں نے دیر تک جینیفر کے اٹھنے کا انتظار کیا اور پھر شرماتے ہوئے کہنے لگے، ‘مائی ڈیئر جینیفر، کیا میں تھوڑی دیر کے لیے آپ کا سٹول لے سکتا ہوں؟’

جب ستیہ جیت رے سوناگاچھی گئے

ستیہ جیت رے فلم ‘شطرنج کے کھلاڑی’ میں مجرا کرانے کے لیے ایک نوجوان ڈانسر کی تلاش میں تھے۔ بعد میں یہ کردار ساسوتی سین نے کیا۔

کسی نے مانک دا کو بتایا کہ کلکتہ کے ریڈ لائٹ ایریا سوناگاچھی کی ایک خاتون اس کردار کو بخوبی نبھا سکتی ہے۔

جاوید صدیقی نے بتایا: ‘مانک دا اس عورت کو اپنے پاس بلا سکتے تھے اور وہ خوشی خوشی ان سے ملنے آتی۔ لیکن رے نے سوچا کہ وہ خاتون کہیں ان کے سٹوڈیو میں آ کر پریشان نہ ہو، اس لیے وہ ان سے ملنے ان کے ہاں گئے۔

‘بازارِ حسین کی گلیاں اتنی تنگ تھیں کہ ان کی کار اس میں داخل نہیں ہوسکتی تھی۔ رے اپنی گاڑی سے باہر نکل کر پیدل چلتے ہوئے گوہر مقصود کے گھر گئے۔ کوٹھے پر پہنچ کر پہلے ان کا مجرا دیکھا اور پھر ان سے بات کی۔ جب رے کوٹھے سے باہر آرہے تھے تو لوگوں نے پہچان لیا اور ان کی ایک جھلک پانے کو ہجوم نہ صرف اس گلی میں جمع ہوا بلکہ چاروں اکٹھا ہو گيا۔

‘حیرت کی بات یہ ہے کہ لوگوں نے انھیں اس طرح نہیں گھیرا جس طرح اکثر فلمی اداکاروں کو گھیر لیتے ہیں۔ انھوں نے احترام کے ساتھ ان کے لیے راستہ بنایا۔ مانک دا چلتے رہے اور لوگ ان کے پیچھے انھیں گاڑی تک چھوڑنے آئے۔’

اپور سنسار

کھانے کے شوقین لیکن آم سے نفرت

ستیہ جیت رے کو کھانے کا بہت شوق تھا۔ ہر اتوار کی صبح وہ کلکتہ کے مشہور فلوری ریسٹورنٹ میں ناشتہ کرنے جاتے تھے۔

یورپی کھانے کے ساتھ ساتھ وہ بنگالی کھانا بھی پسند کرتے تھے۔ انھیں خاص طور پر لوچی، اہرڑ کی دال اور بیگن بھاجا بہت پسند تھا۔

ستیہ جیت رے کی اہلیہ اپنی سوانح عمری میں لکھتی ہیں: ‘ستیہ جیت صرف اس وقت مچھلی کھاتے تھے جب وہ بیک ہو یا گرل ہو۔ میری ساس انھیں روہو مچھلی کا ایک ٹکڑا کھلانے کی پوری کوشش کرتیں لیکن اس میں بہت کم کامیابی ملتی۔‘

‘انھیں جھینگا سے بھی الرجی تھی۔ ہاں، وہ انڈوں کے بہت شوقین تھے، بطور خاص اس کی زردی۔ مانک کو پھلوں سے کوئی لگاؤ نہیں تھا۔ انھیں آم کی خوشبو سے بھی نفرت تھی۔ ہم گرمیوں میں آم کھانے کو للچتے رہتے لیکن مانک کی ہدایت تھی کہ ہم ان کے کھانے کی میز سے اٹھنے کے بعد ہی آم کھا سکتے ہیں۔

‘میرے بیٹے کو بھی آم پسند نہیں ہے لیکن وہ سٹرابیری، چیری اور آلو بخارا کھانا پسند کرتا ہے۔ مانک کو یہ سب پھل بھی پسند نہیں تھے۔’

ستیہ جیت رے

سکم پر بنائی گئی دستاویزی فلم پر پابندی

ستیہ جیت رے نے سکم پر ایک دستاویزی فلم بنائی۔سکم کے چوگیال نے انھیں یہ دستاویزی فلم بنانے کی ذمہ داری سنہ 1971 میں دی تھی۔

اس وقت تک سکم انڈیا کے کنٹرول میں نہیں تھا۔ جب سنہ 1975 میں سکم انڈیا میں ضم ہوگیا تو اس فلم پر پابندی عائد کردی گئی کیونکہ اس میں سکم کی خودمختاری کی بات کی گئی تھی۔

ستمبر سنہ 2010 میں انڈین وزارت خارجہ نے یہ پابندی ختم کردی۔ نومبر 2010 میں کولکتہ کے فلم فیسٹیول میں یہ فلم پہلی بار دکھائی گئی۔ لیکن اس کو کہیں اور دکھائے جانے سے پہلے فلمی میلے کے ہدایتکار کو سکم ہائی کورٹ کا حکمنامہ ملا کہ فلم پر دوبارہ پابندی عائد کردی گئی ہے۔

آڈری ہیپ برن نے آسکر دیا

جب ستیہ جیت رے کو بتایا گیا کہ انھیں ‘لائف ٹائم آسکر’ ایوارڈ دیا جارہا ہے تو انھوں نے اس خواہش کا اظہار کیا کہ انھیں یہ ایوارڈ مشہور ہالی وڈ اداکارہ آڈری ہیپ برن دیں۔

ان کی خواہش کا احترام کرتے ہوئے 30 مارچ 1992 کو آڈری ہیپ برن نے انھیں ایوارڈ دیا۔

انھوں نے کولکتہ کے ایک نرسنگ ہوم میں اپنے بستر پر بیٹھتے ہوئے یہ ایوارڈ قبول کیا جسے ویڈیو لنک کے ذریعے پوری دنیا میں براہ راست دکھایا گیا تھا۔ ہسپتال میں انھیں یہ ٹرافی ان کی اہلیہ بیجویا نے دیا۔

بعد میں انھوں نے اپنی سوانح عمری میں لکھا: ‘جب میں مانک آسکر ٹرافی کو تھامے ہوئے تھے، تب مجھے احساس ہوا کہ وہ بہت بھاری تھی۔ اگر مانک کے ڈاکٹر بخشی نے اس ٹرافی کے نچلے حصے کو اپنے ہاتھ سے نہیں پکڑا ہوتا تو مانک کے ہاتھ سے پھسل جاتی۔ آسکر ایوارڈ کے اعلان کے دو دن بعد حکومت ہند نے انھیں بھارت رتن کے اعزاز سے نوازا۔’

ایوارڈ ملنے کے چند ہفتوں بعد 23 اپریل 1992 کو ستیہ جیت رے چل بسے اور اتفاق کی بات ہے کہ اس کے کچھ ماہ بعد جنوری 1993 میں آڈری ہیپ برن بھی دنیا سے رخصت ہو گئیں۔

ستیہ جیت رے کی ‘تیسری آنکھ’

امجد خان کو فلم ‘شطرنج کے کھلاڑی’ میں لینے سے پہلے ستیہ جیت رے ان سے کبھی نہیں ملے تھے۔ انھوں نے پہلی بار فلم شعلے میں دیکھا تھا۔ اگلے دن انھوں نے ان کی تصویر بنائی۔ انھوں نے تصویر کے کان اور گلے میں ہیرے پہنائے اور اپنے سر پر کڑھائی والی دوپلی ٹوپی رکھی۔ اس تصویر کو دیکھنے کے بعد لوگوں کے منھ سے نکلا ارے یہ تو جان عالم واجد علی شاہ کی تصویر ہے۔

نہ صرف امجد خان بلکہ شرمیلا ٹیگور، اپرنا سین اور سومترا چیٹرجی کو بھی سنیجیت رے نے سٹار بنایا۔

کہا جاتا ہے کہ ستیہ جیت رے کی تیسری آنکھ تھی۔ کچھ ایسی بات جس پر کسی کا دھیان نہیں جاتا وہ فوراً ہی رے کی آنکھوں میں آ جاتی۔

جاوید صدیقی نے ایک واقعہ بتاتے ہیں: ‘جب وہ سٹوڈیو میں میر روشن علی کے گھر کا سیٹ دیکھنے آئے تو انھوں نے فورا ہی کہا کہ دیواریں صاف ستھری نظر نہیں آنی چاہئیں۔ پھر اچانک انھیں ایک بالٹی نظر آئی جس میں پینٹ برش رکھے ہوئے تھے۔ انھوں نے ایک برش اٹھایا جو گندے پانی میں بھگویا ہوا تھا اور اسے صاف دیوار پر پھیر دیا۔’

بناوٹی ہونے کا الزما

کچھ لوگوں کا خیال تھا کہ ستیہ جیت رے دکھاوے میں یقین رکھتے تھے۔

ایک بار ‘اپور سنسار’ دیکھنے کے بعد ایک صحافی نے ان سے پوچھا کہ اس فلم میں بہت سے ٹریکنگ شاٹس ہیں جب کہ آپ کی پہلی فلم ‘پاتھیر پنچالی’ میں صرف جامد شاٹس تھے۔ کیا وجہ ہے کہ آپ نے اپنی فلم بندی کا انداز بدل ڈالا؟

مانک دا کا جواب تھا ‘اس وجہ سے کہ میرے پاس پاتھیر پنچالی کے دنوں میں ٹرالی خریدنے کے پیسے نہیں تھے۔’

ستیہ جیت رے

بی بی سی کے سٹوڈیو میں ستیہ جیت رے

اسی طرح ٹیکسی ڈرائیور کی زندگی پر اپنی ایک فلم ‘ابھیجان’ دیکھنے کے بعد ایک صحافی نے ان سے پوچھا کیا آپ ٹیکسی کے ریئر مرر کے ذریعے ٹیکسی ڈرائیور کی ٹوٹی ہوئی انا کو دکھانا چاہتے تھے؟

ستیہ جیت رے نے حیرت سے صحافی کی طرف دیکھا اور پھر اپنے آرٹ ڈائریکٹر بنسی چندر گپت کی طرف دیکھ کر پوچھا، ‘بنسی کیا واقعی ہم نے ٹوٹا ہوا آئینہ دکھایا تھا؟’

ایک شاعر کا شعر مانک دا پر حسب حال نظر آتا ہے۔

فسانے یوں تو محبت کے سچ ہیں پر کچھ کچھ

بڑھا بھی دیتے ہیں ہم زیب داستاں کے لیے


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32291 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp