آہ شمیم حنفی! لوگ رخصت ہوئے اور لوگ بھی کیسے کیسے


زندگی ایک غیر محفوظ کھیل ہے، کل کا کوئی وجود نہیں آج میں جیو، تعقل کو رد کر کے دھیان کی طرف بڑھو۔
( اوشو)
امن لکھنؤی نے لکھا
زندگی اک سوال ہے جس کا جواب موت ہے
موت بھی اک سوال ہے جس کا جواب کچھ نہیں

اشکوں اور آہوں سے یہ لبریز زندگی کتنی اذیت ناک بسر ہوتی جا رہی ہے۔ سینوں کی دھڑکنیں تیز ہوتی جا رہی ہیں۔ دلوں کی الجھنیں بڑھتی جا رہی ہے اور تمناؤں کے حسین پروانے مٹتے جا رہے ہیں۔ جگہ جگہ خوف کے پہرے اور مایوسیوں کے ڈیرے ہیں۔ کرونا وبا پوری دنیا میں دھاک بٹھائے ہوئے ہے۔ ہر سو خوف کے نعرے گونج رہے ہیں۔ رہی سہی کسر میڈیا پوری کر رہا ہے۔ میڈیا خوف کے انجکشن لگا رہا ہے۔ کرونا، کرونا کی صدائیں بلند ہوتی جا رہی ہیں۔

اس برس تو کرونا وبا نے ایسے وار کیے کہ بڑوں بڑوں کو اپنی لپیٹ میں لے کر ان کے پھیھڑوں کو چھلنی کر دیا اور سانسوں کی مالا کو چھین کر اللہ گھر پہنچا دیا۔ مشرف عالم ذوقی ایسی وائرس کا شکار ہوئے اور وائرس نے ان کو لپک لیا پھر ان کی بیگم کو بھی۔ کتنا اذیت ناک صدمہ تھا ابھی یہ صدمہ بھولا ہی نہیں تھا کہ ایک اور صدمہ دل کے دروازے پر دستک دے گیا، آہ شمیم حنفی صاحب! وہ بھی اس منحوس وائرس کا شکار ہو گئے۔ انہیں چند روز قبل کورونا وائرس سے متاثر ہونے کے بعد دہلی کے ایک ہسپتال میں داخل کرایا گیا تھا۔

انہیں وینٹیلیٹر نہیں مل رہا تھا جس کے بعد ان کے اہل خانہ نے سوشل میڈیا پر مدد کی گزارش کی تھی جس کے بعد انہیں عام آدمی پارٹی کے رہنما دلیپ پانڈے کی مدد سے ڈی آر ڈی او میں داخل کرایا گیا تھا۔ وہیں انہوں نے آخری سانس لی۔ ہم کب جانتے ہیں کہ ایک ان دیکھی موت ہمارا تعاقب کر ہی ہے۔ زندگی تو نے تو دھوکے پہ دیا ہے دھوکہ۔ شمیم صاحب 83 برس کی عمر میں اللہ گھر پہنچ گئے۔ اردو ادب میں سناٹا چھایا ہوا ہے۔ اس وقت یہ سناٹا میرے اندر بھی ہے۔

میرے سینے میں اک لرزش پیدا ہوگی ہے اور موت کی فرسودہ شاہراہوں سے بھاگنا چاہتا ہوں۔ لفظ بے معنی لگ رہے ہیں۔ شمیم حنفی کی شخصیت کی کئی جہات تھیں۔ وہ اردو کے ممتاز نقاد، شاعر ڈراما نگار، مترجم اور بچوں کے ادیب تھے۔ لیکن ان کو جو مقام و مرتبہ ملا وہ تنقید، جدیدیت کی فلسفیانہ اساس اور جدید اردو شاعری کی روایت تھی۔ ان کی تنقید کو غیر معمولی شہرت ملی۔ جب جب اردو تنقید کی بات ہوگی، شمیم صاحب کو ادارہ شمار کیا جائے گا۔

مستقبل کے نقاد کو شمیمی کوچے سے گزرنا ہوگا با الفاظ دیگر شمیمی چشموں سے گزرنا ہوگا۔ پاکستان میں ان کا غالباً آخری انٹرویو پاکستان کے نامور نقاد، افسانہ نگار جناب ناصر عباس نیر نے لیا اور موضوع بھی ”جدیدیت اور نئی شاعری“ تھا۔ وہ انٹرویو تقریباً چھپن ( 56 ) منٹس پر مشتمل تھا۔ تنقید کے دو بڑے ستونوں نے، نئی شاعری پر بہت تفصیلی اور دلیلی گفتگو کی تھی۔ وہ انٹرویو ضرور سنئیے گا۔ ان حضرات کے تنقید کے کوچے میں داخل ہو جائے پھر نکلنا مشکل ہوگا۔

شمیم صاحب ہندوستانی تہذیب کے ماہر تھے۔ یوں تو ان بہت شمار کتابیں مشہور ہوئی لیکن جو شہرت ”جدیدیت کی فلسفیانہ احساس“ نئی شاعری کی روایت ”اور منٹو حقیقت سے افسانہ تک“ کو ملی ان کی نظیر کم کم ملتی ہے۔ جدیدیت کی فلسفیانہ کی حیثیت بہت غیر معمولی ہے۔ یہ کتاب سات ابواب پر مشتمل ہے۔ ہر باب ایک منفرد حیثیت رکھتا ہے۔ اس کتاب کے اندر جدیدیت کا تاریخی تصور، ہندوستان میں جدید دور کا آغاز، بیسویں صدی کے فکری میلانات کا جائزہ، جدیدیت اور اشتراکیت، ترقی پسند کی فکری بنیاد، اور اردو شاعری میں جدیدیت کی روایت اور نئی شاعری کا ذکر ہوا ہے اور بہت تفصیل سے۔ اس کتاب کو گھر کی لائبریری کی زینت بنانا چاہیے۔

اللہ شمیم حنفی کو گلزار فردوس میں جگہ دے۔ آمین۔ جانے والے یہاں کے تھے ہی نہیں۔ باقی رہے نام اللہ کا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
2 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments