لڑکے روتے نہیں ہیں، تم لڑکی ہو کیا؟ مرد بنو


ڈیر رابعہ الربعہ
آج جب گولڈن گرلز سیریز میں شرکت کے لیے آپ کا دعوت نامہ موصول ہوا تو بہت خوشی بھی ہوئی اور تھوڑی سی پریشانی بھی۔

خوشی اس لیے کہ گولڈن گرلز سیریز میں شرکت کا موقع مل رہا تھا اور پریشانی اس بات پر کہ عورتوں کی خود مختاری اور اس کی کی راہ میں کھڑی سب سے بڑی رکاوٹ مردوں کے لامحدود حقوق اور اختیارات پر کہنے کے لیے تو اتنا کچھ ہے میں میں اپنی بات کہاں سے شروع کروں گی۔

اسی ہی فکر میں تھی کہ خیال آیا کیوں نا مرد ذات کے طرز عمل کو ایک ماں اور استاد کی نظر سے دیکھا جائے اور محسوس کیا جائے کہ ان کو معاشرے نے صدیوں سے جو لامحدود اور اختیارات دے رکھے وہ ان کی زندگی پر کس طرح اثر انداز ہو رہے ہیں۔

بقول شاعر۔ وہ جو خامیوں کی سلیب ہے وہ گھڑی ہوئی ہے کہاں کہاں۔

جیسا کہ آپ جانتی ہی ہیں کہ میں ٹورنٹو کینیڈا میں ایک پبلک اسکول بورڈ میں اسپیشل ایجوکیٹر ہوں اور اپنی کمیونٹی میں رضا کارانہ طور پر امیگرنٹ فیملیز کے لیے بطور کونسلر اپنے فرائض انجام دیتی ہوں۔ لہذا مردوں کی نفسیات پر سوسائٹی نے جو اثرات ڈالے ہیں اس سے مجھے ہمدردی اور ہم احساسی کرنے میں زیادہ مشکل نہیں ہوئی۔

چلیں تو پھر اسی بات پر آپ کو اپنی ذاتی زندگی سے ایک چھوٹی سی کہانی اٹھا کر سناتی ہوں۔

میرا بیٹا دانیال جو اس وقت پندرہ سال کاہے اور پیدائش سے لے کر آج تلک ہر دن مجھے ایک چونکا دینے والی بات ضرور سکھاتا ہے۔ تقریباً دو سال پہلے جب وہ بچپن کو خدا حافظ کہ کر لڑکپن کی دہلیز پر قدم رکھ رہا تھا تو ایک دن اسکول سے کچھ افسردہ لوٹا۔ بچے عموماً بچے اس عمر میں اپنے ہارمونز کی تبدیلیوں کی وجہ سے تھوڑے موڈی اور تیزی سے جذباتی اتار چڑھاو کا شکار رہتے ہیں۔ اس لیے میں نے کچھ زیادہ توجہ نہیں دی۔ مگر جب رات کو ہوم ورک کرتے ہوتے اس کی آنکھوں میں آنسو دیکھے تو تشویش ہوئی اور اس سے میں نے پوچھنے کی کوششیں کی کہ معاملہ کیا ہے۔ مگر اس نے بجائے مجھ سے اپنے دل کی بات شیر کرنے کے بے رخی سے کہا کہ میں ٹھیک ہوں۔

بہرحال کمرے سے باہر جاتے ہوئے جب میں نے اس سے کہا کہ اگر تم بہتر سمجھو تو اپنی اداسی کی وجہ مجھے بتا دینا میں انتظار کروں گی۔ اور بچے نے تقریباً جھنجھلاتے ہوئے مجھے کہا کہ ”ہاں ہاں مجھے پتا ہے کہ لڑکے روتے نہیں ہیں اور مرد اپنا خیال خود رکھ سکتے ہیں“ ۔

گو ویسے تو یہ ایک چھوٹی سے بات تھی مگراس چھوٹے سے واقعے نے مجھے بری طرح جھنجھوڑ کر رکھ دیا۔ میں سوچ میں پڑ گئی کہ میری پرورش میں کہاں کمی ہو رہی ہے کہ کوشش کے باوجود زہریلی مردانگی میرے بچے کی شخصیت میں گھستی چلی آ رہی ہے۔ بہرحال معاملے کی جانچ پر معلوم ہوا کہ دوستوں کی تبلیغ کا اثر ہے اور وہ تمام صاحبان خود بھی مرد بن رہے ہیں ان جناب کو بھی مرد بنے کی پوری ٹریننگ مفت دے رہے ہیں۔

خیر بچے کو تو میں نے سمجھا دیا کہ کہ مرد بنو ایک نیگیٹو ٹرم ہے۔ اور ہمیں اس طرح کی غلط تعلیمات سے دور رہنا ہے۔ اور اصل مردانگی یہ ہے کہ مرد اپنی جسمانی طاقت اور اختیارات کا کسی طرح سے بھی غلط استعمال نا کرے مگراس سوچ کو لے کر میرے ذہن میں کئی سوال اٹھے۔ مثال کے طور پر لڑکوں کو ہمیشہ یہ کیوں کہا جاتا ہے کہ ”لڑکے روتے نہیں ہیں، مرد بنو، لڑکے بہادر ہوتے ہیں وہ اندھیرے سے نہیں ڈرتے ہیں“ وغیرہ وغیرہ۔ لفظ بہادری کی کیا تعریف ہے؟ کیوں بچارے مردوں کو بچپن سے ان کے جذبات کے اظہار کی آزادی نہیں دی جاتی؟ اور ان سب کے مردوں کی ذہنی صحت پر، ان سے جڑے لوگوں پر اور سوسائٹی پر کیا اثرات ہوتے ہیں؟

ان تمام سوالوں کے جواب ڈھونڈتے سے پہلے ایک اور سوال ہے کے رونے یا دکھ کا اظہار کا کرنا کیوں ضروری ہے؟ یعنی رونے کی آزادی ہونا کسی انسان کے لیے کیوں اہم ہے؟

رونا بنیادی طور سے اعصابی تناؤ اور جذباتی دکھ اور تکلیف کو بہا لے جانے اور دوسروں کو اپنی تکلیف سے آگاہ کرنے کا عمل ہے۔

پھر یہ سوال کہ لڑکوں پر بچپن سے نا رونے کی پابندی کیوں لگائی جاتی ہے؟ لڑکوں پر بچپن سے نا رونے کی پابندی اس لیے لگائی جاتی ہے کہ وہ بہادر اور ٹف بنیں۔ اور بہادری کا معیار کیا ہے کہ وہ جنگجو بنیں۔ دوسروں مردوں سے اپنے گھر کی عورتوں کی حفاظت کریں او اس بنیاد پر گھر میں اور معاشرے میں برتری رکھیں۔

مگر مردوں پر جذبات کے اظہار کی پابندی سے نقصان کیا ہوتا ہے؟ سب سے بڑا نقصان تو مردوں کو یہ ہوا کہ انہیں انسانیت کے عہدے سے دستبردار ہونا پڑا۔ انہیں بچپن سے اپنے آپ کو جذباتی طور سن کر کے زبردستی مضبوط یا اصل میں بے حس ہونے کی ایکٹنگ کرنی پڑتی ہے۔ دھیرے دھیرے ان کا دماغ اپنے جذبات سے آگہی اور اس کا اظہار دونوں بھول جاتے ہیں۔ اور یہ چیز ان کے اپنی ذات سے رشتے اور ساتھ رہنے والوں سے رشتوں پر اثر انداز ہوئی ہی۔

امریکہ میں کی جانے ولی ایک ریسرچ میں یہ بھی سامنے آیا کہ دنیا کے ہر تین مردوں میں سے ایک مرد اسٹریس کا شکار ہے اور یہ اسٹریس اس کی صحت پر بہت سارے منفی اثرات مرتب کر رہا ہے۔ بہت ساری جسمانی بیماریوں کے علاوہ وہ ذہنی دباؤ اور انتشار کا بھی شکار ہیں۔ مثال کے طور پر ڈپریشن، انزائٹی، جھنجھلاہٹ، جنسی خواہش کا کم ہوجانا، یادداشت یا زیادہ دیر تک کسی چیز پر توجہ مرکوز رکھ سکنے کی صلاحیت، مزاج میں تناؤ اور اپنے منفی جذبات کو سنبھالنے کی صلاحیت نا ہونا۔

جن مردوں کو اس ریسرچ میں شامل کیا گیا ان کا کہنا یہ بھی ہے کہ وہ اپنے ذہنی دباؤ اور انتشار کے لیے پروفیشنل مدد لینے سے قاصر ہیں کیونکہ ایسا کرنا انہیں دوسروں کی نظر میں ایک کمزور انسان بنائے گا۔ حتی کے وہ یہ بات اپنے گھر والوں سے بھی شیر نہیں کر سکتے کیونکہ ایک تو انہیں وہ طریقہ ہی نہیں معلوم کے کس طرح وہ گھر والوں سے دل کی بات شیر کریں اور پھر یہ خدشہ بھی ہے کہ گھر والے ان کی بات سمجھ نہیں پائیں گے۔ یعنی ان کی نرم مزاجی کو قبول نہیں کر پائیں گے۔

مردوں پر یہ ظلم نہیں تو اور کیا ہے کہ انہیں آقا بنانے کے لیے ان کی زندگی سے جذبات کے اظہار کا پورا کا پورا سبق کوالٹی کنٹرول کے نام پر پھاڑ دیا جاتا ہے۔ جس کی وجہ سے وہ نا صرف اپنے آپ کو تکلیف دیتے ہیں بلکہ دوسروں کے حقوق غضب کرنے کے مرتکب ہوتے ہیں۔

اس جملے مرد بنو اور اپنے جذبات سے منہ موڑ لو کہ سب سے بھیانک اثرات کیا مرتب ہوتے ہیں؟ مردوں کا عورتوں پر جسمانی، ذہنی، معاشی، سماجی، جنسی اور جذباتی تشدد۔

بات مردوں کی ذہنی صحت اور معیار زندگی کی ہو رہی ہے تو سوال یہ بھی ہے کہ مردوں کے لیے ہم عورتیں کیوں بولیں۔ وہ خود کیوں نہیں سمجھتے اور بولتے؟ شاید اس لیے کہ اپنے لیے کھڑے ہونا ان کے لیے ایک بہت ہی نیا تصور ہے۔ انہیں تو پیدا ہو کر ہی دنیا پر احسان کر دیا تھا، اور بادشاہ سلامت کو ہمیشہ بغیر مانگے سب کچھ ملا۔ وہ بھی جس کے وہ حقدار بھی نہیں تھے۔

ہاں مگر افسوس سونے کی تھالی کے عوض ان سے انسان ہونے کا جو حق چھینا گیا ان کی آنکھ وہ بھی نہیں دیکھ پاتی۔

پدرسری نظام نے عورتوں کو غلام بنا کر ان پر تو ظلم کیا ہے مگر مردوں کو بھی آقا بنا کر کم برا نہیں کیا۔ ہم عورتیں اپنی آزادی کے لیے آواز اٹھا رہے ہیں۔ لگتا ہے ان مردوں کی آزادی کے لیے آواز اٹھانے کا آغاز بھی ہمیں ہی کرنا پڑے گا۔

اس ہی جذبے کے ساتھ اپنی ایک چھوٹی سے نظم آپ کو سناتی ہوں اور اس خط کو ختم کرتی ہوں۔
نجات
گہری خاموشی تانے
یہ لڑکے
جانے کب سے
مرد بنو، مرد بنو، چنگھاڑیں سنتے آئے ہیں
گھر میں ہردم، ہر لمحے
ماں کے قد کو چھوٹا
باپ کو بڑھتا دیکھتے آئے ہیں
یہ لڑکے
جانے کب سے
اے، زور لگانا، تو لڑکی ہے کیا؟
یوں ظلم و ستم
نا انصافی کرنا سیکھتے آئے ہیں
یہ لڑکے
اے ماؤں
آؤ کہ ہم
ان لڑکوں کو اب
اپنی آغوش کی گرمی دے کر، اڑنا سکھلا دیں
انساں ہونے کا حق دلوا دیں
سرمایہ داری کی چکی توڑیں
ان کو
شاعر، مصور اور موسیقار بنا دیں
پھولوں، رنگوں، تتلیوں سے
باتیں کرنا سکھلا دیں
اے ماؤں
مردانگی کے پنجرے میں قید
ان لڑکوں کو ہم آزاد کرا دیں
جیو اور جینے دو
کہ کچھ اصول
سکھلا دیں
اے ماؤں
آ جاؤ
ان چھوٹے چھوٹے لڑکوں کو ہم
رونے اور اندھیروں سے ڈرنے کی
آزادی دلوا دیں
ثمراشتیاق

اس سیریز کے دیگر حصےمیری نظر میں مردانگی کیا ہے؟ سوالات کے جوابدیسی مرد، ابھی تک دائیوں اور بائیوں کے خمار سے نہیں نکل سکا

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments