بحریہ ٹاؤن کا سندھ کی زمینوں پر قبضہ اور پیپلز پارٹی کا کردار


کافی عرصہ پہلے لاہور اور راولپنڈی سے بحریہ ٹاؤن کے نام سے ایک ہاؤسنگ پروجیکٹ ابھرا جس میں انتہائی خوبصورت ولاز مکمل سیکورٹی اور دیگر سہولیات کے ساتھ شہریوں کو انتہائی مہنگی قیمت پر فروخت کیے گئے۔

یہ تو اس کمپنی کا اوائل تھا اور اس کے بعد وقت گزرتا گیا اور بحریہ ٹاؤن کا دائرہ وسیع سے وسیع تر ہوتا گیا۔

گزشتہ چند روز سے پاکستانی سوشل میڈیا پر متعدد ایسی ویڈیوز اور تصاویر گردش کر رہی ہیں جن میں بظاہر اسی بحریہ ٹاؤن کے مسلح اہلکار بڑی گاڑیوں اور بلڈوزر کے ہمراہ کسی علاقے میں موجود ہیں اور ان کی موجودگی کے خلاف کئی لوگ سراپا احتجاج ہیں۔ ابھی میری نظر سے ایک ویڈیو گزری جس میں بحریہ ٹاؤن کے اہلکار کراچی کے مضافاتی گاؤں گڈاپ اور کاٹھوڑ کے لوگوں پر بندوقیں تان رہے ہیں۔ یہ بحریہ ٹاؤن کا اپنے ملک کے لوگوں کے خلاف رواں رکھا گیا رویہ ہے۔

ان دیہاتوں کے مقامی لوگ بھی اس سامراجیت کے خلاف مزاحمت جاری رکھے ہیں، لیکن کب تک یہ مزاحمت کریں گے، تھک جائیں گے، ہار جائیں گے، اور سرمایہ دار پھر جیت جائے گا۔ اس نے تو اچھے بھلے لوگوں کی زبانیں اور قلم نوٹوں کی گڈیوں سے خرید لیں کیا اس کے خلاف یہ بیچارے دیہاتی ٹک سکیں گے؟ قصہ تو یہ کئی سالوں پر محیط ہے، لیکن ابھی حالیہ دنوں میں بحریہ ٹاؤن کا خصوصاً سندھ کی زمینوں اور لوگوں پر سامراجی جلوہ اپنے بام عروج کو چھو رہا ہے۔ شاید، اس کی وجہ سندھ کے لوگوں کی طرف سے پسند و منتخب کی گئی ایک جماعت ہے جس کو پچھلے اٹھارہ سالوں سے سندھ کے لوگ اپنے ووٹ کی طاقت سے بار بار صوبہ سونپ رہے ہیں۔

ملک ریاض تو ہے ہی ایک سرمایہ دار اور اس کا منشور اپنے خزانے کو مزید وسعت بخشنا ہے لیکن یہ جو کام ہو رہا ہے سندھ کے قدیمی گاؤں مسمار کیے جا رہے ہیں یہ سب سندھ حکومت کے پیٹھ پیچھے نہیں بلکہ سندھ کی اسی مقبول اور نام عوامی پارٹی پیپلز پارٹی کی حکومت سندھ کی سرپرستی میں ہو رہا ہے۔ وہ پیپلز پارٹی جو کئی دہائیوں سے لوگوں کو روٹی، کپڑا اور مکان کا چورن بیچ رہی ہے۔ اسی حکومت نے سندھ کے لوگوں سے روٹی کے نام پر نوالہ چھین لیا، کپڑے کے نام پر لوگوں کو ننگا چھوڑ دیا اور مکان کے نام پر اب لوگوں کو بے گھر کرنے کے درپے ہے۔

یہ وہی لوگ ہیں جو سندھ کے جنگلات تباہ کر کہ زمینیں ہڑپ کر گئے، تعلیم پر جو پیسہ لگنا تھا وہ ان کے محلات پر خرچ ہو گیا، سندھ کی بجٹ میں صحت کے بڑے بڑے اعداد و شمار تو دکھائے گئے لیکن حالات یہ ہیں کہ مائیں ہسپتالوں کے سامنے بچوں کو جنم دے رہی ہیں، لاشوں کے لئے ایمبولینس نہیں، تھر کے بچے غذا کی قلت کے سبب مر رہے ہیں کتا کاٹ جائے تو ویکسین نہیں۔

بحریہ ٹاؤن کے مالک ملک ریاض کی آصف علی زرداری سے دیرینہ دوستی کے چرچوں سے کون انجان ہوگا۔
پنجاب سے جب اسی صاحب کو بھگایا گیا تو کراچی میں ویلکم کرنے والا بھی آصف علی زرداری ہی تھا۔

آصف زرداری کے لیے لاہور میں محل کی تعمیر اور پھر مبینہ طور پر تحفے میں دینا اس کی اعلیٰ ترین مثال ہے، اور پھر ”یہ دوستی، ہم نہیں چھوڑیں گے، توڑیں گے دم مگر، تیرا ساتھ نہ چھوڑیں گے“ یہی معاملہ رہا۔

کراچی کے بن قاسم پارک میں ملک ریاض کو کمرشل تعمیرات کی بھی اجازت دے دی گئی۔ عبداللہ شاہ غازی کے بالمقابل پاکستان کا سب سے اونچا ٹاور بنانے کی بھی غیبی اجازت ملک ریاض کو ہی نصیب ہوئی۔ یہ سب چیزیں نام نہاد عوامی پارٹی پیپلز پارٹی کی سرپرستی میں ہوئی۔

بحریہ ٹاؤن کو بغیر کسی نقشے کے سندھ کے لوگوں کی 1600 ایکڑ زمین الاٹ کی گئی اور ان 1600 ایکڑ کے علاوہ بھی 900 ایکڑ مزید زمین بحریہ ٹاؤن نے فتح کر ڈالی اس کے باوجود بلاول بھٹو زرداری کی غیرت نہ جاگی، بلاول کی وہ للکار نہ سنائی دی گئی جو مریم بی بی کے گرفتار ہونے پر قومی اسمبلی میں گونجی۔

اس سے پہلے سپریم کورٹ نے ملیر کی 16 ہزار 896 ایکڑ زمین پر غیر قانونی قبضے سے متعلق کیس میں بحریہ ٹاؤن کے خلاف فیصلہ سنایا تھا۔ تاہم، عدالت نے بحریہ ٹاؤن کی انتظامیہ کی طرف سے مقدمات ختم کرنے کے لیے 460 ارب روپے ادا کرنے کی پیشکش قبول کرلی تھی۔

ذرائع کا کہنا ہے کہ بحریہ ٹاؤن نے اب تک اس رقم کی بھی ادائیگی مکمل نہیں کی ہے اور اس معاملے میں سندھ حکومت اور انتظامی ادارے خاموش ہیں۔

پیپلز پارٹی بحریہ ٹاؤن اور ملک ریاض کے ساتھ مل کر جو کچھ کر رہی ہے وہ تو مجھ جیسے کم علم اور کم عقل کو بھی سمجھ آہی جاتا ہے، لیکن باعث حیرت یہ ہے بحریہ ٹاؤن کے اس جبر کے خلاف ہماری مین اسٹریم میڈیا نے مکمل خاموش اختیار کر رکھی ہے۔ میڈیا کے وہ لوگ جو خود کو انسانی حقوق کے علمبردار گردانتے نہیں تھکتے ان کے منہ سے بحریہ ٹاؤن کے خلاف ایک لفظ صادر فرماء نہیں ہوا۔ کیا اب ہمیں یہ سمجھنا چاہیے کہ ملک ریاض نے صحافت کے ان بڑے بڑے سرخیلوں کو بھی اپنی مٹھی میں سمیٹ لیا ہے؟

صرف یہی نہیں ملک ریاض اور اس کی ایمپائر کے خلاف قومی اسمبلی یا سینیٹ میں بھی آواز نہ گونجنے کو یقینی بنایا گیا ہے۔ اس ضمن میں رکن قومی اسمبلی محسن داوڑ نے جمعرات کو اپنی ٹویٹ میں سوال اٹھایا تھا کہ ہر کوئی ملک ریاض کے بارے میں خاموش کیوں ہے؟

محسن داوڑ نے لکھا کہ ’میں نے قومی اسمبلی میں ان کے برطانوی سیٹلمنٹ کے بارے میں سوال کرنے کی کوشش کی ہے لیکن کبھی بولنے نہیں دیا گیا۔ اسی طرح سندھ میں بحریہ ٹاؤن کے گاؤں پر حملے جاری ہیں لیکن انھیں میڈیا اور سیاسی جماعتوں کی جانب سے نظر انداز کیا جا رہا ہے۔‘

یہ ساری چیزیں اس طرف اشارہ کر رہی ہیں کہ اس عمل میں اکیلا ملک ریاض نہیں بلکہ تقریباً ہر ایک صاحب اختیار اور صاحب قلم ملوث ہونے کی نوید سنائی دے رہی ہے۔

سندھ کے لوگوں کو چاہیے بحریہ ٹاؤن اور ملک ریاض سے پہلے پیپلز پارٹی کا گھیرا تنگ کریں۔ سندھ کی عوام نے ووٹ دے کر سندھ کی رکھوالی کے لئے انہیں چنا ہے نہ کہ ملک ریاض کو۔ سندھ کے لوگوں کو، پیپلز پارٹی جوابدہ ہے نہ کہ ملک ریاض۔ کچھ عرصہ پہلے ایک ٹی وی شو کے دوران ملک ریاض نے ببانگ دہل فر مایا کہ ”ملک ریاض فائل کے نیچے پہیے لگا دیتا ہے۔ پھر فائل نہیں رکتی۔“ سندھ کے لوگوں کو پیپلز پارٹی سے پوچھنا چاہیے کہ ملک ریاض نے سندھ کی زمیں ہتھیانے کے لئے کون سا پہیا استعمال کیا۔ لوگوں کو اپنی منتخب جماعت کا محاصرہ کرنا چاہیے، جواب لینا چاہیے۔

کیا سندھ کے لوگ ذہنی شش و پنج سے نکل کر پیپلز پارٹی سے اپنے پرکھوں کی زمینوں کا حساب طلب کریں گے؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments