ملک و قوم کے وسیع تر مفاد میں


یونانی مدبر سولون  نے کہا تھا کہ قانون مکڑی کا وہ جالا ہے جس میں کمزور پھنس جاتے ہیں جبکہ طاقور اس کو پھاڑ کر نکل جاتے ہیں۔ اور طبقاتی سماج میں قانون طاقتور کے دروازے کے دربان کی حیثیت رکھتا ہے اور کمزور کے لیے قانون اپنی تمام تر حشر سامانیوں کے ساتھ موجود ہوتا ہے۔ اس کی دلیل یہ کہ فٹ پاتھ پر کھڑی ہوئی ریڑھی ناجائز تجاوزات کے زمرے میں آتی ہے قانون حرکت میں آتا ہے اور ریڑھی الٹ دی جاتی ہے اور ریڑھی مالک کو گرفتار کر لیا جاتا ہے وہی قانون حکم دیتا ہے کہ احتساب کے ادارے طاقتور سیاسی شخصیات کو گرفتار کرنے سے دس دن قبل گرفتاری کا نوٹس دیں گے۔ بنی گالہ میں کپتان کے گھر کے نقشہ کی منظوری سے لے کر کراچی میں بحریہ ٹاؤن کے نقشہ کی تیاری تک ایک قانون ہی ہے جو آنکھوں پر کالی پٹی باندھے دم سادھے رہتا ہے۔

یہی قانون ہی ہے جس کی بے چارگی پہ دل کڑھتا ہے کہ ایک ایسے وقت میں جب قانون کورونا کی وبا کے پھیلاو کے پیش نظر لوگوں کو چھ بجے کے بعد اور عید کی چھٹیوں میں مکمل طور پر گھروں سے باہر نکلنے کی اجازت نہیں دے رہا اسی قانون کی موجودگی میں چھوٹے میاں صاحب نا صرف جیل سے باہر نکلے ہیں بلکہ علاج کی غرض سے لندن بھی جا رہے ہیں۔ اس پر چند حکومتی وزیروں مشیروں نے شور ڈالا کہ یہ کیا ہو رہا ہے تو شریف فیملی کی طرف سے ٹویٹ میں جواب ملا کہ روک سکو تو روک لو۔ مگر روکنا کس کے اختیار میں ہے نا تو 2018 کے انتخابات میں تبدیلی کو آنے سے کوئی روک سکا اور نا اب شہباز کی پرواز کو کوئی روک پائے گا۔ وجہ یہ کہ جب کوئی کام ملک و قوم کے وسیع تر مفاد میں ہو وہاں قانون ثانوی حیثیت رکھتا ہے کیونکہ ملک و قوم کا مفاد زیادہ معتبر ہوتا ہے۔

اس حوالے سے ہم ایک قابل تعریف قوم ہیں کہ بات جب بھی ملک و قوم کے وسیع تر مفاد کی آتی ہے تو ہم اخلاقی رکاوٹ کو بھی باآسانی عبور کر جاتے ہیں مگر ملک و قوم کے مفاد پر کبھی سمجھوتہ نہیں کرتے۔ گزشتہ ادوار میں ملک خطرات میں گھرا تھا تو ملک و قوم کے وسیع تر مفادات میں نئے پاکستان کے لیے تبدیلی لائی گئی۔ ہر کرپٹ کو پابند سلاسل کر دیا گیا۔ ریاست مدینہ ثانی کے بنانے کا تاثر دینے کے لیے کئی بار ننگے پاؤں مدینہ منورہ میں حاضری دی گئی۔ مگر ہم شاید یہ اصولی بات بھول گئے کہ مدینہ جیسی ریاست کی تشکیل جس جلیل القدر پیغمبر کے ہاتھوں ہوئی تھی اس جیسی ریاست ثانی کی تشکیل کرنے والے کا کردار قمیض میں سوراخ ہونے سے اور ننگے پاؤں چلنے سے بڑھ کر ہونا چاہیے تھا۔ جو کہ نہیں تھا اور نتیجہ سب کے سامنے ہے کہ ریاست مدینہ ثانی تشکیل نہیں پا سکی۔

حکومت کی اندر کی خبریں لانے والے ایک صحافی کے وی لاگ میں یہ بریکنگ نیوز دی گئی کہ کپتان کسی وقت اسمبلیاں توڑ سکتے ہیں۔ اور یہ حکومت اپنی مدت پوری نہیں کرے گی اب خدا جانے اس میں نئی بات کیا تھی یا اس کو بریک کرنے والے کون سی بات تھی۔ حکومت نے جس طرح کا وقت اب تک گزارا ہے اس کے بعد تو ان اسمبلیوں کو کب کا ٹوٹ جانا چاہیے تھا سوال اسمبلیاں توڑنے پر نہیں بلکہ دیر سے توڑنے پر ہونا چاہیے کہ بندہ خدا کیا سوچ کر تبدیلی کے نام پر ملک و قوم کا وقت ضائع کرتے رہے ہو۔ ایک اسسٹنٹ کمشنر تو تم سے سنبھالی نہیں گئی اور چلے تھے ملک کا نظام ٹھیک کرنے بہرحال جنوں میں جتنی گزری بکار ہی گزری ہے

قصہ مختصر یہ کہ احتساب کے نام کا ڈرامہ بند ہونے جا رہا ہے یہی وجہ ہے کہ ماضی کا ہر مبینہ کرپٹ یا تو جیل سے باہر ہے یا ملک سے باہر ہے۔ اگر کوئی ایک آدھا اندر رہ گیا ہے تو پیشگی معذرت کے ساتھ اطلاع ہے کہ وہ بھی باہر ہوں گے کیونکہ اس وقت ملک و قوم کے مفاد کے نام کی نوٹنکی شروع ہونے جا رہی ہے۔ ملک کو درپیش گمبھیر حالات کے پیش نظر تمام سیاسی جماعتوں اور قائدین کا مل بیٹھ کر سوچنا ازحد ضروری ہو گیا ہے۔ لہذا بلاول ہاؤس کراچی میں اسلامی ملکوں کے سفیروں کے افطار ڈنر سے لے کر شہباز شریف کی چینی، سعودی سفیر اور برطانوی ہائی کمشنر سے ملاقاتیں بتا رہی ہیں کہ معاملات کسی اور سمت چل پڑے ہیں۔

یہی نہیں بلکہ کپتان بھی اس وقت سعودیہ پہنچ چکے ہیں جہاں پر کراون پرنس محمد بن سلیمان نے ان کا استقبال کیا ہے۔ خطے میں بڑے ملکوں کی ضرورتوں کو پورا کرنے کے لیے ایک بار پھر ہماری ضرورت پڑ گئی ہے لہذا صرف استقبال نہیں خیرسگالی اور محبتوں کے فروغ کے لیے ایک بہترین پیکج بھی تیار ہے کئی ایم او یوز پر دستخط ہوں گے اور برادر اسلامی ملکوں کے درمیان قربتیں اور بڑھیں گی۔ اور ہم ضرورت پڑنے پر اپنے برادر اسلامی ملک کو تنہا نہیں چھوڑیں گے ہر قدم پر ساتھ دیں گے۔

رہی بات چھوٹے میاں صاحب کی تو وہ بھی لندن بڑے میاں صاحب سے ڈائیلاگ کرنے جا رہے ہیں امید ہے کچھ مدت تک خاموش تعاون کی یقین دہانی کے بدلے بہت کچھ حاصل کرنے کی یقین دہانی کرانے میں کامیاب ہوجائیں گے۔ سوال یہ ہے کہ کیا بڑے میاں صاحب خاموش تعاون پر راضی ہوجائیں گے اور اپنے بیانیے سے پیچھے ہٹ جائیں گے؟ کیا اس طرح بیانیے سے پیچھے ہٹ جانے سے ورکرز کی حوصلہ شکنی نہیں ہوگی اور پارٹی کارکن مایوسی کا شکار نہیں ہوگا تو ان سب سوالات کا ایک ہی جواب ہے کہ جب ملک و قوم کے وسیع تر مفاد میں فیصلے کرنے ہوتے ہیں تو پھر پارٹی ورکرز کی پسند نا پسند اہمیت نہیں رکھتی۔

ایسے مرحلے پر فیصلہ سازی کے دوران صرف اور صرف ملک و قوم کا مفاد مدنظر رکھا جاتا ہے اور ہونا کچھ یوں ہے کہ بڑے میاں صاحب شاید خاموش ہوجائیں گے اور چھوٹے میاں صاحب دیگر سیاسی جماعتوں کی طرح مفاہمت کی راہ اپناتے ہوئے ملک و قوم کے وسیع تر مفاد میں فیصلے کریں گے۔ نتیجہ یہ کہ حصہ بقدر جثہ ملے گا اور پانی پلوں کے نیچے سے بہے گا۔ عزیزو بس یہ سمجھ لیجیے کہ جس عطار کے لونڈے کے سب بیمار ہوئے تھے اسی سے دوائی لیں گے تو افاقہ ہوگا


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments